میں ایمان دار ہوں اور باقی
سارے کا سارا معاشرہ بے ایمان ، دھوکے باز اور فریبی ہے۔ یہ ہماری مجموعی
سوچ ہے۔ ہمیں اپنے علاوہ ہر بندہ گنہگار نظر آتا ہے۔ جو رشوت لے سکتا ہے یا
لے کر ہی کام کرتا ہے وہ بھی اپنے آپ کو پارسا ہی سمجھتا ہے۔ جو کم تولتا
ہے اور زیادہ بھاؤ وصول کرتا ہے وہ بھی اس سسٹم کو گالی دیتا ہے۔چور بھی
خود کو تھانیدار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور فراڈیا بھی دوسروں کو فراڈ
سے بچنے کی نصیحتیں کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ہم نے پورے پانچ سال بڑے اہتمام کے
ساتھ زرداری کو گالیاں دی ہیں اُسے چور اور ڈاکو کے نام سے بھی نوازاہ ہے۔
لیکن خود کو ہم پانچ تو کیا پچاس سالوں میں بھی درست نہیں کر سکے۔ہوتا یہ
کہ جس کا جہاں تک ہاتھ پہنچتا ہے وہ اُتنے ہی انگور توڑ لیتا ہے اور جس کا
قد چھوٹا ہوتا ہے یا زیااہ اُونچائی تک نہیں اُچھل سکتا وہ مرتے دم تک
انگور کھٹے ہیں کی رٹ لگائے رکھتا ہے۔ زرداری اور اُس کے ساتھیوں نے کوئی
بڑا ہاتھ مارا ہے تو یہ اُن کی ہمت اور مہارت تھی۔ ایک تھانے دار، پٹواری،
کلرک یا کوئی بھی کسی سرکاری ادارے کا ملازم جس حد تک کرپشن کر سکے ضرور
کرتا ہے ۔ بلکہ اپنا حق سمجھ کر کرتا ہے۔ جہاں حاجیوں کو نہ بخشا جائے وہاں
کون محفوظ رہ سکتا ہے۔ملک کے سربراہ سے لے کر ایک نائب قاصد تک سبھی بہتی
گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کرتے۔ رشوت لینے والے اگر وافر مقدار میں
موجود ہیں تو رشوت دینے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔بس کام ہونا چاہئے، رشوت
کو ہم کوئی اور نام دیں لے گے۔ ناجائز تو ناجائز، جائز کام کے لیئے بھی
رشوت لازمی ہے۔ کیا کسی حاجی صاحب کا بیٹا پولیس میں بغیر رشوت کے بھرتی ہو
سکتا ہے؟ کسی بھی سرکاری نوکری کے الگ الگ نرخ مقرر ہیں۔ نمازیں ،روزے ، حج
اور زکوٰۃ جیسی عبادات اپنی جگہ لیکن جب باری آتی ہے کسی بڑے محکمے میں
پوسٹنگ کی تو پھر اپنی اولاد سب اعمال سے زیادہ عزیز ہو جاتی ہے۔ہمیشہ اپنے
حق کو حق سمجھنے والے دوسروں کے حقوق پاؤں تلے روند کر بھی نادم نہیں ہوتے
۔ نماز پڑھنے کے بعد رزقِ حلال کے لیئے لمبی لمبی دعائیں کرنے والے دودھ
میں پانی ڈالنے کو بھی رزقِ حلال ہی سمجھتے ہیں۔کم تولنے کو بھی کاروباری
مہارت سمجھتے ہیں اور گاہک سے آنکھ بچاکر گلی سڑی سبزی ڈال کو وزن پورا کر
دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اے اﷲ ہمارے رزق میں اضافہ فرما۔۔۔ خواہش
ہوتی ہے کہ ہمارا ہمسایہ اچھے اخلاق کا مالک ہو تا کہ ہمیں اُس سے کوئی
تکلیف نہ پہنچے لیکن اپنے مفاد کی خاطرہم نہ تو کسی ہمسائے کا خیال رکھتے
ہیں اور نہ ہی اپنے کسی عزیز کا۔ پھر کہتے ہیں کہ معاشرہ بے حس ہو گیا ہے۔
کسی کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں رہی۔ انسانوں میں انسانیت نہیں رہی۔انسان
کسے کہتے ہیں ؟یہ ہم ابھی تک نہیں سمجھ پائے۔قومیں کیسے بنتی ہیں ؟ اس بات
پر ہمارا کبھی بھی دھیان نہیں گیا۔اخلاق کیا ہوتا ہے؟ اس بات سے ہمیں کوئی
سروکار نہیں۔صبر کس بلا کا نام ہے؟ یہ جاننے کی ہم نے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
برداشت کر لینے سے کوئی چھوٹا نہیں بن جاتا،یہ بات ماننے کے لیئے ہم بالکل
بھی تیار نہیں۔معاف کر دینا کبھی ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ قانون کی پابندی سے
ہمارا کیا واسطہ۔ بزرگوں کا احترام بھی ہم پر لازم نہیں۔۔۔۔
ان سب برائیوں اور خامیوں کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ اس ملک سے کرپشن کا
خاتمہ نہیں ہو پا رہا۔نہیں ہو گا!۔۔۔ کبھی نہیں ہوگا!۔۔۔ جب تک ہم اپنے آپ
کو ان برائیوں اور خامیوں سے نکالنے کے لیئے عملی طور تیار نہیں ہوتے،
کرپشن کا خاتمہ بالکل بھی نہیں ہو گا۔ ماحول کتنا ہی صاف ستھرا کیوں نہ ہو
جب تک ہم اپنے بدن کو صاف ستھرا نہیں رکھیں گے، بدبو آتی ہی رہے گی۔اگر
معاشرے کو بدلنا ہے تو پہلے خود کو بدلنا پڑے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس
ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو تو پہلے ہمیں اپنی نیت کو صاف کرنا ہو گا۔سب سے
پہلے اپنی سوچ بدلنی ہو گی اُس کے بعد اُس ریڑھی والے کو بُرا بھلا کہنا ہو
گا جو کم بھی تولتا ہے اور گھٹیا سودے کی قیمت بھی زیادہ وصول کرتا ہے۔ |