آزادی کی قیمت اور آزادی کے رکھوالے

تحریر : محمد اسلم لودھی

آزادی بہت بڑی نعمت ہے جو قومیں غلامی کی زنجیر میں جکڑ ی ہوئی ہوں یا وہ کسی زمانے میں غلام رہی ہوں آزادی کی نعمت کے بارے میں ان سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا ۔ انگریزوں اور ہندووں کی غلامی سے چھٹکارا پانے کے لیے برصغیر پاک و ہندو کے مسلمانوں نے حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں 9 لاکھ انسانی قربانیوں کے بعد زمین کا جو چھوٹا سا ٹکڑا "پاکستان" 14 ٗ اگست 1947ء کو حاصل کیا تھا اس کی آزادی اور تحفظ کے لیے گزشتہ 65 سالوں میں افواج پاکستان کے کتنے افسران اور جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاپاکستانی قوم اپنے ان محسنوں کے ناموں تک سے بھی آگاہ نہیں ہے صرف وہ چند افسر اور جوانوں کے بارے میں ہر سال 6 ستمبر یوم دفاع کے موقع پر پرانی تصویریں اور تحریریں شائع کردی جاتی ہیں جنہوں نے پا ک بھارت جنگوں میں نشان حیدر حاصل کیے تھے لیکن وہ ہزاروں فوجی افسر اور جوان قوم کی نظروں سے آج بھی اوجھل ہیں جنہوں نے اپنی قیمتی جانوں کو وطن عزیز کے دفاع پر قربان کرکے آنے والی نسلوں کو تحفظ فراہم کیا ہے ۔ ہر انسان کو اپنی جان سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے مجھے یاد ہے جب 65 کی جنگ شروع تھی جونہی ہوائی حملے کا سائرن بجتا تو ماں ہم سب بہن بھائیوں کو چارپائیوں کے نیچے زمین پر اس لیے لیٹا دیتی کہ ہوائی جہاز اگر بم گرائے بھی تو ہم محفوظ رہیں اور خود آیت الکرسی پڑھ کر فضا میں اڑتے ہوئے جہازوں کو پھونکیں مارتی رہتی ۔ اس لمحے پاک فوج کے ان جری اور بہادر جوانوں کا ہی حوصلہ تھا جو حملہ آور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑ ے ہوگئے اور ان میں سے کتنوں نے جام شہادت نوش کرکے لاہور پر بھارتی قبضے کاخواب خاک میں ملا دیاتھا ۔آج 1965ء کی جنگ کی بات ہوتی ہے تو صرف میجر عزیز بھٹی شہید ( نشان حیدر ) ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن ان سینکڑوں فوجی افسروں اور جوانوں کو ہم فراموش کر بیٹھے ہیں جنہوں نے نہ صرف بی آر بی کے سامنے اپنے خون کی ایسی لکیر کھینچ دی کہ بار بار حملوں کے باوجود دشمن بی آر بی عبور نہیں کرسکا ۔ہمیں وہ فوجی جوان بھی یادنہیں ہیں جنہوں نے چونڈہ کے محاذ پر بھارت کی جانب سے ٹینکوں کا سب سے بڑا حملہ( 600 ٹینکوں)نہ صرف پسپا کیا بلکہ خود ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر سیالکوٹ ٗ گوجرانوالہ اور وزیر آباد پر قبضے کا بھارتی خواب چکناچور کردیا ۔ہم ان جوانوں کو بھی بھول گئے جنہوں گنڈا سنگھ بارڈر اور قصور سیکٹر پر نہ صرف دشمن کی پیش قدمی روک دی بلکہ کھیم کرن کا بھارتی شہر قبضے میں لے کر ثابت کردیا کہ پاکستان بھارت کے لیے تر نوالہ نہیں ہے ۔ہم چھمب جوڑیاں اور راجستھان کے دفاع میں جانیں قربان کرنے والوں کوبھی بھول گئے اور ان جنگی معرکوں میں داد شجاعت دینے والے عظیم پاکستانی فوجیوں کو جسموں کے ٹکڑے اکٹھے کرکے قبرستانوں میں دفن کرکے یہ فراموش کربیٹھے کہ قوم کے حقیقی محسن یہی ہیں ۔ یہی عالم معرکہ کارگل ٗ اور دہشت گردی کی حالیہ جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والے فوجی افسروں اور جوانوں کا ہے ۔جو شہید ہوتاہے اس کو گارڈ آف آنر دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھلا دیا جاتا ہے اور ان کا ذکر کرنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا شمار پاکستان کے ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں جرمنی میں ٹرین پر سفر کررہا تھا وہاں قوانین اس قدر سخت ہیں کہ چانسلر ( سربراہ حکومت) کے لیے بھی بغیر سٹاپ کے ٹرین نہیں روکی جاسکتی۔ اچانک ایک جگہ گاڑی رکی تو مجھے سخت حیرت ہوئی سامنے دیکھا تو ایک عمررسیدہ شخص ہاتھ میں لاٹھی لیے آہستہ آہستہ گاڑی کی جانب آرہا ہے جونہی وہ گاڑی میں سوار ہوا تو ڈبے میں موجود تمام مسافر اپنی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور اس عمر رسیدہ شخص کو اپنی نشست پر بیٹھنے کی پیش کش کرنے لگے جب وہ شخص سیٹ پر بیٹھ گیا تو میں نے حیرت سے ایک جرمن سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے جس کو اتنی عزت دی جارہی ہے تو اس نے جواب دیا کیا آپ نے دیکھانہیں کہ اس کے سینے پر ایک تمغہ سجا ہوا ہے اس نے دوسری جنگ عظیم میں جرمن قوم کے لیے زخم کھائے تھے جرمنی حکومت نے بہادری کے صلے میں اسے میڈل عطا کیاتھا یہ ٹرین جرمن قوم کے محسن کے احترام میں خلاف قانون ویرانے میں روکی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتیں لیکن پاکستانی ایسی بے حس قوم ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو یاد کرنا گوارا ہی نہیں کرتی ۔گزشتہ دنوں ائیر کموڈر ایم ایم عالم کاانتقال ہوا تو میں نے جس نوجوان سے بھی ایم ایم عالم کے بارے میں پوچھا ہر شخص لاعلم دکھائی دیا حالانکہ ایم ایم عالم وہ عظیم فضائی سرفروش تھا جس نے دنیا کی فضائی تاریخ کا نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ قائم کیا ۔ایک روسی جنرل نے بہت خوب کہا تھا کہ" جنگ کاافسوسناک پہلو یہ ہوتاہے کہ اس میں لوگ مرتے ہیں مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے جن کے لیے وہ مرتے میں وہی انہیں بھول جاتے ہیں"۔راجہ محمداکرم شہید ( نشان حیدر ) سمیت کتنے ہی پاکستانی بنگلہ دیش میں آج بھی دفن ہیں پاکستانی قوم نہ تو انہیں یاد کرتی ہے اور نہ ہی ان کی قربانیوں کا تذکرہ کرنا پسند کرتی ہے۔ میں ان دنوں 65 اور 71 کی پاک بھارت جنگوں کی معرکہ آرائی اور شہداء کے بارے میں جامع کتاب مرتب کررہا ہوں ۔یہ کوشش اپنی جگہ لیکن ہر قابل ذکر شہر ( لاہور ٗکراچی ٗ کوئٹہ ٗ پشاور ٗراولپنڈی ) کے کسی بھی ایک چوک کو آزادی چوک کا نام دے کروہاں پاکستان کی آزادی و خود مختاری کے لیے جانیں قربان کرنے والے پاکستانی فوجی افسروں اور جوانوں کی تصویریں اور شہادت کا مقام درج کردیں تاکہ آنے والے نسلیں بھی اپنے ان عظیم محسنوں کے بارے میں جان سکیں۔ گلبرگ لاہور میں لبرٹی چوک تو موجود ہے لیکن وہاں ان چند پولیس والوں کی تصویریں آویزاں ہیں جنہوں نے سری لنکا ٹیم پر حملے کے دوران دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جانیں قربان کی تھیں لیکن پاک فوج کے وہ عظیم سرفروشوں کی تصویریں پاک آرمی کے رجمنٹل سنٹروں کے ریکارڈ میں تو موجود ہیں لیکن لبرٹی چوک میں آویزاں کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ میں سمجھتا ہوں یہ پاکستانی قوم کا بہت بڑا المیہ ہے ۔ جان سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے جو پاکستان کے لیے جان قربان کرتا ہے وہ پاکستانی قوم کا سب سے بڑا محسن ہے اس کی یاد کو تازہ کرنا ٗ اس کی تصویراور جنگی معرکے کو آنے والی نسلوں تک پہنچانا زندہ قوموں کا شعار ہوا کرتا ہے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126743 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.