خوشی پانے اور خوش رہنے کا راز

خوشی تو ایسی چڑیا ہے جو آپ کی کوشش کے بغیر آپ کے دامن پر اتر آتی ہے۔ اس کے لیے آپ نے کوشش بھی نہیں کی ہوتی۔ تیار بھی نہیں ہوئے ہوتے ، لیکن وہ آجاتی ہے۔اشفاق احمد نے زاویہ میں خوشی کا راز بیان کرتے ہوئے یہ بات لکھی تھی۔ ہماری زندگی میں خوشی کی بہار اچانک اور چپکے ہی سے آتی ہے، دل کی کلی کب مسکرانے لگتی ہے اور کب خوشی کے بادلوں پر سوار ہوکر آپ کا دل مسرت سے بھر جاتا ہے، اس کا کوئی اصول قاعدہ قانون نہیں ہے۔ اس کے لئے نہ کسی سرمائے کی ضرورت ہے، نہ کسی دھن دولت کی، یہ خوشیاں تو آپ کے آس پاس پھیلی ہوئی ہیں۔ بس مسئلہ اتنا ہے کہ آپ کب ان کی جانب متوجہ وہتے ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ ،،اگر آپ معمولی باتوں کی طرف دھیان دیں گے ، اگر آپ اپنی " کنکری " کو بہت دور تک جھیل میں پھینکیں گے، تو بہت بڑا دائرہ پیدا ہوگا۔ لیکن آپ کی آرزو یہ ہے کہ آپ کو بنا بنایا بڑا دائرہ کہیں سے مل جائے۔ اور وہ آپ کی زندگی میں داخل ہو جائے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ سیانے کہا کرتے تھے کہ خوش رہنا انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔

قدرت کا ایک قانون ہے جب تک آپ چھوٹی چیزوں پر ، معمولی باتوں پر ، جو آپ کی توجہ میں کبھی نہیں آئیں، اپنے بچے پر ، اپنے بھانجے پر ، اور اپنے بھتیجے پر آپ جب تک اس کی چھوٹی سی حرکت پر خوش نہیں ہونگے تو آپ کو دنیا کی کوئی چیز یا دولت خوشی عطا نہیں کر سکے گی۔ روپے ، پیسے سے آپ کوئی کیمرہ خرید لیں ، خواتین کپڑا خرید لیں اور وہ یہ چیزیں خریدتی چلی جاتی ہیں کہ یہ ہمیں خوشی عطا کریں گی۔ لیکن جب وہ چیز گھر میں آ جاتی ہے تو اس کی قدر و قیمت گھٹنا شروع ہو جاتی ہے۔

میرے دفتر کے راستے میں بہت سی نرسریاں آتی ہیں۔ان کا مشاہدہ کرنا ہمیشہ میرے لیے قلب و نظرکی راحت کا سامان رہا ہے۔ ان کے رنگ برنگے پھول، خوش نماپودے ، سرسبز و شاداب درخت راستے سے گزرنے والے ہر شخص کو ایک خوش گوار ذہنی کیفیت سے روشناس کراتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو ہمیں ناگوار لگتی ہیں۔ان پھولوں کے درمیان کیڑ ے کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ پھول پودوں کے رنگ وخوشبو کے ساتھ کھاد کی غلاظت بھی ہوتی ہے۔ درختوں کی بلندی پر جو سرسبز شاخیں جھولتی ہیں ، وہ ایک نسبتاًبدنما اور بدرنگ تنے کے سہارے پر بلند ہوتی ہیں۔یہ اور ان جیسے بہت سے ناگزیر حقائق اس دلکش دنیا کا لازمی حصہ ہیں۔

یہ حقائق ہمیں خد اکی دنیا کے ایک قانون سے روشناس کراتے ہیں۔وہ یہ کہ اس دنیا کواللہ تعالیٰ نے جس اصول پر تخلیق کیا ہے ، وہ آزمائش کا اصول ہے۔اس لیے یہاں حسن کے ساتھ بدصورتی، خوشبو کے ساتھ بدبو اور پھول کے ساتھ کیڑ ے کانٹے سب ہوتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں خوشی کے ساتھ غم، آسانی کے ساتھ مشکل، راحت کے ساتھ زحمت اورامید کے ساتھ مایوسی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح پھولوں کی دنیا میں منفی حقائق کو قبول کر کے ہی رنگ وخوشبو اور حسن و سبزے کی بہار کا لطف اٹھایا جاتا ہے ، اسی طرح زندگی کی تلخ حقیقتوں پر کڑ ھنے کے بجائے انھیں حوصلے سے قبول کرنے ہی سے انسان دنیا کی نعمتوں کا فائدہ اٹھانے کے قابل ہوتا ہے۔

اس دنیا میں خوشگوار حالات کے ساتھ ہمیشہ منفی حالات پائے جائیں گے۔خوشی کا راز یہ ہے کہ اپنی نظر ہمیشہ اچھی چیزوں کی طرف رکھی جائے۔ جو بدلا جا سکے اسے بدلنے کی کوشش کرنے کے بعد ہر ناگوار چیز کو نظر انداز کر دیا جائے۔ یہی اس دنیا میں حقیقی خوشی کا راز ہے ۔خوشی پانے کی کنجی کیا ہے؟ دوست، حس مزاح، جنسی آسودگی یا دولت؟ روایتی سوچ کے مطابق خوش رہنے کا کوئی فارمولا نہیں ہے۔ یا ہے؟ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب پانے کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے سائنسدان کوششوں میں مصروف ہیں۔

سائنسدانوں نے برسوں تک کی جانے والی اپنی تحقیق میں اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے انسان کے سماجی، معاشی اور نفسیاتی پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ اگرچہ انہیں خوشی کا کوئی حتمی فارمولا تو نہیں ملا تاہم یہ ضرور ہوا کہ وہ خوشی کے حصول کے سلسلے میں چند ایسے اہم نکات کا کھوج لگانے میں کامیاب رہے ہیں، جو کسی بھی شخص کے ذاتی اور ثقافتی پس منظر سے قطع نظر اس پر لاگو ہو سکتے ہیں۔حال ہی میں ایک کتاب world Book of Happiness ) ( The یا ’خوشی کی عالمی کتاب‘ منظر عام پر آئی ہے۔ اس کتاب میں خوشی کا راز پانے کی کوششوں میں مصروف اور اپنے اپنے شعبے میں دنیا کے بہترین محققین اور سائنسدانوں کے 100 مضامین کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ کتاب کا ماحاصل یہ ہے کہ خوشی کا جذبہ حاصل کرنے کے لیے صرف مادی دولت کا ہونا ضروری نہیں۔روٹرڈیم کی ایراسمس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر Ruut Veenhofen مثبت نفسیات کے شعبے کے ماہر ہیں۔ ان کے مطابق خوشی کا مطلب ہے ’اپنی ذاتی زندگی کی قدر کرنا‘۔ انہوں نے خوشی کی اس تعریف کے ساتھ ہی دنیا کے148 ممالک کے شہریوں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ ’وہ اپنی زندگی میں موجود ہر چیز کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ وہ اس وقت اپنی زندگی سے کتنے خوش ہیں؟‘

1 سے 10 تک کے پیمانے کو استعمال کرتے ہوئے Veen hofen نے خوشی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے آسودہ ملک کوسٹا ریکا کو(8.5) پایا۔ اس کے بعد ڈنمارک (8.3)، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ (دونوں 8.0) رہے۔ جبکہ جس ملک کے عوام میں سب سے کم خوشی پائی گئی، ان میں افریقی ممالک ٹوگو( 2.6)، تنزانیہ ( 2.6) اور زمبابوے (2.8) شامل ہیں۔

بیشتر محققین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی میگزین فوربز میں دنیا کے امیر ترین افراد کی جاری کردہ فہرست میں نام شامل ہونے سے یہ گارنٹی نہیں ملتی کہ وہ شخص نہایت آسودہ اور خوشیوں بھری زندگی بھی گزار رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق مادی دولت کا مطلب یہ نہیں کہ دولت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی بڑھتی جائے گی۔ مثال کے طور پر مادی دولت سے مالا مال ملک ناروے کو لے لیں، جو خوش باش لوگوں کے اسکیل پر 7.9 پوانٹس حاصل کر سکا ہے۔خوش رہنے میں مستحکم خاندانی تعلقات اور دوسروں کی مدد کا جذبہ بھی مدد دیتا ہے۔ماہرین کے مطابق خوشی کا ایک اور اہم راز ہے، خود کا دوسرے سے تقابل نہ کرنا۔ یونیورسٹی آف آئیووا کے پروفیسر ڈیوڈ واٹسن کہتے ہیں کہ اگر خوش رہنا ہے تو ’خود کو حسد اور جلن سے آزاد رکھیں‘۔ اسی طرح پیرس کی سوبورن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی پروفیسر کلاڈیا سینک کہتی ہیں کہ خود کا دوسروں سے موازنہ نہ کریں بلکہ اپنے منصوبوں اور اپنی آرزوؤں پر توجہ مرکوز رکھیں۔
وٹرڈیم کی ایراسمس یونیورسٹی میں سماجی حالات اور انسانی مسرت کے پروفیسر امیریٹس اور ڈیٹا بیس کے ڈائریکٹر پروفیسر روٹ ہاون کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے مطالعہ میں لوگوں کے اہداف اور اس کے نتیجے میں ان کی خوشی کے ذکر میں منفی تعلق پایا۔ان کا کہنا ہے کہ ’عام طور پر بھلے ہی یہ سمجھا جاتا کہ خوشحال زندگی گزارنے کے لئے کسی ہدف کا ہونا ضروری ہے لیکن اس بارے میں متفرق آراءنظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ کئی بار اداس افراد اپنے اہداف کے تئیں زیادہ بیدار ہوتے ہیں کیونکہ خوشی کے حصول کے لیے وہ اپنی زندگی کو بدلنا چاہتے ہیں۔‘

اس تحقیق کا سب سے منفرد نتیجہ شاید یہ ہے کہ زندگی میں معنی تلاش کرنے اور خوش رہنے کے درمیان بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا میں دس ایسے ممالک ہیں، جہاں لوگوں میں خوشی کا عنصر زیادہ ہے۔ ان دس سب سے خوش ممالک میں کوسٹا ریکا، ڈنمارک ، آئس لینڈ، سوئٹزر لینڈ، ناروے، فن لینڈ، میکسیکو ، سویڈن، کینیڈا، پناما،پروفیسر وین ہاون کا کہنا ہے: ’مجھے حیرت ہے کہ ہمیں ان دونوں میں کوئی تعلق نظر نہیں آیا۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے خوشی کا سب سے مضبوط تعلق ایک فعال زندگی سے ہے۔‘

ان کا کہنا ہے: ’ایک خوشحال اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ فعال رہیں۔ خوشی کے لیے سرگرمی اور فعالیت زیادہ ضروری ہے بہ نسبت اس کے کہ یہ کیسے ہے اور ہم ایسے کیوں ہیں۔‘اس ڈیٹابیس کی سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو مزید خوشیوں بھری بنا سکتے ہیں اور اس کے بیرونی محرکات میں صرف پیسہ ہونا ضروری نہیں۔ ہاون کہتے ہیں کہ ’تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہم خود کو خوش رکھ سکتے ہیں کیونکہ خوشی بھی وقت کے ساتھ بدلتی ہے۔ یہ تبدیلی صرف بہتر حالات کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ زندگی کو متوازن طریقے سے گزارنے سے بھی آتی ہے۔ بزرگ اور معمر لوگ نسبتا زیادہ عقلمند ہونے کی وجہ سے بھی خوش رہتے ہیں۔‘ ان تحقیقات کے مطابق آپ اس وقت زیادہ خوش ہو سکتے ہیں جب:
آپ کسی کے ساتھ طویل عرصے تک رشتہ قائم رکھیں
جب آپ سیاست میں سرگرم ہوں
کام اور فرصت کے اوقات میں بھی سرگرم رہیں
ڈنر کے لئے باہر جاتے ہوں
کسی کے ساتھ گہری دوستی ہو (اگرچہ دوستوں کی تعداد سے خوشی میں اضافے کا تعلق نہیں ہے)تحقیق کے کچھ حیرت انگیز نتائج یہ بھی ہیں: جو لوگ میانہ روی کے ساتھ کوئی شغل کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ خوش رہتے ہیں جو کوئی مشغلہ نہیں رکھتے۔ مرد اس معاشرے میں زیادہ خوش رہتے ہیں جہاں خواتین کو زیادہ مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔کسی مرد کی خوشی میں اس بات سے زیادہ اضافہ ہوتا کہ اسے خوش شکل تصور کیا جاتا ہے جبکہ خواتین کو اس بابت ان سے کم خوشی کا احساس ہوتا ہے۔جب آپ خود کو خوبصورت تصور کرتے ہیں تو آپ اس بات سے زیادہ خوش ہوتے ہیں کہ آپ واقعی خوش شکل ہیں۔ بچوں کی پیدائش سے خوشی کی سطح کم ہوجاتی ہے لیکن آپ کی خوشی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ ہم جہاں خوشیاں تلاش کر رہے ہوں ان راہوں پر خوشیاں نہ ہوں جرمنی میں ہونے والی ایک مطالعہ میں نقل و حمل میں گزارے گئے وقت اور زندگی سے ملنے والے سکون کے درمیان گہرا تعلق پایا گیاہے۔ کام پر جانے کے لئے ایک گھنٹے تک کا وقت سفر میں گزارانے والے لوگ ان کے مقابلے میں کم خوش تھے جو یہ سفر نہیں کرتے۔

اس مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ زیادہ تنخواہ والی ایسی نوکری بھی وقت برباد ہونے کی تلافی نہیں کر سکتی جس میں آمد و رفت کی دقتیں ہوں۔

پروفیسر ہاون اور ان کے ساتھیوں نے لوگوں کو ایسے کام کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے جن سے ان کو خوشی ملتی ہے اور وہ اس کا ذکر آن لائن بھی کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ابھی تک 20 ہزار افراد اس کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اداسی بھی مفید ہے۔ یہ لال رنگ کی ایک ٹریفک لائٹ کی طرح ہے جس سے آپ کو اپنے منفی رویے پر لگام لگانے کا اشارہ ملتا ہے۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی سے وابستہ ماہر نفسیات پروفیسر سونیالیوبومرسکی کہتی ہیں کہ ’آیا ہم خوش باش رہنے والی شخصیت ہیں یا نہیں، اس کا 50 فیصد ہمیں پیدائشی طور پر ہی مل جاتا ہے۔ 10 فیصد کا تعلق ہمارے حالات زندگی سے جبکہ خوش رہنے کا باقی 40 فیصد دار و مدار ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہوتا ہے‘۔
بہت سے ماہرین کے خیال میں ورزش، حسِ مزاح، ملازمت، صحت اور جنسی آسودگی بھی خوش رہنے میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں اپنے وقت اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا بھی خوشی دیتا ہے۔

یونیورسٹی آف زغرب سے وابستہ ماہرینِ نفسیات ڈبرووکا میکلووِچ اور مائدہ ریاویس نے خوش رہنے کے لیے چھ اہم عوامل بیان کیے ہیں۔ ان میں قابل اعتبار اور قریبی دوست، محبوب سے مستحکم رشتہ، اپنی صلاحیتوں کے مطابق نوکری، مستحکم معاشی زندگی، دن میں کم از کم تین مثبت تجربات اور جوکچھ زندگی میں حاصل ہے، اس کی قدر کرنا۔اسی طرح پانچ اور چیزیں ایسی ہیں، جو خوشی دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ہیں، خدا پر یقین، صاحب اولاد ہونا، مزید تعلیم کا حصول، اچھی صحت اور کچھ ناکامیوں سے تجربہ حاصل کرنا۔ خوشی کا احساس تعلیم و تربیت کے لئے بنیادی شرط ہے۔

سیانے کہا کرتے تھے کہ خوش رہنا انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔ اِس بات کی تصدیق اب خوشی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے بھی کر دی ہے۔ان ماہرین کے مطابق خوشی کا 50 فیصد حصہ انسان کے اپنے جینز میں ہوتا ہے جو موروثی طور پر اس کے وجود کا حصہ ہوتے ہیں۔ 10 فیصد خوشی کا انحصار انسان کے اردگرد کے ماحول پر ہوتا ہے جبکہ خوشی کا 40 فیصد حصہ انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خوش رکھنے میں خود بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
جرمن شہر ہائیڈل برگ میں ایک سکول کے ڈائریکٹر Ernst Fritz- Schubert کے لئے ایک چیز ہمیشہ سے پریشان کن تھی اور وہ یہ کہ آخر بچے سکول جانے سے بھی کیوں اتنا ہی ڈرتے ہیں، جتنا کہ دانتوں کے کسی ڈاکٹر کے پاس جانے سے کیونکہ اِسی ڈر کی وجہ سے وہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم و تربیت کے لئے خوشی کا احساس ایک بنیادی شرط ہوتا ہے۔ چنانچہ اب انہوں نے بچوں کے نصاب میں خوشی نام کا ایک مضمون شامل کیا ہے۔اس مضمون کی تعلیم کے دوران بچوں کو مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے اور ان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا جاتا۔ اس مضمون کے پہلے ہی پیریڈ میں طلبا کو مختلف تصویروں والے کارڈز دکھائے جاتے ہیں اور ان سے کوئی ایک کارڈ پسند کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔پھر کسی دوسرے طالبعلم کو کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے طالبعلم کے بارے میں مثبت انداز میں بیان کرے کہ ا ±س نے یہ کارڈ کیوں پسند کیا؟ مثال کے طور ایک طالبعلم ایک درخت کی تصویر والا کارڈ پسند کرتا ہے، تو دوسرا طالبعلم اس کے بارے میں کہتا ہے: ”تم نے یہ کارڈ اس لئے پسند کیا کیونکہ تمہاری اپنی جڑیں بھی بہت گہری ہیں اور تم ہر طوفان کا مقابلہ کر سکتے ہو۔“ اس طریقے سے طلباء میں ایک نیا اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ آئندہ سکول شوق سے جاتے ہیں۔

خوشی کے مضمون میں بے شمار چیزیں شامل ہیں، جن میں سانس کی اور پر سکون رہنے کی مشقوں سے لے کر بولنے، اپنی خواہشوں کا اظہار کرنے، خواب دیکھنے اور اپنے مقاصد کا تعین کرنے تک بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔ اِس مضمون میں عملی تجربات کو اولین اہمیت دی جاتی ہے۔ ایسی عملی مشقیں کروائی جاتی ہیں، جن سے بچوں کا خوف جاتا رہے۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں نفسیات کی ماہر Sonja Lyubomirsky نے خوش رہنے کے بارہ طریقے وضع کئے ہیں۔ ان طریقوں میں کسی دوسرے کی مدد کرنا یا کوئی ایسا کام کرنا بھی شامل ہے، جس سے کسی دوسرے کو خوشی مل سکتی ہو۔ Sonja Lyubomirsky خوش رہنے کا ایک طریقہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ انسان شکر گذار ہو۔ ماہرین کے مطابق خوش رہنے کے لئے انسان کو اپنی غذا کا خیال رکھنا چاہیے، اچھے دوست بنانے چاہییں، ورزش کرنی چاہیے، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خوش ہونا سیکھنا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے، اپنی زندگی کا موازنہ دوسرے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ زندگی میں کچھ اہداف مقرر کرے اور پھر جائزہ لیتا رہے کہ وہ ان اہداف کو کیسے حاصل کر سکتا ہے۔ اِس طرح ایک طویل فہرست ہے، جس پر عمل کر کے انسان خوش رہ سکتا ہے۔ اِس طویل فہرست سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ خوش رہنے کے لئے محنت بہرحال کرنا پڑتی ہے۔

بلاشبہ کسی بھی انسان کے لئے اپنے روزمرہ معمولات میں تبدیلی لانا آسان نہیں ہے۔ ایک طریقہ لیکن ایسا ہے، جس سے تبدیلی لانے کا یہ عمل قدرے آسان ہو سکتا ہے اور وہ یوں کہ انسان کچھ مخصوص عادات اپنا لے۔ کچھ ایسے کام اپنا لے، جنہیں وہ باقاعدہ وقفوں کے ساتھ کرے۔ مثلاً وہ طے کر لے کہ ہفتے میں تین بار ضرور ورزش کے لئے جائے گا یا یہ کہ ہفتے میں دو بار تو ضرور ہی اپنے سارے کنبے کے ساتھ بیٹھ کر شام کا کھانا کھائے گا۔ ایسے معمولات کو باقاعدگی سے ادا کرتے ہوئے انسان اپنی زندگی میں بھی بنیادی تبدیلیاں عمل میں لا سکتا ہے۔ لیکن کیا خوشی ماپنے کا کوئی پیمانہ ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں بھی ماہرین تحقیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس بارے میں کرما نے کچھ کام کیا ہے۔ کرما بھوٹان میں مرکز برائے بھوٹانی علوم کے صدر ہیں۔ انہوں نے خوشی ناپنے کا ایک انڈکس یا GNH بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں:”اب ہم جذبات کی ان مثبت حالتوں کی پیمائش کرتے ہیں، جن میں فراخدلی، رحم اور خوف کی عدم موجودگی کی جذباتی حالت شامل ہے۔کسی معاملے میں نا امید ہو جانا اور حسد بھی اس بات کو ماپنے کا ایک اچھا پیمانہ ہے کہ آیا کوئی شخص خوش ہے یا ناخوش۔ ہم ان حالتوں کی پیمائش بالواسطہ طور پر کرتے ہیں۔ اگر آپ اکثر بہت زیادہ غصے کا شکار رہتے ہیں تواس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ وجہ کچھ بھی ہو لیکن آپ کی طبعیت میں خوشی کی طرف جھکاؤ زیادہ نہیں ہے۔“ میری رائے میں توخوشی کی تلاش میں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، اپنے آس پاس، اپنے گھر ، دوستوں میں چند اچھے تعریفی جملے، بھی کسی کے من کی کلی کھلا سکتے ہیں، ذرا کوشش تو کیجئے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418880 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More