انسان کی حقیقت

چار دوست لکڑہارا ،درزی،سناراور فقیر اکٹھے دوسرے شہر جا رہے تھے،سب زیادہ پیسہ کمانے کی غرض سے اپنے اپنے ہنر کو آزمانے کے لیے سازوسامان بھی ساتھ لے جا رہے تھے ،راستے میں جنگل آگیا ۔سب کو رکنا پڑا۔طے یہ پایا کہ باری باری سویا جائے تا کہ حفاظت کا انتظام ہو سکے۔ لکڑھاراجاگ رہا تھا تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ کام کیا جائے ،اس نے ایک لکڑی کا مجسمہ بنایا ،جو ایک خوبصورت عورت لگتی تھی۔ جب درزی کی باری آئی تو اس نے اسے کپڑے پہنا دیے ،جب سنار کی باری آئی تو اس نے اسے سونا پہنا دیا۔جب فقیر کی باری آئی تو اس نے رب سے دُعا کی کہ اس میں جان ڈال دے کیونکہ اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ رب نے دُعا قبول کی اور وہ عورت کا مجسمہ عورت بن گیا۔

سب دوست آپس میں لڑ پڑے کہ یہ عورت میری ہے۔ ہر ایک کہ پاس جواز موجود تھا لیکن فیصلہ کرنا محال تھا لہذا قریب کے گاوں کے قاضی کو بلایا گیا کہ وہ فیصلہ کرئے کہ عورت کس کی ہے۔ قاضی کے فیصلہ کو سننے کی بجائے وہ سب مرنے مارنے پر اُترے ہوئے تھے کہ عورت نے کہا میں بتاؤں میں کس کی ہوں یہ کہہ کر وہ درخت سے لپٹ گئی واپس لکڑی بن گئی۔

جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو ہر رشتہ اس پر اپنا حق جتاتا ہے ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ میرا ہے،مگر کچھ وقت کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ تو رب کا ہے،اس حقیقت کو جاننے میں مگر سالوں لگ جاتے ہیں ۔مٹی کا پتلا واپس مٹی میں چلا جاتا ہے ،سب اسے چھوڑ کر قبرستان سے واپس آجاتے ہیں۔اس کے ساتھ اس سے متعلقہ جھگڑے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔انسانی جسم میں بہت سی جیزیں جینز طے کرتے ہیں کہ کیسی ہوں گی مثلاً انکھوں کا رنگ ، لڑکا یا لڑکی ہونا ،قد کا لمبا یا چھوٹا ہونا۔لیکن انسان کا سچا یا جھوٹا ہونا جینز نہیں انسان خود طے کرتا ہیں ، اپنی لالچ و ہوس کو وہ کنڑول کر سکتا ہے ،ممکن ہے کہ کوئی کسی چور کا بیٹا ہو لیکن وہ چور بنے گا یا نہیں یہ طے کرنا اس کے اختیار میں ہے ۔انسان کو اپنی حقیقت جاننے کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی ذات کا خاموشی سے تجزیہ کرئے۔کیا ہے جو انسان کو سکون عطا کرتی ہے ، مذہب، دولت ،خاندان ،علم کیا جیز اگر غور کیا جائے تو فقط خدائی صفات ہیں جو انسان کو دلی سکون دیتی ہیں۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا
ہر بچہ رب کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہ اس کے ماں باپ ہیں جو اسے یہودی ،نصاری یا عیسائی بناتے ہیں۔
آپ ﷺ کفارکے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے، جب صحابہ نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ نہیں تو ان کے بچے ضرور اسلام قبول کریں گئے۔ انسان کا با اختیار ہونا بھی خدائی صفت ہے ۔ انسان اپنے فیصلےکرنے کا اختیار رکھتا ہے انسان کو اس دنیا میں جو ملتا ہے اس کے عمل کا صلہ ہے اور اس دنیا میں جو ملے گا وہ بھی اعمال کا صلہ ہی ہو گا۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی روح کا جائزہ لے۔

مدر ٹریسا کہتی تھی کہ روح کو چھونے کے لیے خاموشی کی ضرورت ہوتی ہے۔

پادری جول اوسٹن کہتے ہیں کہ انسان کو جسمانی جینز اپنے ماں باپ سے لیکن روحانی جینز اپے روحانی باپ سے ملتے ہیں جو سب کا(رب) فادر ہے ۔
تمام قسم کے مذاہب اچھائی ہی کی تلقین کرتے ہیں

رب کی ذات خاموشی سے تجزیہ کرتی رہیتی ہے ،فوراً سے سزا نہیں دیتی،رب کی ذات دینا پسند کرتی ہے۔رب رحم اور معاف کرنے جیسی صفات رکھتا ہے۔غصہ اور غضب بھی رب کی صفات ہیں ،محبت اور دوستی بھی خدائی صفات ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان تو ادنی ہے رب نہیں تو وہ مجبور محض ہے تو ایسا نہیں ہے۔ انسان جب ربانی صفات کو اپنے اندر اجاگر کرتا ہے تو وہ اپنی حقیقت کو پا سکتا ہے ورنہ اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہتا اور اپنی حقیقت کو پانے کا مطلب ہے کہ وہ سکون کو پا لے۔ انسان کے اندر بے چینی کو جو جیز ختم کرتی ہے وہ ربانی صفات سے قریب ہو جانا ہے۔ ایک انسان جو یہ خواہش کرتا ہے کہ دوسروں کو عطا کرئے تو رب اسے امارت عطا کرتا ہے جبکہ دوسرا شخص جو رب سے خواہش کرتا ہے کہ یا رب مجھے سب دیں مجھے کسی کو دینا نہ پڑے تو رب کی ذات اسے بھکاری بنا دیتی ہے ۔دنیا میں انسانی اعمال ایک دائرے میں چلتے ہیں جو ہم کسی کو دیتے ہیں۔ ہمارے پاس واپس ضرور لوٹتا ہے خواہ وہ عزت ہو یا ذلت ، محبت ہو یا نفرت،سچ ہو یا جھوٹ لہذا ربانی صفات انسان کا تزکیہ کرتی ہیں۔

خاموشی اختیار کرنے سے دوسروں کو سننے کے لمحات زیادہ میسر آتے ہیں ۔سوچنے کہ صلاحیت بڑھتی ہے ۔جلدی جلدی فیصلے نقصان کا باعث بنتے ہیں جو انسان سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتا ہے وہی ربانی صفت کے باعث کامیاب رہتا ہے۔جو لوگ صرف لینا پسند کرتے ہیں وہ کبھی خوش نہیں رہتے اصل خوشی دینے میں ہے ، رب عطا کرتا ہےوہ اپنے بندے کو ہمشہ معاف کرتا ہے انسان اپی حقیقت سے مطابقت اسی صورت اختیار کر سکتا ہے کہ وہ معاف کرنے والا اور دوسروں کو عطا کرنے والا رب کا نائب بن جائےخواہ وہ ہندو ہو یا مسلم سکھ ہو یا عیسائی جب انسان سچ ،عفودرگزر، دوستی ، محبت جیسی صفات کا حامل ہو گا تو اس کو سکون میسر آئے گا۔

انسان کی لالچ نے آج اسے اپنی حقیقت سے دور کر دیا ہے جھوٹ ،مکاری فریب سے وہ دوسروں کو کم خود کو زیادہ دھوکا دے رہا ہے ۔وہ ربانی صفات کا حامل نہیں رہا۔وہ اپنی ذات کو اپنے ماں باپ ،اپنے مذہب اپنے رشتہ داروں سے منسوب کرتا ہے مگر رب سے منسوب کرنے سے عاری ہے۔اس کی سوچیں اور اعمال اس کی بربادی کی زمہ دار ہیں ۔
kanwal naveed
About the Author: kanwal naveed Read More Articles by kanwal naveed: 7 Articles with 4555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.