قدرت نے انسان کو اپنی بے پناہ
نعمتوں سے نواز ا ہوا ہے جنگلات بھی ان میں سے ایک بڑی نعمت ہیں یہی جنگلات
ہماری غذائی ضروریات کے علاوہ ایندھن ،غلہ،ادویات کے علاوہ فر نیچر کے لئے
لکڑی بھی مہیا کرتے ہیں جبکہ ماحولیات کے توازن کو برقرار رکھنے ،بارش کی
آمد اور زمین کے کٹاو کے عمل کو بھی روکنے میں معاون ہوتے ہیں چیچہ وطنی
جنگلات ملک کے بڑے جنگلات میں سے ایک ہے جو11500 ایکڑ پر مشتمل ہے یہ جنگل
قدرتی طور پر 1918میں صرف 5 کلو میٹر تک محیط تھا اسے 1923میں توسیع
دیناشروع کی گئی اس جنگل میں کیکر شیشم کے درختوں کی بڑی تعداد ہوا کرتی
تھی جو ملک بھر میں فرنیچر سازی کے لئے بہت مشہور تھیں ملک کے دوسرے شعبوں
کی طرح آمرانہ اور مارشل لا ادوار محکمہ جنگلات پر بھی اپنے برے اثرات چھوڑ
گئے ٹمبر مافیا اور محکمہ جنگلات کے عملے نے اس قومی ورثے کو دونوں ہاتھوں
سے لوٹا اور آہستہ آہستہ درختوں کی کٹائی جاری رہی جس سے اربوں روپے مالیت
کی لکڑی اونے پونے داموں فروخت کردی گئی۔محکمہ جنگلات کے ریٹارڈ اور حاضر
سروس ملازمین کے گھر جانے کا اتفاق ہوتو ان کے گھر میں موجود فرنیچر اور
گھر میں کروایا ہوا لکڑی کا ورک اپنی داستان سناتا نظر آئے گا۔غرضیکہ
ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والہ جنگل کنگال کر کے رکھ دیا اور کسی
بھی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ جنگلات کو جھاڑیوں میں تبدیل کرنے والوں
کے خلاف کارروائی کرتی۔
450مربعوں پر مشتمل یہ جنگلات متواتر خسارے میں ہیں ۔عام مارکیٹ میں زمین
کا ٹھیکہ فی ایکڑ25 سے 30ہزار روپے کے قریب ہے چونکہ اس رقبہ میں پودے
لگائے ہوتے ہیں آدھی قیمت پر بھی ٹھیکے پر دے دیا جائے تو14کروڑ روپے سے
زائدکی آمدنی ہوسکتی ہے لیکن یہاں تو صرف خسارہ ہی خسارہ دکھایا جاتا
ہے۔گزشتہ سال 1150ایکڑ کے رقبہ پرشیشم کے پودے لگائے گئے ہیں جن پر مختلف
بیماریوں نے حملہ کر رکھا ہے جبکہ ملازمین اور اردگرد کی آبادیوں کے مویشی
بھی جنگل اجاڑنے میں بڑا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اگر کوئی افسر مویشیوں
کو چرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو مقامی با اثر شخصیات اور جنگلات
ملازمین کی طرف سے شدیدردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنگلات کے ملازمین فی
مویشی ایک سو سے دو سو روپے چرنے کے لیتے ہیں اس طرح ہزاروں مویشی پورے
جنگل میں چرتے پھرتے ہیں جس سے جنگل اجڑتا ہے لیکن ملازمین لاکھوں روپے
ماہانہ کماتے ہیں۔اس کے علاوہ شہد ہے جس سے بھی سالانہ لاکھوں روپے کمائے
جاتے ہیں لیکن وہ بھی سرکاری خزانے میں نہیں جاتے جبکہ ملازمین کی ملی بھگت
سے سائیکلوں کے ذریعے بھی روزانہ کی بنیاد پر لکڑی چوری ہورہی ہے۔اس قومی
ورثے کو بچا کر لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا جاسکتا ہے اگرپنجاب حکومت تھوڑی
سی توجہ دے ۔ خادم اعلیٰ اپنے قیمتی لمحات میں سے تھوڑا سا وقت جنگلات کے
لئے نکالیں گے کیا؟ |