انسانی زندگی کے تین پڑاؤ
ہوتے ہیں۔ بچپن ، جوانی، بڑھاپا۔ بچپن اور جوانی تو ہنسی خوشی کھیل کو د کر
اور اپنے والدین کی زیر نگرانی میں بڑی خوشی اور محبت سے گزر جاتی
ہے۔مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے توکوئی بھی شخص بڑھاپانہیں چاہتا۔ بڑھاپے
کو زندگی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ اورپریشانیوں سے بھرا ہوا مانا جاتا ہے
لیکن بڑھاپا تو زندگی کا کڑوا سچ ہے۔ آدمی اس عمر میں اپنی لمبی زندگی کا
سفر کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے کی زندگی کشمکش اور جدو جہد
سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ جوانی سے بڑھاپے کی جانب بڑھتے بڑھتے زندگی کی رفتار
میں ایک ٹھہراؤ سا آجاتا ہے۔ انسان کے کام کرنے کی طاقت اور جوش وہ نہیں
ہوتا جو جوانی میں ہوتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ جوانی ٹھاٹھیں مارتی سمندری
لہروں کی طرح ہوتی ہے اور بڑھاپا اس جھیل کے پانی کی طرح ہے جس کا پانی
ساقط و جامد ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں کام کرنے کی طاقت کم ہوجاتی ہے۔ زندگی میں
وہ جوش حرکت اور ولولے نہیں ہوتے جو جوانی کے دور میں تھے۔ انسان جب بڑھاپے
کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو زندگی موت کی طرف بڑھتی ہے یا یوں کہئے کہ
زندگی کی آخری منزل ہوتی ہے۔ انسان اپنی تمام زندگی کے کھٹے میٹھے تجربات
اور زندگی کے اتار چڑھاؤ نشیب و فراز سے گزر کر اس پڑاؤ پر پہنچتا ہے تو وہ
بھی اپنی اولاد سے کچھ عزت و احترام کی امیدیں رکھتا ہے۔ لیکن جب اس کو
اپنی اولاد سے اپنی توقع کے مخالف نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے دل
کو ایک ایسی ٹھیس پہنچتی ہے۔اور بوڑھا آدمی دل ہی دل میں سوچنے لگ جاتا ہے
کہ شاید میں اپنے ہی گھر میں ایک بیکار انسان بن کر رہ گیا ہوں۔ لیکن اولاد
اس بات کو بھول جاتی ہے کہ جس مقام پر آج وہ پہنچی ہے وہ انہیں بزرگوں اور
بوڑھوں کی دعاؤں اور ان کی بے انتہاکوششوں اور قربانیوں کا ہی ایک نتیجہ
ہوتا ہے۔نوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر میں بزرگوں اور بوڑھوں کے اس
ڈھلتے ہوئے سورج کی طرح زندگی کو اپنی مدد اور عزت سے ان کا پورا ساتھ دیں
ان کا خیال رکھیں تاکہ اس ڈھلتی ہوئی عمر میں رات کی چاندنی کی طرح روشنی
بکھیریں۔ وہ بزرگ تو مکان کو گھر بنانے والے ایسے چراغ ہیں جو خود جل کر
بھی اپنے بچوں کو روشنی دیتے ہیں اور انہی کے رہتے ہوئے باقی تمام رشتہ
داروں سے رشتہ جڑا رہتا ہے۔ جب جب اولاد اپنے راستہ سے بھٹک یا ڈگمگا جاتی
ہے تو بزرگ ان کا سہارا بننے کو تیار رہتے ہیں لیکن دوسری طرف کیا اولاد
بھی اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننے کو تیار ہوتی ہے؟ انہیں تو یہ سب
بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں بھی بوڑھے والدین اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں
کو قربان کر کے اولاد کی خوشیوں کو پورا کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے اگر اپنی
زندگی کو سنوارنا ہے تو پہلے وہ خود اپنے بوڑھے ماں باپ کی زندگی کو سنوارو
نہیں تو ’’جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے‘‘ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھ لو کہ وہ
اولاد بہت ہی بدنصیب ہے جو اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنے سے محروم رہ
جاتی ہے۔ وہ اولاد بھول کر بھی اپنی زندگی میں یہ امید نہ رکھے کہ ماں باپ
کی خدمت کئے بغیر وہ زندگی میں چین و سکون پائیں گے۔اگر کوئی یہ پوچھے کہ
خدا کس بندے پر مہربان اور راضی ہے تو یہ سمجھو کہ جس پر اس دنیا میں اس کے
ما ں باپ راضی اور خوش ہیں تو اسی پر خدا کی نظر عنایت ہے۔ |