آؤ ملالہ ․․․ عراق بھی چلتے ہیں

ملالہ یوسف زئی کی جانب سے اقوام متحدہ میں دوران تقریر ایک منفی یہ بھی تاثر گیا کہ جیسے اسلام ، خواتین کی تعلیم کے خلاف ہے اور سوات کی اس لڑکی نے طالبان نامی گروپ کے سامنے "کربلا سوات" میں قربانی دیکر اسلام کو دوبارہ زندہ کردیا .۔دنیا کا ہر ذی شعور شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام دنیا کا واحد دین ہے جہاں مرد و عورت پر تعلیم کا حصول قدغن کے بجائے فرض قرار دیا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ کے عہد مبارک میں مسلم خواتین نے زندگی کے ہر شعبہ میں بھر پور کردار ادا کیا اور بڑی آزادی اورخوشی کے ساتھ علم سیکھنے سے سکھانے کے میدان یا معاشرتی خدمات کا میدان یا جہاد کا موقع یا سیاست و حکومت کے معاملات ہوں سب میں خواتین کا واضح روشن اور اہم کردار ہوا کرتا تھا ۔میدان جنگ میں مسلم خواتین مجاہدین کو پانی پلاتی تھیں ، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور اس کارخیر میں کسی بڑے یا چھوٹے کی تفریق و تمیز نہیں تھی، حتی کہ غزوہ احد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ تعالی عنہا بھی کارخیر میں اپنا کردار ادا کرنے میں موجود تھیں ۔ غروہ خندق کے موقع پر بھی مسلم خواتین نے اپنے ایسے کارہائے خیر انجام دئیے جو تاریخ کا انمول حصہ بن چکے ہیں۔ایکصحابیہ جو طب کا کامل علم رکھتی تھی ان کا خیمہیک ڈسپنسری اور ہسپتال کا کام دیتا رہا۔وصال نبوی ﷺ کے بعد امہات المومنین رضوان ﷲ اجمعین نے فروغ تعلیم کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں ، ام المومنین کا حجرہ ایک درسگاہ نظر آتا تھا ۔ علم تدریس کے فروغ میں مسلم خواتین کا سر گرم کردار رہا۔ہم جب مغرب کی جانب سے یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کسی ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کرلیتے ہیں جس کو میڈیا کے ذریعے اس قدر مشہور کر ادیاجا تا ہے کہ نا پختہ ذہنوں میں اسلام کیخلاف امریکہ و برطانیہ کا بھیانک کردار کا حصہ واضح نظر نہیں آتا۔مغرب اپنے نظام تعلیم کو اسلام کے مقابلے میں بالا تر سمجھتا ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ لارڈ میکاولے کا دیا گیا دوہرا نظام تعلیم مسلمانوں میں اس طرح رائج ہو کہ مسلمانوں کو اپنی اساس کی جڑیں تلاش کرنا بھی ممکن نہ رہے۔ملالہ یوسف زئی ایک" ماہر مقرر"ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اُ انگلش میں تقریر کا فن کمال کا ہے۔ لیکن ہم اس جیسے لاکھوں معصوم بچوں کو دیکھ ہی نہیں پاتے جو ملالہ یوسف زئی سے زیادہ کمال خوبی سے کسی کے لکھے گئے اسکرپٹ کو پڑھ سکے کیونکہ بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کو اپنی کہانی کے کردار کیلئے ایسے فرد کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ہالی وڈ کی فلم میں معیاری و تکینکی فلموں کو فلمانے کیلئے کرداروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔اخلاقی انحطاط پذیری مغرب کی بڑھتی ہوئی فصل ہے جیسے اب وہ کاٹ رہے ہیں۔ برطانیہ کے محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق2009میں جنسی اشتعال پر سکولوں کے3330بچوں کو خارج کیا گیا۔2010کے دوران یہ تعداد3030تھی ۔ جبکہ وارننگ دئیے جانے بچوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔اُس وقت ڈپٹی چلڈرنز کمشنر انگلینڈ سیو بر سو وئز کا کہنا تھا کہ اساتذہ بچوں کے جنسی تشدد کے مسئلہ کو اٹھانے کے حق میں نہیں کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو ان کے اسکولوں کے بارے میں کمیونٹی کو غلط امیج جائے گا۔جبکہ 2010میں کنیا میں ایک ہزار ٹیچرز کو سکولوں میں لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے پر بر طرف کردیا گیا تھا، جن لڑکیوں کو جنسی طور ہراساں کیا گیا ان کی عمریں بارہ سے پندرہ برس کے درمیان ہیں یہ مغربی تعلیمات کی ایک چھوٹی مثال ہے۔مغرب زدہ ماحول کا تمام تر زور اس بات پر رہا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم کے نام پر اس قدر بد نام کردیا جائے کہ ان کی جانب سے کئے جانے والے تمام پروپیگنڈوں پر آنکھ بند کرکے یقین کیا جاسکے۔ جبکہ مسلمانوں نیاُس وقت تعلیم کو عروج پر پہنچایا جس کا مغرب تصور بھینہیں کرسکتا تھا ۔859میں خواتین کی پہلی یونیورسٹی مراکش میں قائم کی گئی تھی ۔ اب جدید تعلیم سے آراستہ نام نہاد قوتیں امریکہ اور اس کے سابقہ آقا برطانیہ کیجانب سے جس طرح مسلم ممالک پر لشکر کشی کی جاتی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ان کی جنگجو پالیسیوں کی وجہ سے ہی مرد اپنے زمیں کے حفاظت کیلئے جہاد کے نام پر اپنی جانیں قربان کرتا ہے تو دوسری جانب خواتین ان کی عدم موجودگی میں تمام خاندانی نسق و انتظاسنبھالتی ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فورس نے افغان عوام کا جو حال کیا سو کیا ، اس کی بربادی داستانوں پر اب رویا بھی نہیں۔ اسی طرح عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے منصوبے پر جب عراق پر جنگ مسلط کی گئی تو طے شدہ منصوبے کے مطابق عراق کو تین حصوں میں تبدیل کردیا گیا ، ایک سنی مسلمان ، دوسرے شیعہ اور تیسرے کرد۔ امریکہ ، برطانیہ نام نہاد تعلیم فروغ کے نام پر ملالہ یوسف زئی کی شکل میں ایک ایسے پروگرام پر عمل پیرا ہے جس میں اسلام کے تشخص کو طالبان کے نام پر مسخ کیا جاسکے۔اگر عراق میں امریکی جارحیت کے ایک مختصر جائزے میں دیکھا جائے تو عراق نامور مسلم خواتین شخصیات جس میں بغداد یونیورسٹی ، فزکس ڈیپارٹمنٹ کی حفیہ الوان ہلالی کو ستمبر2003، ماہا عدیل قادر ، بغداد یونیورسٹی ، کالج آف ہومنیسٹ،محترمہ محمدجسیم السیدی ، بغداد یونیورسٹی کالج آف ایڈمنسٹریشن ،سائرہ محمد مشہدنی ، یونیورسٹی ( مارچ 2006ء) ، امل ممالیجی المنصور یونیورسٹی آئی ٹی پروفیسر(جولائی2008ء) , لئیا عبدالسعاد ، موصل یونیورسٹی ، ڈین لا کالج،(جون2004) کفیہ حسین صالح یونیورسٹی آف بصرہ کالج آف ایجوکیشن( 28مئی 2004ء )زنیبیہ عبدیل حسین یونیورسٹی آف بصرہ ، کالج آف وٹینرری میڈیسن(19جولائی 2006) محترمہ لیز مچان ،ڈیلیا یونیرسٹی میڈیشن کالج،(19اپریل 2006)،خولیہ محمد تقی زاوان، کفیہ یونیورسٹی ، کالج آف لا ۔(12مئی2006) صالح النصراوی خفیہ یونیورسٹی کالج آف لا ء (22اگست2007)نافیہ معود خلفہ، بغداد یونیورسٹی عربیک ڈیپارٹمنٹ، ریب فلع ، ٹیکنالوجی یونیورسٹی العلم الغوراری ، سعاد العابدی ، یویورسٹی آف موسل فزکس ڈیپارٹمنٹ ، ایمرہ الربائی، نجات شعالع ، موستنصریہ یونیورسٹی سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ (1اکتوبر2006)۔یہ تصدیق شدہ دستاویز نو مارچ 2011کو بیلجئم میں منعقد انٹرینشنل سمینار آف عراقی اکیڈمی ، جینٹ یونیورسٹی میں پیش کیا گیا۔اب کیا اقوام متحدہ میں بہترین مقرر یہ بتا سکتا ہے کہ عراق کی جنگی جنونی جنگ میں ان نابغہ روزگار شخصیات کا نعم البدل کون پیدا کر سکے گا ۔ تعلیم کیلئے ایک ایسی لڑکی کو استعمال کرکے اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش میں بھلا ذی شعور انسان کس طرح داد و تحسین دے سکتا ہے۔ملا لہ یوسف زئی تک ان عراقی بچیوں کی داستان کبھی نہیں پہنچے گی اور نہ ہی لندن جا کر ملاقات کرکے گورڈن براؤن کے تعریف میں قلابے مارنے والے پاکستانی صحافی ، تجزیہ نگار اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ اصل نقصان طالبان ، دے رہے ہیں کہ جنگی جنونی امریکہ برطانیہ اور اس کے اتحادی پٹھو دے رہے ہیں؟۔مضمون کی طوالت کے پیش نظر اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف یہ بتانے کی کوشش ہے کہ خدارا بھیٹر چال پر اپنی رائے مسلط کرنے کے بجائے ہمیں غور و فکر سے بھی کام لینا چاہیے۔ پاکستان میں اسکولوں کو کون نقصان پہنچا رہا ہے اور کس طرح اسلامی نظام تعلیم کو مغرب نے اپنے زیر اثر کرکے مسلمانوں کو دوہرے نظام تعلیم کے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے تو اس عمل کاسب سے بڑا ذمے دار طالبان سے کہیں زیادہ برطانیہ ، امریکہ ، ان کے اتحادی اورہمارے سیاست دان ہیں جو امریکہ اور برطانیہ کے غلامان ہیں۔۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744534 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.