میرا گھر کہاں ہے

اس نے جب آنکھ کھولی تو اس کے سر کے نیچے کسی کا بازو تھا وہ اس لمس کو محسوس کر سکتی تھی لیکن یہ نہیں سمجھ سکتی تھی کہ یہ کس کا ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ وہ لمس اس کی ماں کا تھا جو اس دنیا میں آنے کے بعد پہلا لمس اس نے محسوس کیا تھا پھر دن بیتتے گئے اور اس نے جب پہلا قدم اٹھایا اس کو پتھر سے ٹھوکر لگی تو کسی نے فوری آگے بڑھ کر اسے تھام لیا اور گرنے سے بچایا اپنائیت کا ایک اور لمس اس نے محسوس کیا تھا، اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی معصوم سی آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو اس کے باپ نے اس کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور اسے منہ کے بل گرنے سے بچایا تھاوہ ڈر گئی تھی اور خوف زدہ ہو گئی تھی اس کے باپ کو احساس اس بات کا ہو گیا تھا تبھی اس نے اس کے دونوں ہاتھ تھام کر اسے سہارا دیا تھا اور آگے بڑھنے کی ہمت دی تھی اس نے ایک اور قدم اٹھایا تھا اس بار وہ بلکل ٹھیک قدم اٹھا چکی تھی جس سے اس کی آنکھوں میں خوشی سے ستارے چمکنے لگے تھے اور اس کی ہنسی کسی جلترنگ کی طرح ہر سو بکھر گئی تھی جس نے اس کے باپ کی دن بھر کی ساری تھکان سمیٹ لی تھی-پہلے قدم کے بعد دوسرا قدم پھرتیسرا قدم وہ اٹھاتی چلی گئی اور وہ بڑی ہوتی چلی گئی-جب وہ تیرہ سال کی ہوئی تو اس کی ماں نے اسے سنانا شروع کر دیا کہ یہ کرو وہ کرو اگلے گھر جاؤں گی تو ناک کٹوا دو گی ،ماں کو ہی سنواؤ گی کہ ماں نے کچھ نہیں سیکھایا ۔

اس نے ماں سے کہا :کیا یہ اس کا گھر نہیں ہے- اس کی ماں نے کہا نہیں اگلہ گھراس کاگھر ہو گا یہ اس کےبھائیوں کا گھر ہے-اس نے اسی دن سے اگلے گھر کے سپنے دیکھنا شروع کر دیئے-جب بھی اس کی ماں کے گھر میں اس کی بجائے اس کے بھائیوں کو اور ان کی پسند کو ترجیع دی جاتی تو وہ یہی سوچتی کہ اگلہ گھر اس کا ہو گا وہ وہاں اپنی مرضی کرے گی ،اپنی مرضی سے کھائے گی اور اپنی مرضی سے رہے گی پھروقت کے ساتھ وہ اور بڑی ہو گئی اس نے کالج جانا شروع کر دیا اس کا کزن اسے پسند کرتا تھا اسے وہ یہی کہتا تھا لیکن وہ جانتی تھی اس کا باپ نہیں مانے گا اور اس کا سپنا تو ایک گھر کا تھا وہ اسے ہمیشہ کہتی کہ اس کا ایک گھر کا سپنا ہے جو وہ اسے نہیں دے سکتا تھا اور وہ وہاں شادی کرے گی جہاں اس کا باپ کہے گا - پھر اس کے رشتے آنے لگے وہ ہر بار سج سنور کر رشتوں والوں کے سامنے جاتی لیکن اس کی سانولی رنگت کی وجہ سے ہر بار اسے ریجیکٹ کر دیا جاتاتھا اب تو اس کی ماں بھی تنگ آنے لگی تھی اور اسےطعنےدیتی لیکن وہ یہ نہیں سوچتی تھی کہ اس کے دل پر کیا گزرتی تھی۔ اس کا باپ کچھ نہیں کہتا تھا لیکن اب اسے لگتا وہ باپ کے لیے ایک بوجھ ہے اب وہ دعا مانگتی کہ جیسا مرضی رشتہ آ جائے اس کا کزن بھی اب غائب ہو گیا تھا ورنہ اب وہ خود اس سے شادی کرنا چاہتی تھی پھر ایک دن ایک رشتہ آیا لڑکے کی عمر زیادہ تھی اور وہ پہلی بیوی کو طلاق دے چکا تھا لیکن یہاں بوجھ اتارنا تھا جوڑ کا رشتہ کسے چاہیے تھا پھرسب کو پسند آیا اور اس کی شادی کر دی گئی وہ رخصت ہو گئی -آنکھوں میں انجانے سپنے لیے ایک خوبصورت اور پرسکون گھر کے سپنے جہاں بس اس کا راج ہو گا۔

سسرالی گھر میں قدم رکھتے ہی اسے یہ کہا گیا کہ آج سے گھر کے سب کام اس کے ہیں اور اسے ہر وہ بات ماننا ہو گی جو اس کی ساس یا شوہر کہیں گے وہ جیسا کہیں گے اسے کرنا ہو گا-اس کے گھر کے سپنے پر پھینکا جانے والا یہ پہلا پتھر تھا جس نے اس کے سپنے پر دراڑ ڈال دی تھی لیکن وہ پھر بھی خوش ہونے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ اسے ماں کے الفاظ یاد تھے کہ بیٹی اب تو اپنے گھر جارہی ہے سب کو خوش رکھنا اور سب کی خدمت کرنا پھر اس نے خدمت کو اپنا زریعہ بنا لیا سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن جانے کیوں اسے ہمیشہ مایوسی ہوتی کوئی اس سے خوش نہیں ہوتا تھا-شوہر کو وہ کالی ،نکمی نظر آتی تھی ،ساس کو منحوس،نندوں کو چالاک،اور باقیوں کو ایک فالتو چیز پھر وقت گزرتا گیا اس کے سپنے پر دراڑیں پڑتی گئیں وہ جب بھی ماں کہ پاس جاتی ماںسے پوچھ نہ پاتی ماں میرا گھر کہاں ہے آپ تو کہتی تھیں سسرال ہی میرا گھر ہے وہاں تو کوئی مجھے اپنانے کو تیار نہیں لیکن ہر بار ماں کو خوش دیکھ کر چپ ہو جاتی اور چپ چاپ ماں کی نصیحیں سنتی اور واپس لوٹ جاتی وقت اور آگے بڑھ گیا ،وقت کی جہاں یہ ستم زریفی لگتی کھبی کھبی یہ وقت کا گزرنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔

اس کے دو بیٹے ہوئے جو بڑے ہو گئے پتا نہیں وہ کسی اور کے لیے کچھ بن پائی یا نہ بن پائی بچوں کے لیے ایک بہترین ماں تھی ۔اس کی ساس اب بھی اس کے ساتھ تھی لیکن اب وہ بہت خوش تھی کیونکہ اسے لگتا تھا کہ اب وہ اپنے بچوں کی شادی کرے گی اوروہ بھی اپنی ساس کی طرح راج کرے گی اس کا بھی اپنا گھر ہو گا-پھر اس نے اپنے بیٹوں کی شادی کر دی اس کی ساس مر گئی اب اسے لگتا تھا وہ آزاد ہےاوراب وہ گھر اس کا ہے لیکن زمانہ بدل گیا تھا لوگ بدل گیے تھے - دونوں بیٹوں کی شادیوں کو کچھ دن ہونے کے باوجود بہوؤں نے گھر کا کام شروع نہیں کیا تھا پہلے دعوتیں پھر ہنی مون اس کے بعد بھی وہ بہت کم اس کا ہاتھ بٹاتیں تھیں اور وہ اپنی ساس جیسی نہیں تھی اس نے لڑنا اتنے سالوں میں اب بھی نہیں سیکھا تھا وہ کچھ کہہ نہیں پاتی تھی لیکن برداشت بھی کرتی تو کب تک ایک دن بس ایک دن وہ بولی اور بہت بولی اس کی بہوؤں نے اپنے شوہروں کو بتایا اور انہوں نے ماں سے کہا:ماں یہ اب ان کا گھر ہے وہ جیسے چاہیں رہیں اب یہ وہ زمانہ نہیں رہا کہ جو آپ کی ساس نے کیا آپ ان کے ساتھ کرو،ہماری اپنی لائف ہے ہم جیسے چاہیں رہیںاب ہماری جان آپ لوگ چھوڑدو اور سکون سے رہنے دیں۔آج یہ آخری دراڑ تھی جو اس کے دل پر پڑھی تھی تھی اس نے بھیگی آنکھوں سے شوہر کی جانب دیکھا اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا شاید زندگی میں پہلی بار وہ اس کا دکھ سمجھا تھالیکن اب سب ختم ہو گیا تھا وہ ٹوٹ گئی تھی اس کا حوصلہ اس کا سپنا اس کا وجود اپنوں کے ہی ہاتھوں بکھر گیا تھا اس نے شوہر کا ہاتھ کندھے سے ہٹایا اور وہ الٹے قدموں گھر سے نکلی اور ایک قبر کے پاس جا بیٹھی اس نے بہتے آنسوں کے ساتھ قبر میں رہنے والی اپنی ماں سے پوچھا :ماں میرا گھر کہاں ہے کیوں دیکھائے ایک گھر کے سپنے تم نے ماں کیوں مجھےمیرا بچپن بھی جینے نہیں دیا کیوں ماں آخر کیوں کیا میرے ساتھ ایسا۔اس کے آنسو زاروقطار بہہ رہے تھے اوراس کی سانسیں اکھڑنے لگیں تھیں اس نے قبر کی جانب دیکھا اب وہ سمجھ گئی تھی اس کا گھر کہاں ہے۔اسی لمحے اس قبرستان میں ایک جوگی آیا وہ اس کے پاس تو نہیں آیا قبرستان میں موجود ایک ردخت کے نیچے بیٹھ گیااس نے جوگی کی جانب دیکھا اور مسکرا دی آنسوؤں سے بھری آنکھیں اور دونوں ہاتھ معافی کے انداز میں جوڑ دیئے اور اس مسکراہٹ میں چھپا درد صرف وہ جوگی سمجھ سکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اس کا سپنا اسے کہاں لے آیاوہ ہنس پڑا تھا ایک درد بھری ہنسی اور اس سے بولا یہی تیرا گھر ہے ،یہی میرا گھر ہے اور یہی ہم سب کا گھر ہے یہ قبرستان اور اس میں دو گز کی زمین۔اس عورت کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوتیں جا رہی تھیں لبو ں پہ ایسی مسکراہٹ تھی جیسے منزل پا لی ہو۔جوگی اس کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن اٹھ کر اس کی جانب نہیں گیا تھاکچھ دیر بعد وہاں کچھ لوگ آئے تو وہ عورت اور جوگی دونوں مر چکے تھے اس جوگی کو کھبی کسی نے ہنستے نہیں دیکھا تھا لیکن آج اس کے ہونٹوں پر مرتے وقت مسکراہٹ تھی کیونکہ یہ جوگی ہی اس عورت کا کزن تھا وہی کزن جو اسے پسند کرتا تھا اور اس کے انکار کے بعد جوگی بن گیا تھا اور وہ عورت اپنا گھر ڈوھنڈ چکی تھی اب اس کے چہرے پر ایک سکون تھا-
رائٹر : پاکیزہ زینی چوھدری
pakiza
About the Author: pakiza Read More Articles by pakiza: 4 Articles with 6012 views خدا کی رحمت کے بنا میں کچھ بھی نہیں.. View More