روزہ رضائے الہٰی کے حصول کا بہترین ذریعہ
(Hafiz Kareem Ullah, Mianwali)
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔اے
ایمان والو!تم پرروزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پرفرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں
پرہیزگاری ملے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے رسول اﷲﷺنے فرمایاہرشے کے لئے زکوٰۃ ہے اوربدن
کی زکوٰۃ روزہ ہے اورروزہ نصف صبرہے ۔(ابن ماجہ)
حضرت سیدناضمرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا’’ماہِ رمضان میں
گھروالوں کے خرچ میں کُشادگی کروکیونکہ ماہِ رمضان میں خرچ کرنااﷲ تعالیٰ
کی راہ میں خرچ کرنے کی طرح ہے ۔(الجامع الصغیر) روزہ دین اسلام ایک اہم
رکن ہے ۔اس آیت کریمہ میں عربی زبان کالفظ صیام یاصوم اس کے لغوی معنی
اوراصلاحی معنی لغت میں صوم کامطلب ہوتاہے۔اَلْاِمْسَاکُ وَالْکَفُّ عَنِ
الشَّیئِکسی شے سے رک جاناکسی شے سے بازرہنا"قرآن مجیدفرقان حمیدمیں حضرت
مریم علہیاالسلام کاتذکرہ موجودہے کہ جب وہ قوم کی طرف آئیں توان کے پاس ان
کے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام موجودتھے اورانہیں خدشہ تھاکہ لوگ مجھ
پرتنقیدکریں توخالق کائنات اﷲ رب العالمین نے ان سے کہا۔قُوْلِی جب لوگ تم
سے پوچھیں توتم کہہ دینا اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْماًمیں نے اﷲ
پاک کے روزے کی منت مانی ہے ۔فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیَّاتو میں
کسی آدمی سے گفتگونہیں کروں گی ۔جوبھی تجھ سے پوچھے کہ شادی کے بغیریہ بچہ
کیسے پیداہواتوتم اس سے کہہ دیناکہ میں نے رحمٰن کے لیے روزے کی نذرمانی ہے
لہذامیں کسی سے گفتگونہیں کروں گی۔قرآن مجیدکے اس مقام پربات کرنے سے
رکنااور جواب نہ دینااس کوصوم کہاگیاہے تویہ لغت میں صوم کامعنی ہے کہ کسی
چیزسے بازرہنااوررک جاناخواہ کوئی چیزہوکوئی امرہواس لحاظ سے لفظ صوم کو
استعمال کیاگیاہے اس لحاظ سے شرعی اصطلاح کے اندرجب ہم یہ لفظ بولتے ہیں
اسکاخاص مفہوم ہوتاہے شریعت میں روزہ سے مراد یہ ہے کہ دن کے وقت ایسی تمام
چیزوں سے بازرہناجس سے روزہ ٹوٹ جاتاہے اوریہ بازرہنانیت کی وجہ سے ہواور
اس کاوقت طلوع فجرسے لے کر غروب آفتاب تک ہے اورنیت اس کی طرف سے ہوکہ
جونیت کااہل ہے ایسی حیثیت کوروزہ کہاجائے گا۔آقائے دوجہاںﷺنے
ارشادفرمایا"ہرگھرکاایک دروازہ ہوتاہے اورعبادت کادروازہ روزہ ہے نیزروزہ
گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے ۔کتب فقہ میں روزہ کی درج ذیل اقسام بیان ہوئی
ہیں ۔پہلی قسم فرض معین یعنی ماہ رمضان کے روزے دوسری قسم فرِض غیرمعین
یعنی ماہ رمضان کے قضاء شدہ روزے ،تیسری قسم واجب معین کسی خاص دن یاتاریخ
میں روزہ رکھنے کی منت مانیں تواسی دن یاتاریخ کوروزہ رکھناواجب ہے ۔چوتھی
قسم واجب غیرمعین یعنی کفارے کے روزے ،نذرغیرمعین کے روزے اورتوڑے ہوئے
نفلی روزوں کی قضاء ۔پانچویں قسم سنت یعنی محرم الحرم کی نویں اوردسویں
تاریخ کے روزے ،عرفہ یعنی ۹ذی الحجہ کاروزہ اورایام بیض یعنی قمری مہینے کی
ہرتیرہویں ،چودہویں اورپندرہویں تاریخ کے روزے ۔چھٹی قسم نفل یعنی ماہ شوال
کے چھ روزے ،ماہ شعبان کی پندرہویں تاریخ کاروزہ سوموارجمعرات اورجمعہ
کاروزہ ۔ساتویں قسم مکروہ تنزیہی یعنی محرم الحرام کی صرف دسویں تاریخ
کاروزہ ،صرف ہفتہ کے دن کاروزہ رکھنا،عورت کاخاوندکی اجازت کے بغیرنفلی
روزے رکھنا۔آٹھویں اورآخری قسم مکروہ تحریمی یعنی عیدالفطراورعیدالاضحی کے
روزے اورایام تشریق یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں ،بارہویں اورتیرہویں تاریخ
کے روزے رکھنا۔روزے کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے ۔حضرت آدم علیہ السّلام ایام
بیض کے روزے رکھتے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت پرعاشورہ کے دن
کاروزہ اورہرہفتہ میں سینچرکے دن کاروزہ رکھنافرض تھاحضرت عیسیٰ علیہ
السلام کی امت پراسی ماہ رمضان کے روزے فرض تھے ۔مگرجب رمضان المبارک
کامہینہ موسم گرمامیں تشریف لاتاتوکہتے) جس طرح آج ہم امت محمدیہ ﷺہوکرکہتے
ہیں (کہ ایسی گرمی میں روزہ رکھنادشوارہے جب سردیاں آئیں گی توتیس کی بجائے
پچاس روزے رکھ لینگے یعنی بیس روزے زائد رکھ لینگے۔
روزے اوردوسری عبادتوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ دوسری عبادتیں ایسی ہیں
کہ ان کالوگوں کوبھی پتاہوتاہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کاصرف بندے
اوراس کے رب کوپتہ ہوتاہے اس عبادت میں خلوص بہت زیادہ ہے اسلئے اس کاثواب
بھی بہت زیادہ ہے ۔رمضان المبارک کامہینہ ایک مقدس مہینہ ہے کیونکہ اس ماہِ
مقدس میں انسان کے اندر د ینی مزاج اورصبرو تقویٰ پیداکرنے کے لئے مخصوص
دینی فضاپیداہوجاتی ہے بظاہرروزہ ایک مشقت والی عبادت ہے ۔لیکن حقیقت میں
اپنے مقصداورنتیجے کے لحاظ سے یہ دنیامیں موجب راحت اورآخرت میں باعث رحمت
ہے ماہ رمضان کے پورے مہینے کے روزے فرض قراردیے گئے ہیں ۔اب کوئی شخص بھی
ایمان کے تقاضوں کی تکمیل میں اوربارگاہ الٰہی میں ایمان وثواب کی نیت سے
ماہ رمضان کے ر وزے رکھتاہے اوراس کی راتوں میں قیام کرتا ہے تواپنے سابقہ
تمام گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے ۔کیونکہ روزہ داراﷲ کے حکم تعمیل کرنے کے لئے
دن بھرمیں کچھ نہیں کھاتاپیتااپنی تمام نفسانی خواہشات سے پرہیزکرتاہے تواﷲ
پاک بھی راضی ہوتاہے اورساراماہ بابِ کرم کھول دیتاہے ۔روزہ کی حالت میں
کئی ایسے کام ہیں جوروزہ کے خلوص کوختم کردیتے ہیں ۔روزہ دارروزے کے پورے
ثواب سے محروم رہ جاتاہے مثلاًروزہ کی حالت میں لڑائی جھگڑاکرنا، چغلی
کھانا،رشوت لینا،گالی گلوچ یا کسی کی غیبت کرناجھوٹ بولناحرام کھاناوغیرہ
جولوگ ان چیزوں سے نہیں بچتے توان کے بارے میں آقاﷺکافرمان عالی شان ہے "جوشخص
جھوٹ اورگناہ کاکام نہ چھوڑے اس کابھوکاپیاسا رہنے کی اﷲ تعالیٰ کوکوئی
ضرورت نہیں آپﷺ نے ایک اورمقام پرارشادفرمایا"کتنے روزہ دارہیں جن
کوبھوکاپیاسارہنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا"۔(بخاری شریف)حضرت ابوہریرہؓ
سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایاتین شخص کی دعاردنہیں کی جاتی ’’روزہ
دارجس وقت افطار کرتاہے اوربادشاہ عادل اورمظلوم کی دعا۔اسکواﷲ تعالیٰ
ابرسے اوپربلندکرتاہے اوراس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اوررب
عزوجل فرماتاہے مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ضرورتیری مددکروں گااگرچہ تھوڑے
زمانہ بعد۔(ترمذی،ابن ماجہ)حضرت سیدناعبداﷲ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی
کریمﷺنے ارشادفرمایااﷲ رب العالمین روزانہ افطارکے وقت دس لاکھ ایسے گناہ
گاروں کوجہنم سے آزادفرماتاہے جن پرگناہوں کی وجہ سے جہنم واجب
ہوچکاتھانیزشب جمعہ اورروزجمعہ (یعنی جمعرات کوغروب آفتاب سے لیکرجمعہ
کوغروب آفتاب تک)کی ہرگھڑی میں ایسے دس دس لاکھ گنہگاروں کوجہنم سے
آزادکیاجاتاہے جوعذاب کے حقدارقرار دیے جاچکے ہوتے ہیں ۔ (کنزالعمال) حضرت
ابوسعیدخدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاجس نے رمضان کاروزہ
رکھااوراس کی حدودکوپہچانااورجس چیزسے بچناچاہیے اس سے بچاتوجوپہلے کرچکاہے
اس کاکفارہ ہوگیا۔(ابن حبان ،بیہقی)امام غزالی ؒفرماتے ہیں کہ روزہ کے تین
درجے ہیں ایک عام لوگوں کاروزہ کہ پیٹ کوکھانے پینے اورشرمگاہ کوجماع سے
روکنا،دوسراخواص کاروزہ کہ کھانے پینے اورجماع کے علاوہ کان ،آنکھ،زبان،ہاتھ
پاؤں اورباقی تمام اعضاء کوگناہوں سے روکنا۔تیسرادرجہ خاص الخاص کاہے کہ
جمیع ماسوی اﷲ سے اپنے کوبالکلیہ جداکر کے صرفِ ذات خداکی طرف متوجہ
ہونا۔(احیاء العلوم )
روزہ صرف پیٹ کانہیں بلکہ تمام اعضاء کاروزہ ہے آنکھ، زبان، ہاتھ، پاؤں سب
اعضاء کاروزہ ہے ۔آنکھ کاروزہ یہ ہے کہ انسان آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کی
صنعتوں اورکاریگریوں کودیکھے اوریہ کہنے پرمجبورہوجائے ماخلقت
ہذاباطلامولا!تونے ان کوبے کارپیدانہیں فرمایا۔غیرمحرم اورخوبصورت بچوں
کوبلاضرورت نہ دیکھے بلکہ اپنی آنکھوں کواﷲ پاک کے قرآن وحدیث کی تلاوت
وتفسیر میں لگائے رکھے ۔
زبان کاروزہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت ،وردکلمہ طیبہ
،درودشریف اوراستغفارکی کثرت کرے۔اپنی زبان کوجھوٹ اورلغوباتوں گالی گلوچ
غیبت ،یاکسی مسلمان کی دل آزاری سے بچائے۔
کان کاروزہ یہ ہے کہ انسان بالعموم ہروقت اوربالخصوص روزہ کی حالت میں قرآن
پاک کی تلاوت ،نیک اورسچی باتیں سننا۔جھوٹیں باتیں نہ سنے اپنے کان کولوگو
ں کی غیبت سننے سے بچانا۔
ہاتھ پاؤں کاروزہ یہ ہے کہ انسان ہاتھ کوچوری غلط کام وغیرہ سے بچائے ۔اپنے
ہاتھ کویتیم کے سرپرپھیرتارہے ۔پاؤں کوچوری ،زناوغیرہ تمام گناہ کی طرف چل
کرجانے سے بچائے مسجدکی طرف چل کرجائے ،مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کسی
اﷲ کے پیارے کی زیارت کے لئے اپنے پاؤں سے چل کرجائیگاتوثواب پائے گا۔
پیٹ کاروزہ یہ ہے کہ انسان روزہ اﷲ پاک کے دیے ہوئے حلال رزق سے رکھے
اورحلال رزق سے افطارکرے ۔حرام مال سے روزہ رکھنے اورافطارکرنے والے کاحال
اس شخص کی طرح ہے جوکسی مرض سے بچنے کے لئے دواتوکھاتاہومگراس میں
تھوڑاسازہرملالے توظاہرہے کہ دواجتنی بھی عمدہ ہومگروہ زہرآلودہ ہوجائے گی
کھانیوالاہلاک ہوگا۔توہم بھی لقمہ حلال کھائیں تاکہ روزہ کااصل مقصدتوحاصل
ہو۔حضرت عمروبن مرہ جہنیؓ سے مروی کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اﷲﷺ!فرمائیے
تواگرمیں اس کی گواہی دوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سواکوئی معبودنہیں اورحضوراﷲ کے
رسول ہیں اورپانچوں نمازیں پڑھوں اورزکوٰۃ اداکروں اوررمضان المبارک کے
روزے رکھوں اوراس کی راتوں کاقیام کروں تومیں کن لوگوں میں سے ہوں
گا۔فرمایاصدیقین اورشہداء میں سے۔(ابن حبان)روزے کی اہمیت وفضیلت
دیگرعبادات کے مقابلے میں کئی گنازیادہ اوربے حساب ہے اس طرح ہے کہ انسان
کے ہرنیک کام کابدلہ دس سے سات سوگناتک دیاجاتاہے جبکہ روزہ کااجرخوداﷲ رب
العزت عطاکرے گا۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایاآدمی کے
ہرنیک کام کابدلہ دس سے سات سوگناتک دیاجاتاہے مگراﷲ تعالیٰ کاارشادہے کہ
روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے وہ بندہ کی طرف سے میرے لیے ایک تحفہ ہے
اورمیں ہی اس کا(جس طرح چاہوں گا)اجردوں گامیرابندہ میری رضاکے واسطے اپنی
خواہش نفس اوراپناکھاناپیناچھوڑدیتاہے (پس میں اس کاصلہ دوں گا)روزہ دارکے
لئے دومسرتیں ہیں ایک افطار کے وقت اوردوسری اپنے رب کی بارگاہ میں حضوری
کی اورقسم ہے کہ روزہ دارکے منہ کی بُواﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبوسے
بھی بہترہے اورروزہ(دنیامیں شیطان کے حملوں سے بچاؤاورآخرت میں آتشِ دوزخ
سے حفاظت کے لئے )ڈھال ہے اورجب تم میں سے کسی کاروزہ ہوتو چاہیے کہ بے
ہودہ اورفحش باتیں نہ بکے اورشوروغل نہ مچائے اوراگردوسرااس سے جھگڑاکرے
توکہہ دے کہ میں روزہ دارہوں ۔(بخاری ،مسلم)
جب انسان رضائے الٰہی کے حصول کے لئے روزہ رکھتاہے افطارکے وقت دسترخوان
پرروزہ افطارکرنے کے لئے بیٹھتاہے انسان کے سامنے اﷲ پاک کی تمام نعمتیں
پڑی ہوتی ہیں ۔پَرانسان صبرکرکے اذان کاانتظارکرتاہے ۔اس وقت اﷲ رب
العالمین فرشتوں کے سامنے اپنے اس آدمی پرفخرفرماتاہے کہ اے ملائکہ دیکھو
تم نے توکہاتھاکہ یہ دنیامیں جاکرخون ریزی فسادکرے گاآج دیکھووہی میرابندہ
میرے حکم یعنی اذان کے انتظارمیں بیٹھاہے ۔حالانکہ اس کے سامنے دنیاکی
نعمتیں پڑی ہیں ۔ اپنے آپ کوان نعمتوں سے روکاہواہے کہ اﷲ رب العزت کی طرف
سے بلاوا(اذان)کب آتاہے ۔جب تک غروب آفتاب نہیں ہوتاانسان انتظارکرتاہے
۔توہم ایسی عبادت کیوں ذوق وشوق سے نہ کریں جس سے اﷲ رب العزت فرشتوں کی
جماعت میں ہم پرفخرکرے ۔ابن عینیہؒ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روزایک روزہ
داربارگاہ خدامیں پیش ہوگااس نے لوگوں کے حقوق دینے ہونگے حقدارآئینگے
اوراپنے اپنے حق کامطالبہ کریں گے توکوئی اسکی نمازکاثواب لے جائیگاتوکوئی
حقدارحج کاثواب لے جائے گاکوئی کسی اورعمل کاثواب لے جائیگایہانتک کہ اس کے
پاس صرف روزہ کاعمل باقی رہ جائیگااورابھی بعض لوگوں کے حقوق اس کے ذمہ
باقی ہوں گے تواﷲ تعالیٰ اپنے کرم سے فرمائے گاکہ یہ روزہ تومیراہے یہ کسی
کونہیں دیاجائیگااورحقدارکواپنی طرف سے اسکے حق کی مقدارکاثواب عنائت
فرمائے گااورروزہ ،روزہ دارکوجنت میں لے جائیگا۔
بغیرشرعی عذرکے روزہ نہ رکھنایارکھ کرتوڑدینابہت بڑاگناہ ہے قصداًبلاوجہ
روزہ رکھ کرتوڑنااتنابڑاگناہ ہے کہ بطورکفارہ ایک روزے کے بدلے میں مسلسل
دوماہ یعنی ۶۰دن روزے رکھناضروری ہیں ۔جیساکہ حدیث نبویﷺمیں مذکورہے کہ
جوشخص بلاعذرشرعی رمضان شریف کاایک روزہ اگرچھوڑتاہے تویہ بہت بڑے اجرسے
محرومی کاباعث ہے جسکاازالہ عمربھرکے روزے بھی نہیں کرسکتے ۔حضرت ابوہریرہؓ
سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشادفرمایاجس نے بغیرشرعی اجازت اوربیماری کے
رمضان شریف کاایک روزہ بھی توڑایعنی نہ رکھااسے عمربھرکے روزے کفایت نہیں
کرسکتے اگرچہ وہ عمربھرروزے رکھے۔(ترمذی)جوشخص ماہ رمضان ایک دن رخصت شرعی
اورمرض کے روزہ نہ رکھ سکے پھروہ اگرتمام عمرروزے رکھتاہے تب بھی اس ایک
روزہ کی قضانہ ہوسکے گی ۔جمہوررفقہاء کے نزدیک اگررمضان کاایک روزہ
بغیررخصت شرعی نہ رکھے تووہ ایک دن روزہ رکھ لے تواسکی قضاپوری ہوجائے گی
اوروہ بری الذمہ ہوجائے گااگراس نے روزہ رکھابلاوجہ شرعی توڑدیاتواسکی قضاء
ایک روزہ کے علاوہ دوماہ کے روزے رکھنے سے پور ی ہوگی اوراسکے ذمہ سے فرض
ساقط ہوجائے گا۔جوبرکت وفضیلت ماہ رمضان کے روزے کی ہے وہ ہاتھ نہیں آئے گی
۔یہ سب کچھ اس صورت میں ہوگاکہ بعدمیں قضاء کرے اگروہ بالکل رکھے ہی نہیں
جیساکہ اس پرفتن دور میں مسلمانوں کارواج بناہواہے نہ ہی رمضان پاک کے روزے
رکھتے ہیں اورنہ ہی ساری عمران کی قضاء کرتے ہیں ہم مسلمان اسی وجہ سے ذلیل
و خوار ہورہے ہیں ہم اﷲ اوراسکے رسولﷺکے حکم کوپورانہیں کرتے ۔
روزہ کے فوائد وثمرات
روزہ انسان میں ضبط نفس پیداکرتاہے ۔
روزہ انسان کی سیرت وکردارکی تعمیرکرتاہے ۔
روزہ انسان میں تقویٰ اور تزکیہ نفس پیداکرتاہے ۔
روزہ سے انسان باری تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتاہے ۔
روزہ برکات الٰہی کے حصول کاایک راستہ اورذریعہ ہے ۔
روزہ خواہشات نفسانی پرکنڑول کی صلاحیت پیداکرتاہے ۔
روزہ گناہوں کومٹاکرجہنم کی آگ سے نجات کاذریعہ بنتاہے ۔
روزہ داراپنی جسمانی طہارت اورپاکیزگی کی طرف متوجہ ہوتاہے ۔
روزہ فاقہ زدہ افرادکے لئے تڑپ اوراحساس ہمدردی پیداکرتاہے ۔
روزہ معدے کی اصلاح کے ذریعے کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتاہے۔
روزہ بھوک وپیاس برداشت کرنے کی صلاحیت پیداکرکے انسان کونامساعدحالات کے
لئے تیارکرتاہے ۔
اﷲ رب العزت سے دعاگوہوں کہ اﷲ پاک ہم تمام مسلمانوں کے روزے رکھنااپنے
بارگاہ لم یزل میں قبول فرماکرہمارے لئے ذریعہ نجات بنائے ۔بروزقیامت اپنے
پیارے حبیب ﷺکی شفاعت نصیب فرمائے َ |
|