ہر مشکل کے بعد آسانی ہے

زندگی کے اصول سیکھتے سیکھتے عمر گزر جاتی ہے لیکن اہم بات تو یہ ہے کہ زندگی کے اصول زندگی خود باقاعدگی کے ۔ ساتھ سکھاتی ہے۔اکثر پرندے اپنے بچوں کو ایک خاص مدت کے بعد دانہ پانی گونسلے میں لا کر نہیں دیتے خواہ وہ کتنا ہی چلائیں،بھوک پیاس کی تکلیف انہیں اُڑنے میں مدد دیتی ہے۔ اچانک سے ان چلانے والے پرندوں کو جو ماں باپ ظالم نظر آرہے ہوتے ہیں، رحمت کے فرشتے لگنے لگتے ہیں۔ اُنہیں اپنے پروں کی مضبوطی کا اندازہ ہوتا ہے۔وہ اس دنیا کی خوبصورتی کو اپنی انکھوں سے دیکھتے ہیں اپنے فیصلے خود کرتے ہیں ،تکلیف سہنے کے بعد انہیں خود انحصاری کی طاقت عطا ہوتی ہے ،یہی وہ اصول ہے جس میں دنیا کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے،پھول کٹنے کی تکلیف سہنے کے بعد ہی حسین گلدستہ بنتے ہیں ،پتھر کٹنے کے بعد ہی نگینہ کی صورت اختیار کرتا ہے۔ انسان بھی اسی اصول کے تحت کامیابی پا سکتا ہے۔

جہاں رشتے ناتے ہر وجود بے بس ہو جاتا ہے وہاں ہماری ذات ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑی سہارا دتی ہے۔جیسے چلتی ہوئی ہوا آگ کو اور بھڑکا دیتی ہے ویسے ویسے مشکلات و پریشانیاں انسان کو مزید مضبوط بناتی ہیں۔ہر تکلیف ایک نئی خوشی کی قیمت ہوتی ہے لیکن ہم اس بات کو دیر سے سمجھتے ہیں۔

اگرماں بچے کے رونے کے باعث اسے ہر غلط کام کرنے دے تو وہ کبھی بھی درست عمل سیکھنے کے قابل نہیں ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ رب ہماری رہنمائی کے لیے ہمیں پرشانیوں اور مشکلات میں مبتلا کر دیتا ہے، غلط کام کرنے پر بے جینی اور تکلیف ہمیں درست کام کرنے پر آمادہ کرتی ہے،رات کا اندھرا ایک روشن سحر لاتا ہے اُسی طرح مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے بعد انسان میں ہمت و حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔رب نے انسان کا جسم بھی اس طرح بنایا ہے کہ ہر بار تکلیف سہنے کے بعد اس میں مزید تکلیف سہنے کی گنجائش رکھی ہے،کسی کو اس کی بساط سے ذیادہ نہ تکلیف دی جاتی ہے اور نہ ہی کام ،ہر انسان میں جیسے جوہر ہیں ویسا ہی اس سے کام بھی لیا جاتا ہے۔

جب مصائب و آلام کا سامنا ہوتا ہے تو انسان کو ان مشکالات کے سبب رب سے شدید شکایات ہوتیں ہیں کہ آخر اسے ہی کیوں ان کے لیے چنا گیا ،لیکن جس کو بڑی تکلیف دی جاتی ہے اس کے لیے انعام بھی بڑا ہوتا ہے،اولیااللہ اور پیغمروں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں،جس نے جتنی زیادہ تکالیف پائی مراتب بھی اُسی قدر بلند تھے۔

ترقی کے زینے طے کرنے کا اصول یہی ہے۔ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ
جو جیز مجھ کو مارتی نہیں وہ مجھ کو پہلے سے زیادہ طاقتور بنا دیتی ہے۔

ایک دانش مند کے لیے مشکلات ترقی کا زینہ جب کہ بے وقوف کے لے اس کی بربادی کا سامان ہوتی ہیں۔مولانا وحید الدین اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہمارے چاہنے سے نظام قدرت نہیں بدل سکتا یہ رب کا نظام ہے کہ پھول کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں۔کانٹوں سے بچتے ہوئے پھولوں کے حصول کی کوشش کرنا ہی زندگی میں ترقی کا ضامن ہے ،عسر کی زمین سے یُسر کی فصلیں اُگائی جاتی ہیں۔

کوئی شخص جب نیم کے درخت کو کاٹتا ہے تو اس کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ اس کے تنے سے چھلکا بھی اُتارے ،اگر وہ یہ مشقت برداشت نہیں کرتا تو نیم کے تنے کو کیڑے کھا جاتے ہیں ،ایسے میں کیڑوں کو الزام نہیں دے سکتا،یہاں ہر نیم کے ساتھ کیڑا اور ہر زندگی کے ساتھ پریشانیاں اور مشکلات ہیں ۔یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے فائدے کے لیے ان مشکلات کو حل کرتا ہے یا پھر محض دوسروں کو الزام دے کراپنی بربادی کا باعث بنتا ہے-
kanwal naveed
About the Author: kanwal naveed Read More Articles by kanwal naveed: 7 Articles with 4908 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.