جیسے ہی ہم ڈی پی او آفس لودہراں
میں داخل ہوئے آفس کے سامنے شامیانہ لگا ہوا دیکھا جو کہ ایک نئی بات اور
تبدیلی تھی کیونکہ اس سے قبل وہاں شامیانہ نہیں ہوتا تھا۔ وہاں کرسیاں رکھی
ہوئیں تھیں اور کچھ خواتین و مرد حضرات بھی موجود تھے۔ او ر ایک پولیس والہ
ان کو پانی پلارہا تھا۔پہلی نظر میں یہ محسوس ہوا کہ شاید کوئی پروگرام
ارینج گیا گیا ہے۔ وہاں پر موجود ایک اہلکار سے اس بابت معلوم کیا تو جان
کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ڈی پی او ڈاکٹر انعام وحید نے یہ سلسلہ شروع کیا
ہے کہ ہر آنے والے سائل کو اگر انتظار کرنا پڑے تو اس کے بیٹھنے کیلئے
مناسب جگہ موجود ہواور یہاں جتنے بھی سائل آئیں انہیں لازمی طور پر ٹھنڈا
پانی پیش کیا جائے۔اس مثبت تاثر کے ساتھ ڈی پی او کے دفتر میں ملاقات کیلئے
داخل ہوئے تو وہاں کا ماحول دیکھ کر بھی ایک خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوا
کہ ڈی پی او ٹیبل کے گرد موجود مخصوص کرسیوں پر چند سائل موصوف کے سامنے
بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ یہ کرسیاں سابقہ روایات کے مطابق صرف اور صرف
معززین، پولیس افسران اور صحافی حضرات کیلئے مخصوص تھیں۔ سائل یا تو کھڑے
کھڑے اپنے مسائل سنا کر چلے جاتے تھے یا پھر انہیں دیوار کے ساتھ لگی چند
کرسیوں پر بٹھا دیا جاتا تھا۔ آج ان مخصوص کرسیوں پر عام سائلان کو دیکھ کر
عجیب سے تحفظ کا احساس ہوا۔سائلوں کے جانے کے بعد ڈی پی اوڈاکٹر انعام وحید
سے رسمی بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ انہوں نے بھی روایتی انداز میں بات
کرتے ہوئے اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تھانہ کلچر کا خاتمہ کردیا
جائیگا۔ سائل کو انصاف ملے گا میرٹ پر فیصلے ہونگے۔ مظلوم کی داد رسی کی
جائے گی۔ پولیس کا قبلہ درست کرونگا۔کالی بھیڑوں اور ٹاوٹ مافیا کا خاتمہ
کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
یونین آ ف جرنلسٹ کہروڑپکا کے وفد سے گفتگو کے دوران ڈاکٹر انعام وحید نے
جو قابل ذکر باتیں کیں اور جسے روایات سے ہٹ کر محسوس کیاان میں نئے لاگو
ہونے والے پنجاب پولیس آرڈیننس 2013 کے مسودے کی جھلک نمایاں حد تک نظر آئی
اور اگر واقعی یہ آرڈیننس منظور ہوکرلاگو کردیا جاتا ہے تو واقعی انقلاب
ہوگا اور عوام دوستی کا سب سے بڑا او ر موثر ذریعہ ہوگا۔ انہوں نے لودہراں
پولیس کے حوالے سے اس بات کا احاطہ کرتے ہوئے یقین دلایا کہ پولیس بنیادی
فرائض ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے کی پابندی کریگی۔ شہریوں کے جان و مال کے
تحفظ کے ساتھ ساتھ زیر حراست افراد کو ان کے حقوق اور سہولیات کی فراہمی کو
یقینی بنایا جائے گا۔پولیس کو اس بات کا سختی سے پابندکردیا ہے کہ بغیر
ثبوت کے کسی شخص کو گرفتا ر نہ کیا جائے حتی کہ ایف آئی آر چاک ہونے کے
باوجود ثبوت اکٹھا کرنے پر ہی مطلوبہ شخص کو گرفتار کیا جائے۔یعنی فارن
پولیس کے طرز پر پولیسنگ کو اپلائی کرنے پرتوانائی صرف کرنے کا ارادہ ہے
اور اس میں یقینا عوام کو بہت زیادہ ریلیف اور فائدہ ہوگا۔ٹرانسفر ،معطلی
اور تقرری کے معاملات کو ازسر نو دیکھا جائے گا۔تبادلوں کا عمل کانسٹیبل
اور ہیڈ کانسٹیبل سے شروع کیا جائے گا کیونکہ اکثر اہلکار عرصہ دراز سے ایک
ہی جگہ تعینات رہنے کی وجہ سے بہت سے معاملات پر اثر انداز ہوتے ہیں جس سے
شفافیت داغدار ہوتی ہے۔ کانسٹیبل سے لیکر ایس ایچ او تک کی لسٹیں تیار ہو
چکی ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ تین مرتبہ سے زائد کوئی ایس ایچ او کسی
شہر تحصیل یاتھانے میں تعینات نہ ہونے پائے۔اکثر ایس ایچ اوز اپنی من مرضی
کے تھانے میں تعینات ہونے کیلئے سرگرم ہیں لیکن میری تعیناتی پالیسی ذرا ہٹ
کر ہوگی۔
میڈیا پروٹوکول کے حوالے سے ایک نئی اور دلچسپ بات دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ
اخبارات کی کٹنگز کے ساتھ ہی ان پر ریمارکس اور انسٹرکشن دی گئی تھیں اور
immediate ایکشن کی ہدایات تھیں ایک مثال اسی وقت روبہ عمل ہوئی کہ ایک
کانسٹیبل کے خلاف ایک درخواست آئی ۔خبر کی کٹنگ بھی موجود تھی۔ ڈی پی او نے
اسے فوری طور پر معطل کردیا اور ضابطہ کی کارروائی عمل میں لائی گئی۔اس کے
ساتھ کوئی محکمانہ رورعایت نہ برتی گئی۔پی آر او ڈپیارٹمنٹ کو feedback
موثر بنانے کیلئے ہدایات تھیں کہ جن اخبارات میں خبر شائع ہوئی انہیں بھی
مطلع کیا گیاکہ آپ کی لگائی ہوئی خبر حقیقت پر مبنی تھی اور متعلقہ ملزم
اہلکار کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاچکی ہے۔PRO تندہی کے ساتھ فیڈ بیک
دینے میں کسی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرتا اور چند دوستوں سے اس کی تصدیق بھی
ہوئی۔یہ بھی ایک مثبت اقدام ہے جس کی وجہ سے عوام اور پولیس کے مابین
اعتماد و یقین کی فضا قائم ہوگی ۔ صحافیوں اور پولیس کے درمیان کوآرڈینشن
مضبوط ہوگی اور عوام کو انصاف سستا ،تیزاور میرٹ پر ملے گا۔ان کی یہ خواہش
بھی قابل تقلید ہے کہ وہ میڈیا کو اپنے دست و بازو اور آنکھیں بنا کر محکمے
میں موجود کالی بھیڑوں کی منظر عام پر لانے کا عزم مصمم رکھتے ہیں اس سے
بھی یقینا محکمے میں سدھار آئیگا روایتی تھانہ کلچر کہ جہاں شریف آدمی جاتے
ہوئے ڈرتا ہے اور ہر بدقماش اور مجرم کو کرسی پیش کی جاتی ہے ،کا بھی قلع
قمع ہوجائیگا۔
جیسا کہ اوپر عرض بھی کیا جاچکا ہے کہ یہ اس بات کی smell ہے کہ نئے پنجاب
پولیس آرڈیننس 2013 پر پنجاب حکومت بالخصوص وزیر اعلی پنجاب سختی سے عمل
کرانے کے خواہاں ہیں جس کی جھلک لودہراں ڈی پی او آفس اور خود موصوف کی
باتوں اور کاموں سے محسوس ہوئی۔ نئے مسودے میں پولیس آفیسرز کو ہائر اینڈ
فائر کے اختیارات دیئے جانے کا حوالہ قابل ستائش ہے جس کی بنا پر اہلکاروں
کو اپنے دائرے اور حدود میں رکھنے کا بہت بڑا edge ملے گا۔ پولیس ایکٹ میں
ملازمین کو مزیدڈیوٹی فل اور کارآمد بنانے کیلئے ایک نہایت ہی solid شق
رکھی گئی ہے کہ پولیس اہلکار کسی بدعنوانی یا کسی اور الزام کی بناپر
برخاست کردیا گیا تو اس کو واپس محکمے میں کسی صورت نہ لیا جائیگاخوا ہ وہ
اس سلسلہ میں ہونے والی فوجداری کارروائی میں عدالت سے بری ہی کیوں نہ
ہوجائے۔اسی طرح پولیس اور عوام کے مابین تعلقات خوشگوار اور بہتر بنانے
کیلئے ڈسٹرکٹ کریمنل جسٹس کمیٹی، ڈسٹرکٹ پولیس کونسل، کمیونٹی پولیسنگ اور
سٹیزن پولیس لائزان کمیٹی کو قائم کرنے کی دفعات بھی اس نئے بنائے جانیوالے
مسودہ میں شامل کی جارہی ہیں۔CPLC شہریوں کے تعاون سے شہریوں پرمشتمل
شہریوں کی فلاح کیلئے بنائی جانیوالی کمیٹی کو بھی فعال کرنے سے petty
معاملات،جن کی وجہ سے پولیس عموما الجھی رہتی ہے ،کو حل کرنے میں بڑی حد تک
مدد مل سکے گی۔ اس کمیٹی کو آپریشنل کرنے سے بھی پولیس اور عوام میں موجود
خلیج کو کم کرکے کوآرڈینیشن کی فضا کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاو ہ
بھی کچھ اور دفعات بھی ہیں جو کہ محکمانہ معاملات کے حوالے سے ترامیم کرکے
نافذالعمل کی جانے سے پولیس کے رویوں میں سدھار لایاجاسکتا ہے۔بس ڈاکٹر
انعام وحید کی طرح اور نئے آرڈیننس کو موثر و مفید بنانے کیلئے تمام ڈی پی
اوز اپنے روایتی انداز و اطوار چھوڑ کرdevotion اور کلچر کی تبدیلی کو
سامنے رکھتے ہوئے کام کریں تو ایسا کوئی امر مانع نہیں کہ پولیسنگ عوام
دوست نہ بن سکے۔ |