مسلم ممالک میں انتشار و خوں ریزی کے ذمہ دار کون؟

حالیہ دنوں عرب ممالک جس خوں ریزی کے شکار اور باہم آمادۂ پیکار ہیں وہ دلوں کو خون رُلاتا ہے۔ ایساسنگیں دور آسماں نے کبھی نہ دیکھا! تاریخ اسلامی میں بہت سے دور ِ پُر حزیں و پُر خطر گزرے ہیں جب آپسی خانہ جنگیوں نے مسلمانوں کی طاقت و قوت و سپاہ کو تباہی کے دہانے پہنچایا۔ ابتداے اسلام سے ہی یہود و نصاریٰ نے اسلام کے خلاف سازشیں کیں۔ مسلمانوں کی صفوں میں ایسے افراد یا طبقوں کی پرورش کی گئی جن سے اسلام کے قصرِ رفیع میں شگاف ڈالنے کا کام لیا گیا۔ ڈوبتے حالات میں عین ممکن تھا کہ مسلمان مکمل تباہ ہو جاتے کہ تائید ایزدی سے کوئی ایسی صورت نکل آتی کہ ہواخیزی اور خانہ جنگی کا تدارک ہو جاتا اور کیفیت یوں ہوجاتی کہ ؂
جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

ماضیِ قریب میں عربوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر اسرائیل کو وجود عطا کیا گیا۔ اس سے قبل حجاز مقدس میں من چاہی سلطنت برطانیہ کے ایما پر قائم کروا دی گئی تھی۔ بدقسمتی سے عرب حکمرانوں کی بے حسی ایسی بڑھی کہ اسرائیل کا وجود پروان چڑھتا رہا اور کوئی اس کا سدِّ باب کرنے والا نہ رہا۔ جن کے یہاں یہود سے نفرت تھی وہ قوت سے عاری تھے، جن کے یہاں قوت تھی وہ صرف ایامِ حج میں خطباتِ حج میں صرف اسرائیل کے خلاف دُعا پر اکتفا کر کے عملی قوت کے استعمال سے بہت بہت دٗور رہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیل سازشوں کا دائرہ کار وسیع کر کے اُبھرتی مسلم قوت کو فنا کے گھاٹ اترواتا رہا لیکن مسلم ممالک خاموش رہے۔ کسی کی حِس جاگی بھی تو صرف زبانی احتجاج پر اکتفا کیا گیا اور عملی اقدام کی ضرورت قطعی محسوس نہ کی گئی۔ برعکس اس کے اسرائیل ہر کام عملاً کرتا رہا اور مسلم ممالک کی تنظیم کئی دہائیوں سے زبانی احتجاج کو ہی کافی سمجھتی رہی؛ اس مدت میں اسرائیل نے دو طرح کے فائدے اٹھائے۔ فلسطینی مسلمانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ تمام عرب ممالک کو اندرونی خلفشار میں مبتلا کر کے انھیں باہم دست و گریباں رکھا۔جس کے بھیانک نتائج دنیا دیکھ رہی ہے، جس قوت کو فلسطینی مسلمانوں کی جائز آزادی کے لیے خرچ ہونا تھا وہی مسلمانوں کی تباہی وبربادی پر صرف ہو رہی ہے۔ ادھر دو برسوں سے عرب میں انقلاب کی دستک ہوئی۔ بعض نے اسے سراہا لیکن اس کی پشت پر جس تباہی کا سایہ محسوس کیا گیا اس میں یہود کا نمایاں کردار سمجھ آتا ہے۔ ان انقلابات نے صرف شام میں ہزاروں مسلمانوں کو خاک و خوں میں نہلا دیا ہے۔ اقتدار کی بساط نہ سمٹے اس کوشش میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی لاشوں کے انبار لگا دینا کہاں کی دانش مندی ہے!

ان خانہ جنگیوں کو شباب دینے کے لیے صہیونیت نے ہتھیاروں کی تجارت شروع کر رکھی ہے۔ جنگ کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ ہم دردی کی دُہائی میں نیٹو کو میدان میں اتار کر مسلم ممالک کے زمینی ذخائر و قدرتی وسائل کو ہتھیاکر مسلم معیشت پر زبردست کنٹرول کیا جا رہا ہے، اس کا راست فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے کہ اب مسلمان عرصہ تک سنبھل نہ پائیں گے۔ وہ دفاعی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ ہر عرب ملک دوسرے عرب ملک کا دشمن دکھائی دیتا ہے۔ ہر اک اقتدار کا بھوکا اور صہیونیت کا متوالا ہے۔ ہر اک امریکہ کا حامی و اسرائیل کا وفادار نظر آتا ہے۔ ان کی اپنی قوت اپنوں پر خرچ ہوتی ہے۔ لاکھوں مسلمان ان بحرانوں کی نذر ہوگئے۔ معیشت تباہ ہوئی۔ مہنگائی شباب پر آئی۔ مسلمان غریب تر ہوتے گئے۔ وہ اپنی روزی روٹی کی فکر میں غرق ہوگئے۔ وہ کیا اسلام دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عرب ممالک میں برطانیہ و امریکہ دندناتے پھر رہے ہیں۔

انقلابات نے ایسی جماعتوں کو شہ دی جن کے یہاں بنامِ توحید تشدد پایا جاتا ہے۔ وہ مسلمانوں کی یادگاروں کو شرک سے تعبیر کر کے اکھاڑتے اور اسلامی مآثر کو تاراج کرتے جارہے ہیں۔ اسلاف کے مزارات کو شام میں جس بے دردی سے اکھیڑا اور کھودا گیا اس سے اسلامی تہذیب کے آثار نوحہ خواں ہیں۔کچھ ایسی ہی کوشش مصری انقلاب کے بعد بعض شدت پسندوں نے مصر میں کی۔پاکستانی تشدد پسند جماعتوں نے مسلمانوں کو ہی کھڈیڑا اور مارا ہے۔ یہی کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے۔ زندوں کو تو نشانہ بنایا جا رہا ہے حتیٰ کہ اسلام کی اشاعت کرنے والے مبلغینِ اسلام کی تربت تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ انھیں بھی بموں کی زد پر رکھا گیا۔اسلامی تعلیمات کی دھجیاں بکھیرنے والے ایسے ظالم افراد نے لاشعوری طور پر صہیونیت کو مضبوط کیا ہے اور اپنے ظلم کو جہاد کا نام دے کر اسلام کے مقدس رکن ’جہاد‘ کو بدنام کیا،مسلم قوت کے شیرازے کو منتشر کر کے رکھ دیا ہے۔ان کے ہاتھ مسلمانوں ہی کے خون سے رنگین ہیں۔ یہ جو روزانہ پاکستان و افغانستان میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں، ان میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان ہی مر رہے ہیں،اسے جہاد قرار دینے والے اسلامی تعلیمات اور توحید کے تقاضوں سے عاری ہیں،ایسی طالبانی ذہنیت نہ تو اسلام کی مطلوب ہے نہ ہی توحید کے دعوؤں کی موئید۔مسلمانوں کے باہمی نزع نے صورتِ حال ایسی شدید کر دی ہے کہ ہزاروں ہلاکتوں کے باوجود اب تک امن قائم نہ ہو سکا نہ ہی اس کی کسی حکمراں کو فکر ہے! وجہ شاید یہی ہو کہ امریکہ و یو این او کی یہی مرضی ہے۔ ان کی خوش نودی کی خاطر مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی مرکز کے حکمراں بھی لبوں کو جنبش نہیں دیتے۔وہ عیاشیوں کے دل دادہ ہیں، عرب شہزادوں کی راتیں بیروت و یورپ کے قحبہ خانوں میں گزرتی ہیں۔ ان کے اتحاد امت کے بلند بانگ دعوے اور خوب صورت نعرے صرف نوکِ زباں رہتے ہیں، عمل سے عاری نعرے صرف شعبدہ اور دکھاوہ ہیں۔ ورنہ اس کے لیے کوشش کی جاتی تو آج شام و مصر و لبنان و فلسطین و عراق وافغاں وغیرہ میں خونِ مسلم اس قدر ارزاں نہ ہوتا۔یورپ میں کسی فرد کا خون ہو جاتا ہے تو کہرام مچ جاتا ہے لیکن مسلمان کا خون اس قدر بھی قیمت نہیں رکھتا!کیا حرمین کے حکمراں سے مسلمان صرف حرمین میں اعلیٰ انتظامات اور توسیعی اقدامات چاہتے ہیں؟ یہ بات اچھی ہونے کے باوجود ساری دنیا کے مسلمان اسلامی ممالک میں اتحاد کے لیے سعودی حکمرانوں کی طرف نظرِامید لگائے بیٹھے ہیں، فلسطین کی عملی حمایت کی آس لگائے ہیں۔ یہود و نصاری، امریکہ و برطانیہ کے خلاف اتحادِ ممالکِ اسلامی کی امید پر پوری دنیا کے مسلمان جی رہے ہیں کہ کب مسلمانوں کے لیے یہ حکمراں کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔یاد رکھیں! اسلامی سرحد و سیما کی حفاظت جدید تعمیرات و سہولیات سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ مسلم امہ ایک جسم کی مانند ہے اس کے کسی بھی حصے پر ضرب لگائی جائے گی تو پوری قوم تڑپ اٹھے گی۔ مسلمانوں کے زخموں سے رستے خون کی تری عرب حکمرانوں سے بیداری کا مطالبہ کرتی ہے اور صہیونی سازشوں کے مقابل مسلم اتحاد کے لیے منتظر ہے۔٭٭٭
Gulam Mustafa Razvi
About the Author: Gulam Mustafa Razvi Read More Articles by Gulam Mustafa Razvi: 277 Articles with 257086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.