وہ 14جون2013 کی ایک سہانی شام تھی جب اتراکھنڈ کے
کیدارناتھ میں عقیدت مند ہر طرح کی مصیبت ‘پریشانی ‘خوف ‘دہشت‘آفت اور عذاب
کے احساس سے عاری و بے خبر شام کی لمحات سے پر لطف ہورہے تھے ۔تیز دھوپ
سامان سفر باندھ چکی تھی اور باران رحمت کے پر کیف‘روح افزا اور دلفریب
جھونکے بالوں میں کنگھی کر رہے تھے ۔تھوڑی دیر بعد رم جھم بارش ہونے لگی ۔اونچی
پہاڑیوں اور شہر میں موجود لوگ موسم کی اس پہلی بارش میں بھیگنے کے لیے گھر
وں سے نکل آئے ۔بارش ہوتی رہی اور ساعت ساعت اس میں تیز ی آتی چلی گئی ۔
چھاجوں بر سنے والی بارش اگر کسی کو کہاجا ئے تو اتراکھنڈ کی اس بارش کو
کہا جائے گا جس نے دیکھتے دیکھتے ہی جل تھل بھر دیے اور وہ رحمت سے زحمت بن
گئی ۔گڑگڑاہٹ کے ساتھ بادل پھٹنے لگے جن کے زور سے غیر قانونی طورپربنے
مکانات‘ہوٹلیں اورپہاڑوں میں بنے فارم ہاؤس بھر بھر ا کر گرکر دریا برد
ہونے لگے۔یہ قیامت خیز منظر دیکھ کر بارش میں بھیگتے لوگوں کی آنکھوں میں
خوف و دہشت کے اندھیر ے در آئے ۔تھوڑی دیر قبل خوش و خرم چہروں پر مردنی
چھا گئی ۔اس خوف و ہراس کے عالم میں ان کے منہ سے جوپہلی آواز نکلی ‘وہ تھی
’’بھاگو !بھا گو ‘بچا ؤ بچا ؤ ‘ہا ئے ہا ئے ․ ․ ․ ․ ․ ‘ ‘ یہ دل دوز آوازیں
کر بناک چیخوں میں بدل گئیں ‘قیامت کاساسماں تھا وہ۔حشر کاسا عالم تھا
وہ۔بادل بجلی ‘برق وباراں ‘بارش کا شراٹا ‘بد قسمت بہنے والے انسانوں
اورچوپایوں کی افلاک شکن چیخیں‘لوگوں میں بد حواسی‘ جان بچانے کی ہر ایک کو
تڑپ ․․․․کیا کیا نہیں ہواتھا قیامت کبریٰ سے پہلے۔آباد گھر اجڑ[ے‘قافلے
بکھرے ‘اپنے جدا ہو ئے ۔تباہی مچی ․․․․․․․ زمین میں غار بنے ‘چٹانیں پھسلیں․․․․․․اس
تمام خوفناک منظر کو دیکھنے والا ایک آدمی تھا جو موسم کے مزاج کی برہمی
محسوس کر کے پہاڑ کی سب سے بلند چوٹی پر چڑھ گیا تھا ۔وہ انتظار حسین کے
’’الیاسف ‘‘کی طرح تباہ ہونے والوں سے مختلف نہیں تھا تاہم ابھی اس کی
زندگی کی بہت سی سانسیں بچی ہو ئی تھیں جن کا سلسلہ کچھ دیر تک باقی تھا۔
وہ ایک چیز دیکھ رہا تھا ۔انسانوں کے ہاتھوں لائی ہو ئی تباہی کے مناظر اس
کے سامنے تھے۔اس کے آگیتماشے ہورہے تھے اور ایک عظیم خلقت چیخ رہی تھی ۔گہرے
گہرے پانی میں ڈبکیاں ماررہی تھی ۔کچھ لوگ اس مصیبت کے عالم میں ایک دوسرے
کا سہارا بن رہے تھے مگر تھوڑای دور چلنے کے بعد ان کے بھی پیر پھسلے اور
جوش مارتا پانی انھیں بہاتا لے گیا۔
اچانک اسے خیال آیا ‘یہ سب کیوں ہوا ؟بادل کیسے پھٹے ؟ کیسے جل تھل بھرگئے
؟․․․․․ابھی وہ اگلا سوال کر ہی رہا تھا کہ کل کے چند واقعات اس کے ذہن کی
اسکرین پر چھا گئے ۔
’’ارے ہاں !کل یہاں کیا عیاشی تھی ‘لوگ شراب میں کیسے مدہوش تھے ۔کیدراناتھ
کے چارو ں دھاموں میں‘روشنیوں ‘آتش بازیوں اور ہاہا کا راور قدرت سے مقابلہ
آرائی کے کیسے کیسے کرتب دکھا ئے جارہے تھے ۔ نوجوان اپنے ماضی حال سے بے
خبر اپنی جنس سے بے پروا ہ ناچ رہے تھے ۔لوگ آسمانی باپ کو بھول کر‘من کے
خدا کے فراموش کر کے کس طرح عالم مدہوشی میں غرق تھے ۔شاید یہ اسی کا نتیجہ
ہے ‘شاید یہ اسی کی جزا ہے ‘شاید یہ تادیبی کارروائی اسی لیے کی گئی ہے
․․․․․‘‘وہ سوچتا رہا اور ذہن الجھتا ہی رہا ۔
اچانک اس نے دیکھا ’’شیو‘‘کی سب سے بڑی مورتی ‘جسے اپنی ’’خدائی‘‘پر ناز
تھا ‘اس کی ہیبت دلوں میں بیٹھی تھی ‘دھڑام سے زمین پر آگئی یہی نہیں بلکہ
اس کا آدھا حصہ پانی میں بہہ گیا ۔
’’ارے خدا بھی بہہ گیا․․․․‘‘اچانک آخری آدمی کے ذہن میں ایک عجیب سا خیال
کوندا ’’نہیں !نہیں !۱ایسا نہیں ہوسکتا ۔بھلا بھگوان تباہ ہوسکتا ہے۔کو ئی
اپنے ساتھ بھگوان کی مورتی لایا ہوگا وہی گری ہوگی۔‘‘وہ یونہی اپنے دل کو
تسلی دیتا رہا مگر اس کا دل کسی مطمئن ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔
تشو یشا ت ‘اندیشے‘سوالات اس کے دما غ میں سیلاب بن کر چلتے رہے ‘ باہر
پانی تھا جس کی سطح بلند ہوتی جارہی تھی اور اندر سوالات کا تموج لیس سیلاب
تھا جو اس آخری آدمی کی ’’خودی‘‘کو ڈبورہا تھا۔
وہ شام کو اونچی چوٹی پر چڑھاتھا اور اب رات کے اندھیر ے بڑھے آرہے تھے ۔ان
سے بھی خوفناک لوگوں کی چیخیں تھیں ‘فضا میں گڑگڑاہٹ کر نے والے راحتی
طیاروں کی تھیں اور پانی کا شراٹا ان سب پر حاوی تھا ۔ بچا ؤ بچا ؤ کی دل
خراش چیخیں الگ تھیں جو رہ ہ رہ کر دم توڑ ہی تھیں مگر کو ئی بچانے والا
نہیں تھا ۔
اچانک ’’ آخری آدمی ‘‘نے چند آوازیں سنیں‘مڑ کر دیکھا تو سادھوؤں کے لباس
میں دو تین خستہ حال لوگ بڑھے آرہے تھے ۔’’مادھو!تمہارے پاس تو ایک ہی
انگوٹھی تھی ‘یہ تم نے چار کہاں سے پہن لیں ؟‘‘ان میں سے ایک نے سوال کیا
۔’’ارے یار وہ ایک آدمی بہتا جارہا تھا‘اس کے ہاتھ میں یہ انگوٹھیاں تھیں
میں نے موقع مناسب جانا اور اس کی انگلیاں کاٹ کر انگوٹھیاں نکال لیں ‘ہا
ہاہا ہا․․․․‘‘اس کا دالخراش قہقہہ فضا کا سینہ چیرتا چلاگیا ‘۔خری آدمی اسے
سن کر کانپ گیا۔
’’ہے بھگوان !یہ انسان کو کیاہوگیا!ایسی قیامت کے عالم میں بھی ‘یہ․․․یہ سب
!‘‘مارے دہشت کے اس کے الفاظ ٹوٹتے چلے گئے ۔
’’پنڈت جی ! مجھے تو مزا ہی آگیا ‘ایک کنیا کو میں نے بچا یا پھر اپنی کٹیا
میں لے جاکر اس سے خوب من مانی کی پتا نہیں اب بے چاری کا کیا حال
ہے۔‘‘دوسرا سادھو کہہ رہا تھا جسے سن کر سادھوؤں کے بھیس میں ملبوس بھیڑیے
ہنس پڑے‘’’ آخری آدمی ‘‘نے سینہ تھام لیا۔تیسرے سادھو نے کچھ کہنے کومنہ
کھولاکہ اچانک ایک راحتی طیارے کی گڑگڑاہٹ اس کی سفاکیت پر حاوی ہو گئی۔جو
ان کے عین اوپر سے گذررہا تھا ۔پانی اب بہت اوپر آچکا تھا اور بچا ؤ کے
تمام راستے مسدود تھے ۔ آخری آدمی نے بہت بھاگنے کی کوشش کی مگر عذاب سے بچ
نہ سکا ۔ہر سمت پانی تھا ‘ہر طرف پانی ‘دائیں پانی تھا اور بائیں پانی
‘اوپر سے بادل پھٹ رہے تھے نیچے زمین اپنا داہانہ کھولے ہو ئے تھی ۔اب بس
ایک ہی راستہ تھا موت کا اور موت کا ۔تمام لوگ ختم ہوچکے تھے اب کی تباہی
کانظاراکر نے والا آخری آدمی ‘بھی موت کی جانب بڑھ رہا تھا۔ |