یہ خداوند قدوس کا لاکھ لاکھ شکر
و احسان ہے کہ ہم اسلامی سال کے مقدس و پاکیزہ مہنے رمضان المبارک کی پُر
نور ، جاں فزا اور روح پرور ساعتوں میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ وہ مقدس و مطہر
، محترم و معظم اور لائقِ تعظیم و تکریم مہینہ ہے کہ اس کا لمحہ لمحہ انوار
و برکاتِ الٰہی کی نعمت بیز بارش سے شرابور ہوتا ہے ۔ اسی مقدس مہینے میں
دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ۔ بہشتِ بریں کے دروازے کھول دیئے جاتے
ہیں۔ شیاطین کو قید کرلیا جاتا ہے ۔مؤمنین و مسلمین کے رزق میں اضافہ
کردیا جاتاہے ۔ اس مہینے میں منعمِ حقیقی اپنے بندوں کو طرح طرح کی نعمتوں
اور انعام و اکرام سے مالامال فرمادیتا ہے ۔ چوں کہ اس مہینے کی ہر ہر ساعت
برکاتِ الٰہی سے معمور و مزین ہوتی ہے اور شیاطین مقید و محبوس ہوتے ہیں
اسی لیے بندگانِ خدا کے اندر عبادت و ریاضت کا ذوق و شوق اور جذبہ کافی حد
تک بڑھ جاتا ہے ۔ نیکیاں اور اچھائیاں عام ہونے لگتی ہیں ۔فقرا و مساکین کے
درمیان صدقات و خیرات تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ سال بھر غیر آباد رہنے والی
مسجدیں نمازیوں سے اس طرح پُر ہوجاتی ہیں کہ جگہ کم محسوس ہونے لگتی ہے۔
یوں تو آج کل سال بھر مساجد میں دنیا اور دنیا داری کی باتیں کرنا بالکل
عام سی بات ہوگئی ہے ۔ مگر رمضان المبارک کے مقدس ترین مہینے میں چوں کہ
نمازیوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے ۔ مختلف عادات و اطوار اور فکر و نظر کے
حامل افراد ایک جگہ جمع ہونے لگتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات بالکل
چھوٹی چھوٹی اور معمولی معمولی باتوں کو لے کرمساجد میں بہت سارے لوگ
ناواقفیت کی بنا پر ایک دوسرے سے الجھنے لگتے ہیں حتیٰ کے گالی گلوچ اور
شور و غل تک کی نوبت آجاتی ہے ، بلکہ ہاتھا پائی پر بھی کچھ لوگ اتر آتے
ہیں۔ بعض مقامات پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ روزے دار حضرات مساجد میں اکثر
نمازوں کے بعد بیٹھ کر دنیاوی باتوں الغرض ہنسی و مذاق میں مصروف ہوجاتے
ہیں ۔ مسجد جو کہ بیت اللہ ہے ، خانۂ خدا ہے ۔ اس کا ادب و احترام دلوں سے
دور ہوتا جارہا ہے ۔ لہٰذا احادیثِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ کی روشنی میں
مساجد میں دنیاوی باتوں کے احکام بیان کیے جاتے ہیں ۔ مسلمان انھیں پڑھیں ،
سنیں اور اس پر عمل کریں :
مسجد میں دنیاوی باتیں کرنے کو بیٹھنا نیکیوں کو اس طرح کھاجاتاہے جیسے آگ
لکڑی کو ۔ فتح القدیر میں ہے :’’ مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا مکروہ ہیں اور
ایسا کرنا نیکیوں کو کھاجاتاہے۔ ـ‘‘ امام عبداللہ نسفی نے مدارک شریف میں
حدیث نقل کی ہے کہ : ـ مسجد میں دنیا کی باتیں نیکیوں کو اس طرح کھاجاتی ہے
جیسے چوپایہ گھاس کو ۔‘‘ غمزالعیون میں خزانۃ الفقہ سے ہے :’’ جو مسجد میں
دنیا کی بات کرے اللہ تعالیٰ اس کے چالیس برس کے عمل اکارت فرمادے ۔‘‘
حدیقۂ ندیہ شرح طریقۂ محمدیہ میں ہے کہ:’’ جو لوگ غیبت کرتے ہیں اور جو
لوگ مسجد میں دنیا کی باتوں میں مصروف ہوتے ہیں ان کے منہ سے و ہ گندی بو
نکلتی ہے جس سے فرشتے اللہ عزو جل کے حضور شکایت کرتے ہیں ۔‘‘
حجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی قدس سرہٗ (م ۵۰۵ھ) احیاء
العلوم شریف میں فرماتے ہیں :’ ’ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
فرمایا، جو مسجد میں بیٹھتا ہے وہ اپنے رب کی ہم نشینی کرتا ہے تو اس کے حق
میں بہتر یہی ہے کہ خیر کے سوا کوئی گفتگو نہ کرے۔‘‘ ( احیاء العلوم جلد
اوّل)
اس سے معلوم ہوا کہ خداوندِ قدوس کی بارگاہ میں کسی اور طرف متوجہ ہونا ،
دنیا کی باتیں کرنا یقینا بے ادبی ہے ۔ خود دنیا میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ
کسی بڑے آدمی کی خدمت میں حاضر ہوکر اگر کوئی نوکر یا خادم ، مرید یا
شاگرد دوسرے کسی شخص سے باتیں کرنے لگے یا اپنی توجہ دوسری طرف موڑ دے تو
یہ بے ادبی میں شمار کیا جاتا ہے۔ تو بارگاہِ ربُّ العلا جو سب سے اعظم و
اکبر ، افضل و اشرف اور بڑی بارگاہ ہے ۔ وہاں پہنچ کر تو صرف اسی کا ذکر
ہونا چاہیے ، اسی کی حمد ہونی چاہیے ، اسی کی تسبیح ہونی چاہیے ، اسی کی
بات ہونی چاہیے نہ کی دنیا کی فضول باتیں!!
نبیِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مسجد سے گذر فرمایا دیکھا کہ
کچھ لوگ اس میں بیٹھے دنیا کی باتیں کررہے ہیں اور زور زور سے ہنس رہے ہیں۔
سلام کے بعد فرمایا:’’ لوگو! موت کو یاد کرو۔‘‘ یہ کہہ کر آپ تشریف لے گئے
دوبارہ ادھر سے گذرے تو ان لوگوں کو اسی حالت میںیعنی دنیا کی باتوں میں
مشغول پایا، تو فرمایا:’ ’ خدا کی قسم! اگر تم کو وہ باتیں معلوم ہوجائیں
جو میں جانتا ہوں تو کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔‘‘ پھر تیسری مرتبہ جب رحمتِ
عالم و عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ادھر سے گذرے تو اب بھی ان لوگوں
کو اسی حال میں پایا تو فرمایا:’’ اسلام شروع میں غریب تھا (یعنی اجنبی، جس
کے ماننے والے بہت کم تھے) اور آخر میں بھی میں غربا کے اندر محدود ہوکر
رہ جائے گا تو خوش خبری ہو غربا کے لیے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا:’’ یارسول
اللہ! غربا کون ہیں؟‘ ‘ ارشاد فرمایا:’’ جو امت میں فساد کے وقت دین و سنت
پر قائم رہیں۔‘‘ (تنبیہ الغافلین للعلامہ ابن حجر عسقلانی (م ۸۵۲ھ) اردو
ترجمہ موت کا سفر، مترجم : مفتی خلیل احمد خاں برکاتی)
واقعی جس طرح اجنبی مسافر سفر میں اپناساتھی نہیں پاتا یا کبھی کبھار کوئی
اس سے سیدھے منہ بات کرنے والا مل جاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح آج اسلام کا
حال ہے کہ اس پر چلنے والے خال خال نظر آتے ہیں عام طور سے جو لوگ پابندِ
شرع ہوتے ہیں ان میں بھی اخلاص کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ اللہ ہمیں ہدایت
بخشے۔ (آمین)
المختصر یہ کہ مساجد میں دنیاوی باتوں کا حد درجہ وبال دنیا کی باتیں کرنے
والوں پر ہوتا ہے ۔ نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں ۔ اعمال اکارت ہوجاتے ہیں۔اللہ
عزو جل کو ایسے افراد سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ان
وعیدوں اور وبال سے محفوظ رہنے اور اپنی مختصر سی نیکیوں کو ضائع ہونے سے
بچانے کے لیے مسجدوں میں دنیاوی باتوں سے بچے رہیں ۔مساجد کو چوپال نہ
بنائیں بلکہ مساجد میں صرف اور صرف خیر ، بھلائی اور نیکی کی باتیں کریں ۔
نماز ، تلاوت ِ قرآن، ذکر و اذکار ، تسبیح و تہلیل اورعبادت و ریاضت میں
مصروف رہیں کہ اسی میں دنیوی و اخروی نجات مضمر ہے ۔ اللہ عزو جل ہمیں نیک
کاموں کی توفیق بخشے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری
پیاری سنتوں پر عمل کا مخلصانہ جذبہ عطا فرمائے ۔ ریاکاری کی ہولناک بیماری
سے دور فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم |