نئے محسن

چنیوٹ شہر کے مضافات میں واقع ایک کچی آبادی تھی جس کا ماحول پتھر کے زمانے سے بھی بد تر تھا ۔اس کچی آبادی میں ایک سو کے قریب کچے گھروندے تھے ان میں انسان بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھنسے ہوئے تھے۔صحت ،صفائی اور تعلیم کا یہاں کوئی گزر نہ تھا۔یہاں کے باشندے اپنا ہر دکھ اپنے مقدر ، اپنی قسمت اور حالات کے کھاتے میں ڈال کر مجبوری کے عالم میں بے عملی اوربیزاری کے پیکر بن چکے تھے ۔یہاں نورا کنجڑا اور فجا بھٹیارا پڑوسی تھے ۔اس کچی آبادی کے جنوبی کنارے پر ایک گندے پانی کا جوہڑ تھاجس میں گاؤں کے لوگ اپنے مویشیوں کو نہلاتے اس کے علاوہ اس پوری آبادی کا کوڑا کرکٹ اور کچرا یہیں اکٹھا ہوتا تھا ۔گندے پانی سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اٹھتے تھے اورراہ گزرنا محال ہو جاتا تھا ۔ اس جوہڑ میں ہر قسم کے حشرات کی فراوانی تھی ۔دریا کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے اس میں بڑے بڑے نہنگ ،کچھوے ،مچھلیا ں اور سانپ بھی پائے جاتے تھے ۔سب سے زیادہ تعداد خون آشام طفیلی جونکوں کی تھی جو اس تالاب میں داخل ہونے والے انسانوں یا جانوروں کو چمٹ جاتیں اور ان کا خون پی لیتیں ۔ یہ ظالم ،بے رحم طفیلی جونکیں جن جانوروں کا خون پی کر پل رہی تھیں ان میں گدھے ،خچر ،گھوڑے ،بیل ،اونٹ اور دیگر جانور شامل تھے ۔قسمت سے محروم یہ بے زبان جانور اپنی پیاس بجھانے اس تالاب پر پہنچتے مگر انھیں کیا معلوم کہ سیکڑوں کی تعداد میں جونکیں ان کی منتظر ہیں۔ بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے گدھے ،خچر ، استر اور گھوڑے ان جونکوں کو تازہ خون فراہم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ تھے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ جونکیں سالہا سال سے ان جانوروں کے خون پر پل رہی تھیں مگر کسی کو احساس زیاں نہ تھا۔ ان جانوروں کو ان سے نہ تو کوئی ڈر محسوس ہوتا اور نہ ہی اپنے خون کے ضیاع پر کوئی تشویش ہوتی بل کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جونکوں اور ان جانوروں کوئی درد کا رشتہ ضرور موجود ہے ۔ سب جانور بے خطر اس تالاب میں کود پڑتے اور جب باہر نکلتے تو ان کا سیروں خون ان جونکوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں خرچ ہو چکا ہوتا ۔وقت بھی عجب گل کھلاتا ہے خچروں اور گدھوں کی چال اور جونکوں کے وبال میں کوئی فرق نہیں آتا۔

اس جگہ سے چند قدم کے فاصلے پر نورا کنجڑا اور فجا بھٹیارا رہتے تھے ۔فجے بھٹیارے کی بیٹی صابو چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی۔پورے علاقے میں اس کے حسن کے چرچے تھے ۔صابو تنور پر روٹیاں لگاتی اور شام کو بھٹی پر دانے بھونتی۔ اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹیاں اور بھٹی کے بھنے ہوئے دانے سب کو پسند تھے ۔قدرت کاملہ نے صابو کو حسن کی دولت عطا کرنے میں بے پناہ فیاضی سے کام لیا تھا ۔ اپنے حسن پر صابو کوبجا طور پر ناز تھا۔اس کی چال کڑی کمان کے تیر کے مانند تھی ۔اس کی نیم باز آنکھیں دیکھنے والے کو مخمور کر دیتیں۔ اس الھڑ سوانی کی اٹھتی جوانی اور اس کی چاندی کی گردن میں سونے کی گانی دیکھ کر دل پھینک قماش کے گھٹیا عاشق اور لا ابالی مزاج کے حسن پرست اور امیر نوجوان دل تھام لیتے ۔صابو کسی کی پروا نہ کرتی اور اپنی دھن میں مگن تنور اور چتڑی (بھٹی )پر محنت کر کے اپنا رزق کماتی ۔شاید اسی دائی کے بے پناہ ناز ،نخرے اور اداؤں کے بارے میں شیر افضل جعفری نے کہا تھا :
چنیوٹ کی دائی کے دعوے ہیں خدائی کے
اس دائی کی چال ،روپ اور اداؤں کے متعلق شیر افضل جعفری نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے :
سندر کو مل نازک دائی جھلمل جھلمل کرتی آئی
پھاگن کی سرشار فضا میں لال پری نے لی انگڑائی
تڑ تڑ کر تڑنے لگے پھلے تاروں کی دنیا شرمائی

نورے کنجڑے کا بیٹا ناصو بھی بہت محنتی اور جفاکش نو جوان تھا ۔نورا منہ اندھیرے اٹھتا اور نہار منہ ناصو کے ساتھ سبزی منڈی کا رخ کرتا۔دونوں باپ بیٹا صبح دس بجے تک وہاں خون پسینہ ایک کر کے پلے داری کرتے او رروزانہ فی کس تین سو روپے کے لگ بھگ کما لیتے ۔مزدوری سے فارغ ہو کر وہ ایک تھڑے پر بیٹھے نانبائی سے چنے اور روٹی لے کر کھاتے اور فٹ پاتھ پر لگے ہینڈ پمپ سے پانی پیتے ۔نورا کنجڑا یہ بات بڑے گھمنڈ سے بتایا کرتا کہ وہ زہرہ کنجڑن کا نواسا ہے ۔زہرہ کنجڑن جو کہ مغل بادشاہ جہاں دارشاہ کے زمانے میں دہلی کی رسوائے زمانہ رقاصہ تھی اور اس کی سہیلی لال کنور اس کے ساتھ مل کر کوٹھے پر بیٹھتی تھیں۔جہاں دارشاہ جب لال کنور کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوا تو اسے ملکہء ہند بنا لیا۔اس کے بعد عقابوں کے نشیمن میں زاغ و زغن گھس گئے۔لال کنور اور زہرہ کنجڑن نے جہاں دارشاہ کو کٹھ پتلی بنا دیا اور وہ ان رذیل طوائفوں کے سامنے بے بس و لاچار ہو کر رہ گیا۔لال کنور کا بھائی نعمت خان کلاونت ملتان کا صوبے دار بن گیا اور زہرہ کنجڑن نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ناصو کے دادا کو بھی ورثے میں ایک جاگیر ملی مگر وہ سب کچھ اس نے اونے پونے داموں بیچ دیااور شراب و شباب سے خوب گل چھرے اڑائے۔اس قسم کے حادثے اچانک کبھی نہیں ہوا کرتے بل کہ طویل عرصہ تک حالات کے زیر اثر یہ نمو پاتے رہتے ہیں۔مغلوں کے زوال کے بعد بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے مفاد پرست عناصر کو ایسے نکالا گیا جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے ۔ سیل زماں کے تھپیڑے کھا کھا کر زہرہ کنجڑن کا نواسا ایام گزشتہ کی کتاب کی نوحہ خوانی کے لیے در بہ در اور خاک بہ سر مارا مارا پھرتا تھااور لوگ اس کی حالت زار کو دیکھ کر توبہ استغفار کرتے تھے ۔

ناصو کنجڑا اور صابو دائی پڑوسی بھی تھے اور ہم عمر بھی تھے ۔ان دونوں کی باہمی قرببت اور میل ملاپ کی وجہ سے یہ گمان گزرتاکہشاید یہ دونوں پیمان وفا باندھ چکے ہیں ۔دونوں آپس میں جلد گھل مل جاتے اور بے تکلفی سے بات چیت بھی کر لیتے ۔ان کے گھر والے بھی ان کے ملنے پر کوئی اعتراض نہ کرتے ۔گزشتہ برس جب فجا بھٹیارا بیمار ہوا تو ناصو کنجڑا اسے لے کر نور شاہ دروازے کے قریب بیٹھے حکیم کے پاس گیااور اسے ایک پیر سے دم بھی کرایا۔اس کے گھٹنے کے درد کے لیے فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک عطائی سے شیر کی چربی اور سانڈے کا تیل بھی لایا۔اس کے باوجود صابو کو ناصو کنجڑا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ ناصو ایک متلون مزاج شخص تھا اس لیے وہ سمجھتی تھی کہ یہ شخص ایک ایسے بھنورے کی طرح ہے جو کہ ہر پھول پر منڈلاتا ہے ۔

سبزی منڈی سے فارغ ہونے کے بعد دن کے گیارہ بجے ناصو کنجڑا سبزی کی ریڑھی لگاتا اورمحلے کی گلیوں میں تازہ سبزی بیچتا۔اس طرح شام تک وہ مزید چارسو روپے کما لیتا ۔کچھ عرصہ بعد اچانک دائی صابو کو محسوس ہوا کہ کئی دنوں سے ناصو کنجڑا کچھ بدلا بدلا سا نظر آ رہا تھا۔اس کا لباس بھی بڑا امیرانہ اور انداز بھی انوکھے تھے ۔ وہ کسی پر تعیش ماحول میں زندگی بسر کرنے لگا تھا۔اب وہ تنور سے روٹی یا بھنے ہوئے دانوں اور گڑ سے تیار کیا ہوا مرنڈا نہ خریدتا بل کہ اس کے پاس سینڈ وچ ، برگر یا کیک ہوتے جو وہ شام کو بڑے مزے لے لے کر کھاتا۔یہ سب کچھ کھانے کے بعد وہ سوڈے کی ایک لٹر کی آدھی بوتل نکالتا اور اسے سلور کے جگ میں انڈیلتا اور برف ڈال کر کئی کٹورے غٹا غٹ پی جاتا۔ناصو کنجڑا اب جو لباس پہنتا وہ بھی بہت قیمتی ہوتا لیکن لباس پر پیوند کاری اور کئی مقامات پر کیڑو ں کی ضرب کاری سے یہ بات صاف معلوم ہو جاتی کہ یہ لباس کسی کی اترن ہے جو اسے کسی نے مفت دے دی ہے ۔ایک تبدیلی یہ آئی کہ ناصو کنجڑے نے اب دائی صابو سے دور رہنا شروع کر دیا۔وہ اپنے خیالات میں گم سم سا رہنے لگا ۔اب وہ سبزی منڈی سے واپس آتا تو سبزی کی ریڑھی لے کر کوئی اور رستہ اختیار کرتا تا کہ صابو کے تنور اور بھٹی سے اسے نجات مل جائے ۔ایک دن تنور پر روٹیا ں لگوانے کے لیے آنے والی عورتوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیااور ایک عورت بولی :
’’اب وہ سبزی والا ناصو کنجڑا کبھی ادھر سے نہیں گزرا۔پہلے تو ہم اس سے تازہ سبزی یہیں سے خرید لیتے تھے ۔‘‘

دوسری عورت بولی ’’ہاں وہ تازہ سبزہی بازار سے کم بھاؤ پر بیچتا تھا اور اس کے ساتھ دھنیا ،سبز مرچ اور تھوڑا سا پودینہ مفت دے دیتا تھا ۔نا معلوم اب وہ اس طرف سے کیوں نہیں گزرتا۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے کہ اب وہ کس طرف جاتا ہے َ‘‘ایک بڑھیا نے کھانستے ہوئے کہا’’اب وہ چوک سے پنڈی بھٹیا ں روڈ پر جہاں یہ تنور ہے نہیں آتا بل کہ جھنگ روڈ پر مڑ جاتا ہے اور سامنے ہی کھڑا ہو جاتا ہے جہاں ایک کوٹھی والی بیگم صاحبہ کے ساتھ ان دنوں اس کی گاڑھی چھنتی ہے ۔وہ چڑیل نوجوان جن کو بوتل میں بند کرنے کا فن خوب جانتی ہے ۔اس کی کوٹھی میں نو جوان لڑکوں اور حسین و جمیل نو جوان دوشیزاؤں کا تانتا بندھا رہتاہے ۔مجھے تویہ عورت ایک نائکہ لگتی ہے ۔‘‘

’’میں سمجھ گئی تم نے خوب کھوج لگایا‘‘ایک ادھیڑ عمر کی عورت نے انگشت شہادت ناک پر رکھتے ہوئے کہا’’اس کوٹھی میں ایک بیوہ عورت کامنی رہتی ہے ،لوگ اسے ناگن اور ڈائن کہتے ہیں ۔اس نے اپنے بہت بڑے سرمایہ دار شوہر کو ڈس لیااور اب شوہر کی موت کے بعد اس کی دولت پر گلچھرے اڑا رہی ہے ۔ غریب نوجوان لڑکوں کو ورغلا کر اپنے پاس بلاتی ہے ،اپنے مرحوم شوہر کے پرانے کپڑے انھیں پہناتی ہے ۔اس طرح اپنی زندگی کی یادیں تازہ کر کے سکون پاتی ہے اور عیاشی کرتی ہے ۔‘‘

’’تم سب اپنے کام سے غرض رکھو‘‘ دائی صابو نے غصے سے کہا’’کسی کی پیٹھ کے پیچھے اس کی برائی بیان کرنا ظلم ہے ۔‘‘

’’ناصو کنجڑے نے بھی تو ظلم کیا ہے ۔‘‘ایک تیز اور جہاں دیدہ عورت نے جواب دیا ’’پہلے تو دائی صابو کے تنور کا طواف کرتا تھا ۔یہیں سے روٹی اور دال لے کر کھاتا تھا ۔اس وقت تو ہماری پیاری دائی صابو کے ہاتھ کے بنے ہوئے مرنڈے اسے اچھے لگتے تھے اور اب وہ کامنی کے نام کی مالا جپتا ہے ۔بے وفا اور ظالم کہیں کا ۔‘‘

’’ میرا نام درمیان میں نہ لاؤ ‘‘دائی صابو نے آگ بگولا ہو کر کہا’’وہ میرا پڑوسی ضرور ہے مگر اس کے علاوہ اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔اب یہ اس کا اختیار ہے کہ جس راہ پر اس کا جی چاہے چلے ۔ہم سب اسے روکنے والے کون ہوتے ہیں؟‘‘

’’اونہہ جس راہ پر اس کا جی چاہے چلے ‘‘ ایک حسین اور نو جوان عورت نے غصے سے کہا’’یہ سب پیسے کا کھیل ہے پیار ،وفا ،محبت کی کوئی قدر نہیں ۔وہ ہر جائی کنجڑا دائی صابو سے بے وفائی کر کے ایک امیر بیوہ کی چوکھٹ پر جا گرا اور اب اس ڈائن کے تلوے چاٹ کر پنی خواہشوں کی تسکین چاہتا ہے ۔وہ فریب کھا چکا ہے وہ ضرور پچھتائے گا۔ہماری دائی تو لاکھوں میں ایک ہے ۔‘‘

شام کے سائے ڈھلنے لگے ۔آج تنور پر عورتوں نے جو باتیں کیں ،وہ سن کر دائی صابو کو بہت پریشانی ہوئی ۔گھر پہنچی تو ناصو کنجڑا اس کے باپ کے پاس بیٹھا تھا۔آج اس نے عمدہ قسم کے استعما ل شدہ کپڑے پہن رکھے تھے اور سامنے ایک تھالی میں کچھ برگر ،سینڈ وچ ،ایگ رول اور پیزا کے ٹکڑے پڑے تھے ۔پاس ہی سوڈے کی آدھی بوتل بھی رکھی تھی ۔

’’یہ سب چیزیں کس لیے لائے ہو ؟‘‘دائی صابو نے پوچھا ’’مجھے تو یہ بچے ہوئے کھانے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ تم کہاں سے اٹھا کر لائے ہو ؟‘‘

’’یہ تم کھا لو ‘‘ناصو نے نہایت ڈھٹائی سے کہا’’میں نے شام کو ایک میڈم کی کوٹھی میں نوکری کر لی ہے ۔ان کے ہاں اکثر دعوتیں ہو تی رہتی ہیں ۔یہ جو کھانے بچ جاتے ہیں وہ میں خود بھی کھا لیتا ہوں اور بابا کے لیے بھی لے آتا ہوں ۔آج سوچا کہ یہ انگریزی کھانے تمھیں بھی چکھاؤں تم لوگوں کی اتنی ہستی کہاں کہ ان بہت ہی مہنگے چینی اور انگریزی کھانوں کے مزے لے سکو؟‘‘

’’بند کرو یہ فضول باتیں ‘‘فجا بھٹیارا بولا’’تم نے ہمیں کیا سمجھ رکھا ہے ؟ہم غریب لوگ بھوک سے مر تو سکتے ہیں لیکن کسی کے بچے ہوئے کھانے کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنا بھی ہمیں گوارا نہیں ۔تمھیں امیروں کی اترن اور بچا کھچا کھانا نصیب رہے ہمیں تو اس سے معاف رکھو۔‘‘
ناصو کنجڑا جب سب سامان سمیٹ رہا تھا تو اس کا خون کھول رہا تھا ۔وہ اسے اپنی بے عزتی سمجھ رہا تھا ۔اگرچہ وہ کوئی دلیل نہ دے سکا لیکن دل ہی دل میں وہ دائی صابواور اس کے باپ کو بری طرح کوس رہا تھا۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ فاقہ کش غریب لوگ اس قدر خود دار بھی ہو سکتے ہیں۔جاتے وقت اس نے دائی صابو کی طرف گھورتے ہوئے کہا :
’’آج کے بعد میرا تم سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا ۔‘‘

’’ عجیب بات ہے ‘‘ دائی صابو نے حیرت سے کہا ’’پہلے کون سا تعلق تھاجسے اب تم ختم کرنے جا رہے ہو؟اگر ہم کامنی کے مرحوم شوہر کی اترن اور کامنی کے دستر خوان کے بچے کھچے ٹکڑے پسند نہ کریں تو اس میں ہمارا کون سا قصور ہے ؟‘‘

’’کان کھول کر سن لو ناصو میاں ہم یہ جیتی مکھی نہیں نگل سکتے ۔‘‘فجا بھٹیارا حقے کے کش لگاتے ہوئے بولا’’بے غیرتی ،بے حسی ،بے ضمیری اور بے حیائی انسان کو جیتے جی ما ر ڈالتی ہے ۔جب کوئی شخص اپنی عزت ،انا اور خودد اری کا گلا گھونٹ دیتا ہے تو اس کی حالت چلتے پھرتے ہوئی مردے کی سی ہو جاتی ہے ۔تم جو جی چاہے کرو لیکن ہمیں اپنی غلط ڈگر پر مت چلاؤ جو کہ مکمل تباہی کی جانب لے جاتی ہے ۔کوڑے کے ڈھیر سے ہڈیاں چن کر پیٹ کا دوزخ بھرنے سے تو موت ہی بہتر ہے ۔امیروں کی چوکھٹ پر ناک رگڑنے کے بعد اگر ان کا بچا کھچا کھانا ملتا ہے تو اس سے تو بھوکا رہنا بہتر ہے ۔‘‘

’’تم لوگوں کو بھوک اور فاقہ کشی سے محبت ہے تو ایسا ہی سہی ‘‘ناصو کنجڑا مجسم بے غیرتی بن کر بولا ’’ہم تو اب یہ دکھ نہیں سہہ سکتے ۔ہم کل سے یہ جھونپڑی چھوڑ کر جا رہے ہیں اور میڈم کامنی کی بہت بڑی اور خوب صورت کوٹھی کے کوارٹر میں رہیں گے َ۔وہاں پانی ،بجلی ،گیس اور ہر قسم کی سہولت میسر ہے ۔اب ہم اس کال کو ٹھڑی میں مزید نہیں رہ سکتے جہاں زندگی اذیت اور عذاب بن کر رہ گئی ہے ۔میڈم کامنی میری محسن ہے ۔اس نے مجھے سر چھپانے کے لیے آرام دہ جگہ مفت مہیا کر دی ہے اور ساتھ ہی دووقت کا کھانا اور پانچ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ بھی ملے گی ۔کام صرف رات کی چوکیداری ہے ۔‘‘

’’یہ تمھاری اپنی خوشی ہے ‘‘فجا بھٹیارا بولا’’ہم تو اپنی اسی جھونپڑی میں ہی زندگی کے دن پورے کریں گے ۔مانگے کی خوشیاں بالکل عارضی ہوتی ہیں ۔یہ وہم ،گمان اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔تم جہاں رہو خوش رہو۔تم سبزی منڈی میں جا کر پلے داری کرو یا کسی امیر بیوہ کے مکان کی چوکیداری کرو یہ تمھاری اپنی مرضی ہے ۔ہم تو اپنے حال میں مست ہیں۔ اﷲ کریم نے ہمیں جس حال میں رکھا ہے ہم اس پر راضی ہیں ۔چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانے سے ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

ناصو کنجڑا بڑ بڑاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ اگلے دن علی الصبح ناصو کنجڑا اپنی جھونپڑی خالی کر کے چلا گیا ۔یہ بوسیدہ کھنڈر نما جھونپڑی ایک نوجوان نتھو تیلی نے انھیں منہ مانگے دام دے کر خرید لی اور یہاں وہ اپنا کولھو لگانے کا منصوبہ بنانے لگا۔ناصو کنجڑا اور اس کا باپ میڈم کامنی کے سرونٹ کوارٹر میں رہنے لگے ۔چار عشروں پر محیط ان دو غریب خاندانوں کے تعلقات اب ماضی کے طوماروں میں دب گئے ۔جاتے جاتے ناصو کنجڑا سارے سلسلے ہی توڑ گیااور عمر بھر دائی صابو سے نہ ملنے کی قسم کھا لی ۔

دائی صابو نے اس تمام روداد کو ایک بھیانک خواب سمجھتے ہوئے جلد ہی اس کے اثر سے نجات حاصل کر لی ۔ایک برس بیت گیا ناصو کنجڑا ایسا گیا کہ پھر کبھی نظر نہ آیا۔نتھو تیلی کا کولھو بہت کامیاب ہوا اس کا کاروبار چل نکلا۔وہ سرسوں ،کنولااور دوسری تیل دار اجناس کا تیل نکال کر بیچتاتھا۔اس کی ایمان داری کے بہت چرچے تھے ۔جلد ہی اس نے اپنا مکان بھی تعمیر کر لیا اور شہر میں ایک دکان بھی بنا لی ۔

کا منی کرائے کی کو ٹھی میں رہتی تھی ۔اس نے اس کوٹھی کو قحبہ خانے اور عیاشی کے اڈے میں بدل دیا تھا ۔محلے والوں نے اس کے خلاف درخواست دی اور اسے وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا ۔اس نے تو اپنی الگ دنیا کہیں اور بسا لی لیکن ناصو کنجڑا نہ تو تین میں رہااور نہ ہی وہ تیرہ میں رہا۔کامنی نے اسے منشیات کا عادی بنا دیا تھا ۔اس عرصے میں اس کا باپ چل بسا اور ناصو کنجڑے کی تمام جمع پونجی منشیات اور کامنی کی بھینٹ چڑھ گئی ۔اب نہ تو وہ کوئی کام کر سکتا تھااور نہ ہی اسے کسی طرف سے امداد یا سہارے کی توقع تھی ۔مفلسی جب ہوس کی راہ پر چل نکلتی ہے تو اس کی تیر اندازی سے عزت و ناموس اور انا مات کھاکر رہ جاتی ہے ۔ناصو کنجڑا اچھے دنوں کی تلاش میں دیوانہ وار اس راہ پر چل نکلا جس نے اسے سرابوں کے صحرا میں پہنچا دیا۔اس کے کان اب صدائے جرس کو ترس گئے تھے ۔

نتھو تیلی نے سخت محنت کو اپنا شعار بنایا۔اپنی خوش اخلاقی اور بلند کردار سے معاشرے میں عزت پائی اور جلد ہی اپنے ہمسائے فجے بھٹیارے اور دائی صابو کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اپنے کردار ، وقار اور محنت کے بل بوتے پر وہ دائی صابو کی محبت حاصل کر سکا۔جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن اس کے لیے زمین پر بھی جدو جہد ضروری ہے ۔نتھو تیلی نے دائی صابو کے ساتھ ایک عہد وفا استوار کیا اور اسی کو گردش لیل و نہار کا علاج سمجھا۔نتھو تیلی کی وفا کی اس موج نسیم نے دائی صابو کے قریہء جاں کو معطر کر دیا ۔ دائی صابو کی شادی نتھو تیلی سے ہو گئی اور اب ان کے آنگن میں دو خوب صور ت پھول کھل اٹھے تھے ۔تحصیل چوک پر واقع گھاس کے میدان میں بہت سے لوگ زمین پر رات کو سوتے تھے ۔ان میں سے بیش تر منشیات کے عادی تھے ۔ ناصو کنجڑا بھی ان میں شامل تھا۔ایک رات جب نتھو تیلی اور دائی صابو اپنی اپنی محنت مزدوری سے فارغ ہو کر گھر لوٹ رہے تھے تو ایک چیتھڑوں میں ملبوس خستہ حال لا غر سے فقیر نے صدا لگائی :
’’اﷲ کے نام پر مجھ پر ترس کھاؤ ،میں بیمار ہوں اور تین دن سے فاقے سے ہوں۔میرا اس دنیا میں اب کوئی بھی نہیں کوئی ہے جو مجھ غریب پر رحم کرے اور نیکی کمائے ۔‘ُ‘

نتھو تیلی اور دائی صابو کے قدم اس مانوس آواز کو سن کر رک گئے ۔نتھو نے فقیر کو پہچان لیا ۔یہ تووہی شخص تھا جس سے اس نے جھونپڑی خریدی تھی ۔یہ تو ناصو کنجڑا تھا جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔اس نے اسی وقت ناصو کا ہاتھ تھام لیا اور اسے اپنے ساتھ لے کر گھر آیا۔دائی صابو نے اسے کھانا دیا ۔اس کے علاج کے لیے ماہر معالج سے رجوع کیا گیا۔صرف چار ماہ کے علاج کے بعد ناصو کی طبیعت سنبھل گئی اور وہ پھر سے سبزی بیچنے لگا ۔اس کے علاج کے تمام اخراجات نتھوتیلی نے برداشت کیے ۔اس نیک کام میں اسے دائی صابو کی تائید بھی حاصل تھی ۔ان دونوں میاں بیوی کی کوششوں سے ناصو کنجڑے کی شادی بھی ہو گئی اور اب وہ ہنسی خوشی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے ۔کامنی نے ناصو کنجڑے کی زندگی میں جو زہر گھولااب وہ اس کے اثر سے نکل چکا ہے ۔جب بھی وہ بیتے دنوں کو یاد کرتا ہے تو اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طر ح برسنے لگتی ہیں۔اپنے ان نئے محسنوں کے لیے ناصو کے دل میں بہت عزت ہے جن کی وجہ سے اسے نئی زندگی ملی۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 612702 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.