مسیحائی کا قحط

فرقان عزیز بٹ یوں تو جوشیلا جوان ہے اور اپنے جوش کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے لیکن دو دن قبل اس کا فون آیا تو میں نے اسے انتہائی افسردہ اور رنجیدہ پایا کہنے لگا ساگر بھائی ٹراما سنٹر میں پارکنگ کے نام پر عوام کو لوٹاجا رہا ہے،شیڈول ریٹ سے ڈبل پیسے وصول کئے جا رہے ہیں کار پارکنگ کے 40موٹر سائیکل کے20 اور سائیکل والا 10روپے ادا کرنے پر مجبور ہے ، اس بے ضابطگی پر حیرت کے ساتھ دکھ بھی ہوا، شہر میں پارکنگ سٹینڈز جگا اکٹھا کرنے کا بڑاذریعہ بن گئے ہیں شریف شہری پارکنگ کے لئے متبادل مناسب جگہ نہ ہونے کے باعث پارکنگ فیس بھی ادا کرتے ہیں اور بدتمیزعملے کی جھڑکیاں بھی کھاتے ہیں ٹراما سنٹر وہ جگہ ہے جہاں مصیبت کے مارے اپنے پیاروں کی زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے بمشکل پہنچتے ہیں یہاں بھی شہر کی دوسری جگہوں کی طرح جگا وصول کرنے والوں کا راج افسوسناک ہے ، مگر شاید دوسری جگہوں کی نسبت بے حسی کا عنصر یہاں زیادہ پایا جاتا ہے گزشتہ دنوں ڈاکٹرز کی باہمی لڑائی نے ڈی ایچ کیو اسپتال میں جو تماشہ لگایا تھا اور اس دوران انسانیت کی جو تذلیل ہوئی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،مریض تڑپ تڑپ کر مسیحاؤں کی دہائی دیتے رہے مگر بے سودتب یہ احساس ہوا تھا کہ ہم اخلاقی پستی میں شاید دنیا کی ساری اقوام کو ہی پیچھے چھوڑچکے ہیں، ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک انسان ہمارے سامنے سسک سسک کے جان دے رہا ہو تا ہے مگر ہمیں پرواہ نہیں ہوتی ، ذاتی مفادات اور دولت کے اندھے تعاقب نے انسانی قدروں کو بری طرح پامال کر دیا ہے یہی نہیں شہر میں مقامی حکومتوں کے تحت کام کرنے والے عملے نے بھی اودھم مچارکھا ہے نہ جانے کس کس بہانے سے مال اکٹھا کرکے افسرشاہی کی جانب سے دیا جانے والا ٹارگٹ پورا کیا جاتا ہے ٹی ایم اے کے سرکاری بھتہ خوروں نے دوکانداروں اور خوانچہ فروشوں کی ناک میں دم کیا ہو ا ہے،بڑے بڑے ائیر کنڈیشنڈ دفتروں میں میٹنگز کے نام پر خوش گپیوں میں وقت گزارنے والی مقامی سرکار نے اپنے کانوں میں بے حسی کی روئی ٹھونس رکھی ہے سو اس تک مجبوروں اور غریب دوکانداروں کی صدا پہنچنے سے قاصر ہے غریب چھابڑی والوں اور ان بڑے افسروں میں بنیادی فرق اور فاصلہ تعلیم کاہے چھابڑی والے اپنے حالات کی چکی میں پس کر سبزی فروٹ بیچنے پر مجبور ہوئے ہیں اور سارا دن سرکار کے خوف سے سہمے ہوئے اپنی بے عزتی کرواتے اور اپنی خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ حرام کھانے والوں کاپیٹ بھرنے پر صرف کرتے ہیں جبکہ سرکارمیں بیٹھیے اعلیٰ تعلیم یافتہ افسران پڑھ لکھ کر اس منصب تک تو آگئے ہیں لیکن انکی تعلیم معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے کسی کام کی نہیں کمشنر ،آر پی او،سی پی او یا ڈی سی او یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی کے ہاتھ میں بھی عوامی فلاح کی سرے سے لکیر ہی موجود نہیں ہے ذاتی کارکردگی دکھانے کے جنون میں مبتلا انگلی کے اشارے سے چھابڑی والوں کو رزق سے محروم کرنے والی میڈم صالحہ سعید کیاجانیں کہ گھروں میں بیٹھے کتنے اہل خانہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے ان خوانچہ فروشوں کی راہ تک رہے ہوتے ہیں ،انسانوں کے حقوق پامال کرنے والے انسانوں ہی کے اپنے بنائے ہوئے کالے قوانین جو لوگوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیں اصل میں معاشرتی بگاڑ کاباعث بنتے ہیں ، یہی بگاڑ جرائم خاص طور پر سٹریٹ کرائمز میں اضافے کا سبب بنتا ہے ،خدا کی پناہ اگرسرکار کو کسی کے لئے روزی کا انتظام کرنے کی فرصت نہیں تو نہ سہی لیکن اسے شہریوں سے روزی چھیننے کا بھی کو ئی حق نہیں، پاکستان سب کا ہے تواس میں چھابڑی والے کے لئے کو ئی ایک کو نہ کھدرا کیوں میسر نہیں،غریبوں کے لئے پاکستان کی زمین اتنی تنگ کر دی گئی ہے کہ لوگ اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، ہر جگہ عوام کی درگت بنائی جا رہی ہے، تھانوں کی تو بات ہی چھوڑیں وہاں جو نوٹنکی لگی ہوئی ہے وہ اتنی بھیانک ہے کہ بیان نہیں کی جاسکتی پولیس گردی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نظام میں جرائم پیشہ پولیس افسروں کو سزا دینے کا کوئی رواج نہیں حالانکہ مراعات کے باوجود جتنی گندی کارکردگی اس محکمے کی رہی ہے اب تو انکی وردی ہی نہیں چمڑی بھی اترنی چاہئے، تھانوں میں تشدد کر کے اقبال جرم کروانے کا فرسودہ طریقہ آج بھی جاری ہے اس تشدد سے تو شریف شہری گبھرا کر زمانے بھر کے جرائم کا اعتراف کرنے لگتا ہے،سو یہی وجہ ہے کہ جیلوں میں بے شمار بے گناہ قیدی اپنی قسمت کو بیٹھے کوس رہے ہیں، ہر آنے والا بڑا پولیس افسر فوٹو سیشن اور ڈائیلاگ بازی میں پیش رو کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور ہم پولیس گردی پر دو لفظ لکھ دیں تو جیسے پولیس والوں کی دم پر جیسے پاؤں ہی آجاتا ہے ، شہری لٹ رہے ہیں ڈکیتیاں عام بات ہو گئیں لیکن بغیر سفارش کے کوئی ایف آئی آر تک نہیں کاٹتا معاشرے میں ظلم ،زیادتیاں اور نا انصافیاں عروج پر ہیں لیکن کسی صاحب اختیار کا کلیجہ نہیں پھٹتا چہار سو مسیحائی کا قحط ہے اس لئے کہ اختیار رکھنے والوں نے سینے میں دل کی جگہ پتھر کی سل رکھ لی ہے۔

FAISAL FAROOQ SAGAR
About the Author: FAISAL FAROOQ SAGAR Read More Articles by FAISAL FAROOQ SAGAR: 107 Articles with 69063 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.