اسلام کی تبلیغ کا ایک خاموش سپاہی

جمشید خٹک

ڈاکٹر اشتیاق (مرحوم) ایک پارسا ، نیک سیرت، متقی اور پرہیز گار انسان تھے۔نہایت کم گو اور شریف الطبع طبیعت کے مالک تھے۔ایک سچے مسلمان اور حقیقی معنوں میں اسلا م کے شیدائی تھے۔وہ اپنے اخلاق ، معاملات ،لین دین سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتے تھے۔بڈاپسٹ (ہنگری ) میں اپنی پی ۔ ایچ ۔ ڈی کی ڈگری کی تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں مقیم تھے۔اس عرصے میں انہوں نے کئی خواتین اور مردوں کو مشرف بااسلام کیا ۔میں اُس کے ساتھ تقریباً روزانہ ایک گھنٹہ پیدل واک کیا کرتا تھا۔اُس واک کے دوران ہم طرح طرح کے تعلیمی ، علمی ، معاشرتی اور سماجی مسائل پر تبصرہ کرتے تھے۔ایک دن اُنہوں نے نہایت خوشی سے واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا۔کہ رات کو تقریباً ایک بجے اُس کے فلیٹ کے آخری فلور پر رہنے والی مجارستان کی ایک خاتون نے اُس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پوچھنے لگی ۔کہ واقعی یہ سچ ہے کہ شراب کا استعمال اسلام میں ممنوع ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایاکہ اُس نے اِس عورت کو جب بتایا ۔ کہ شراب کی اسلام میں ممانعت ہے ۔تو وہ مجار خاتون نے چُپ ہو کر یہ سنا۔اور خاموشی سے آنکھوں میں آنسو لئے چلی گئی ۔اور کہا کہ وہ کل دوبارہ آئیگی ۔اور تفصیل سے گفتگو کریگی ۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا۔کہ وہ اگلے دن پھر آئی ۔اور یہ سلسلہ تقریباً دس دن تک چلتا رہا۔دس دن کے بعد اُس خاتون نے اسلام قبول کر نے کا اظہار کیا۔ڈاکٹر صاحب نے اُس کو اسلام کے بارے میں تفصیلی لیکچرر دئیے۔جس کا اُس خاتون پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔اور اُس خاتون نے اسلام قبول کر لیا۔اسلام قبول کرنے سے پہلے اُس مجارر خاتون نے بتایا۔کہ اُس کا خاوند ہر روز شراب پی کے گھر آتاتھا۔گھر پہنچ کر شراب کے نشے میں دُھت وہ جھگڑا شروع کر دیتاتھا۔ان سارے جھگڑوں کی بنیاد شراب تھی۔جس مذہب میں شراب پر پابندی ہو۔وہ اُس کے مطابق سچا مذہب ہے ۔اس وجہ سے اسلام کو سچا سمجھ کر کے قبول کیا تھا۔جو انسانیت اور مسلمانوں کی بھلائی کیلئے دوسرا مذہب نہیں ہو سکتا۔یہ سلسلہ چلتا رہا۔ڈاکٹر صاحب اُس کو مقامی مسلمانوں سے اُس کا تعارف کرایا۔وہ بہت خوش اور ایک نئی دُنیا میں شامل ہوگئی تھی۔اُس محفل میں جس کی بھی اُس سے ملاقات ہوتی تھی۔وہ بہت متاثر ہوتی تھی۔اور تھے بھی تو چند گنتی کے مسلمان لوگ۔ایک دن ڈاکٹر صاحب میر ے پاس آئے ۔اور پریشانی کی حالت میں مجھ سے پوچھنے لگے ۔کہ اُس نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے ۔لیکن کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے ۔جس کا جواب دینے کیلئے ڈاکٹر صاحب کے پاس کوئی جواب اور معقول عذر نہیں تھا۔میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا۔ کہ آپ بات بتا دیں۔کوئی حل تلاش کر لینگے۔ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔کہ اُس خاتون نے پاکستان جانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے ۔’’اور میں (ڈاکٹر صاحب )اُس کو پاکستان نہیں لے جانا چاہتا۔ورنہ میری ساری محنت پر پانی پھیر جا ئیگا۔ ‘‘ کیونکہ جو مجار خاتون کے پاکستانی قوم کے بارے میں جو تاثرات ہیں ۔پاکستان آکر وہ چکنا چور ہو جائیں گے۔میں نے مزید تفصیل میں جانے کی غرض سے پوچھاتھا۔کہ آخر وہ کونسی باتیں ہیں۔جو وہ ان سے اتنے خائف تھے۔اُنہوں نے بتایا تھا۔کہ دیکھو وہ ایک یورپین عورت ہے ۔بے شک وہ مسلمان ہو چکی ہے ۔ابھی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اُن کے خیالات بہت پاکیزہ اور اعلیٰ ہیں ۔جب وہ پاکستان میں ائیر پورٹ پر اُترے گی۔تو سب سے پہلے عملے کے رویے اور ائیر پورٹ سے دو قدم باہر جب ٹیکسیوں ، بسوں او ر ویگنوں کا حال دیکھے گی ۔تو اُس کا سارا منظر نامہ تبدیل ہوکر دھڑام سے گریگا۔شہر سے گزرتے ہوئے جب سارے لوگ اُس کی طرف غضبنا ک نظروں سے دیکھیں گے۔اُس کے ہر عضا تک نظر جائیگی۔تو وہ سمجھے گی ۔کہ اُس میں کوئی نقص ہے یا وہ کسی اُوپر سیارے کی مخلوق اُتر آئی ہے ۔کیونکہ یورپی معاشرے میں کسی کو غور غورسے دیکھنا اُس کی بے عزتی کے مترادف ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا تھا۔کہ وہ مسجد ضرورجانے پر اصرار کریگی۔جونہی وہ مسجد میں یورپین لباس میں داخل ہوگی۔تو چند لوگ اس پر اعتراض کرینگے۔ہو سکتا ہے کہ وہ اُس خاتون کو مسجد میں جانے کی اجازت ہی نہ دیں۔اگر اجازت مل گئی ۔اور مسجد میں نفل پڑھنے کیلئے وہ مسجد کے احاطے میں داخل ہوتی ہے ۔جب وہ جوتے لے کر بغل میں دبا کر سجدہ کرتے وقت اپنے ساتھ رکھے گی ۔اگر وہ یہ سوال کرتی ہے ۔کہ یہ جوتے کیوں لوگ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔یا محفوظ مقام پر رکھتے ہیں ۔تو ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ وہ جھوٹ تو بول نہیں سکتا۔وہ کہے گا۔کہ لوگ مسجد سے پُرانے جوتیاں چوری کرلیتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ کہ اس موقع پر تو ڈوب مر جاؤنگا۔کیونکہ میں نے جو اس خاتون کے ذہن میں مسلمانوں کے کردار ، اخلاق کا جو نقشہ پر نٹ کیا ہے ۔اُس میں یہ باتیں شامل نہیں تھیں۔وہ سوال کریگی ۔ کہ میں نے (ڈاکٹر صاحب ) کو کیا جھوٹ بولا تھا۔جس کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا۔وہ نہ جھوٹ بول سکتا تھا۔نہ اُس خاتون کو پاکستان لا سکتا تھا۔اگر وہ اس خاتون کو پاکستان لانے کی دعوت دیتا۔ ہماری گرتی ہوئی اقدار اور اخلاقی پستی کا سارا پول کھل جاتا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے پی ۔ایچ ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے واپس پشاور یونیورسٹی میں شعبہ درس وتدریس سے منسلک ہوگئے ۔وہ خاتون مسلمان تو ہوگئی۔لیکن پاکستان کے مسلمانوں کو دیکھنے کی حسرت ،حسرت ہی رہی ۔ڈاکٹر صاحب بھی کچھ عرصہ کے بعد اس دُنیا سے رحلت فرماگئے ۔
؂ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

ہم نے اسلامی جذبے کے تحت بوسنیا ہر گو زویناکے مسلمانوں کو پاکستان میں پناہ دے دی۔لیکن اُس کے کیمپوں میں جو غیر اخلاقی واقعات ہوئے ۔یا بازاروں میں اُن کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا۔بہت جلد ہی اُنہوں نے واپس اپنے ملک جانے کا فیصلہ کیا۔

اس خطے کے مسلمان پیدائشی مسلمان ہیں ۔مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں ۔اور بچپن ہی سے اسلامی معاشرے میں اسلامی بودوباش پر مبنی زندگی گزاررہے ہیں۔لیکن اس کے بر عکس یورپین جب اسلام قبول کر لیتے ہیں ۔تو وہ سوچ سمجھ کر باہوش وحواس ایک فیصلہ کرتے ہیں۔جو دُنیا کے تمام مذاہب کا وسیع مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں ۔کہ اسلام سب سے بہتر اور اﷲ کی طرف سے بھیجا ہوا دین ہے ۔جو حق وسچائی پر مبنی ہے ۔اس لئے جب وہ اسلام کو قبول کرنے کے بعد زندگی گزارتے ہیں ۔تو اُن کے عقیدے میں رتی بھر شائبہ تک نہیں رہتا۔اور اسلام کے بتائے ہوئے اُصولوں پر نہایت سختی سے کاربند ہوتے ہیں ۔اُن کی ایک مثال یو ں بیان کروہنگا۔ کہ ایک سفارت خانے میں مسلمان لڑکی ریسپشنسٹ کے طور پر کام کرتی تھی ۔نئے سال کے موقع پر اکثر سفارت کار دوسرے سفارت کاروں اور دوستوں کو شراب کی بوتل بھیجتے ہیں ۔مسلمان لڑکی کو کہا گیا۔ کہ اس شراب کی بوتل کو پیک کریں ۔اُس مسلمان لڑکی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔کہ اُس کو مذہب اجازت نہیں دیتا۔کہ وہ اس حرام چیز کو ہاتھ لگائیں۔یہ انکار اُس لڑکی نے نوکری کو داؤ پر لگا کر کیا ۔ لیکن اپنے مذہب اسلام کو ہر حالت میں بلند رکھا۔ یہ وہ مثال ہے جوہمارے مسلمانوں کیلئے ایک سبق ہے ۔کہ اسلام کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنی چاہیے ۔ ۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 24953 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.