مالی نے کہا بھائی لگتا ہے بادشاہ نے توبہ کرلی ہے۔

ایک بادشاہ سیر وشکار کیلئے اپنے وزراء اور مقربینِ دربار کے ہمراہ جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔ دوران شکار بادشاہ کو ایک ہرن نظر آیا جس کے پیچھے گھوڑا دوڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے دور نکل گیا۔ اسے پیاس لگی اور وہ ایک اناروں کے باغ میں چلاگیا۔ وہاں اُس نے باغبان سے پانی مانگا۔ باغبان ایک انار توڑ لایا اور اُسے نچوڑ کر مسافر کو پیش کیا۔ بادشاہ چونکہ ایک شکاری کے لباس میں تھا تو باغبان اُسے پہچان نہ سکا کہ یہ کون ہے۔ بادشا نے شربت پیا تو بہت شیریں اور لذیز تھا۔ اُس کے دل میں خیال آیا کہ اتنا اچھا باغ ایک عام آدمی کی ملکیت میں کیوں ہے لہٰذا جب واپس دارالحکومت جاﺅنگا تو اسے شاہی ملکیت میں لے لونگا۔

تھوڑی دیر گزری تو بادشاہ نے ایک اور گلاس شربت مانگا۔ باغبان انار توڑ لایا اُسے نچوڑا تو اُس کا رس آدھا نکلا اور مزہ بھی ترش تھا۔ بادشاہ نے کہا میاں پہلے والے پیڑ سے انار توڑ کر لاﺅ۔ وہ بہت مزیدار تھا۔ باغبان نے کہا اے مسافر یہ انار پہلے والے پیڑ سے ہی توڑ کر لایا ہوں۔ لگتا ہے ہمارے بادشاہ کی نیت میں فرق آگیا ہے۔ اور وہ رعایا پروری اور عدل گستری کی بجائے رعایا کا مال چھیننے اور اُن پر ظلم کرنے لگا ہے۔

بادشاہ نے پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوگیا کہ بادشاہ کی نیت میں فتور آیا ہے۔ وہ رعایا کے مال کو چھیننا چاہتا ہے۔ تو اُس نے جواب دیا کہ بادشاہ پورے ملک کا بادشاہ ہوتا ہے جب بادشاہ عدل وانصاف پرور ہوتا رعایا کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتا ہے تو اللہ پاک ہر چیز میں خیروبرکت ڈال دیتا ہے۔ رعایا خوشحال اور ملک میں امن وچین ہوتا ہے۔ جب بادشاہ کی نیت خراب ہوتی ہے اور وہ رعایا کو غلام اور اُن کے مال کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے تو برکت اُٹھ جاتی ہے۔ اور ہرطرف افراتفری اور لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔ بادشاہ عادل ہو تو بھیڑیا اور بکریاں ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں اور دونوں پرسکون اور مطمئن ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کا بادشاہ بھی عادل اور رعایا پرور تھا ہر چیز میں برکت تھی۔ اب شاید اُس نے بھی اپنی روش بدل لی ہے۔

بادشاہ جو ایک شکاری کے بھیس میں تھا اُس نے فوراً دل میں نیت بدل لی اور توبہ کرلی۔

بادشاہ نے باغبان سے کہا کہ بھائی ہم چلتے ہیں۔ مہربانی کرکے ایک گلاس شربت اور پلادو۔ باغبان انار توڑ لایا اب جو نچوڑا تو ایک انار سے پھر گلاس بھر گیا اور پہلے کی طرح شریں اور مزیدار تھا۔ بادشاہ نے کہا اے باغبان اب پھر کیوں انار اتنا رس بھرا اور مزیدار ہوگیا۔ تو مالی نے کہا بھائی لگتا ہے بادشاہ نے توبہ کرلی ہے۔

یہ واقعہ اُس زمانے کا ہے جب انسانیت اور آدمیت ترقی اور کمال کی انتہاء پر تھی البتہ انسان زیادہ پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ نہ تھے کیونکہ اُس زمانے میں نہ ریڈیو تھا نہ ٹیلی ویژن نہ اخبار تھے نہ ٹیلی فون نہ بینک تھے نہ سود حلال تھا۔ اُس دور میں جنگل کا بادشاہ شیر ہوتا تھا اور انسانوں کا بادشاہ انسان۔ جنگل کا بادشاہ جب شکار کرتا تو بچا کھچا شکار کمزور جانوروں کے لئے چھوڑ دیتا تھا اُسے گوشت جمع کرنے اور اُسے فریز کرنے کا خیال نہیں آتا تھا۔

مگر میرے پیارے پاکستانی بھائیو اب نہ صرف تمہارے حاکم ظالم اور رعایا خور ہیں بلکہ تم بھی ان کے ساتھ ہر ظلم وناانصافی میں برابر کے شریک ہو۔ تم یہ سوچتے ہو کہ جب ان کا پیٹ بھر جائے گا تو ہمیں بھی بچا کھچا کھانے کو مل جائے گا۔ حالانکہ اب جمع کرنے کے لئے نہ صرف بینک ہیں بلکہ فارن اکاﺅنٹس بھی اور بادشاہوں کو زوال کے بعد جیل اور جنگلوں پہاڑوں کے غاروں کی بجائے بڑے ملکوں کے اعلیٰ نسل کے ہوٹلوں میں پناہ مکلتی ہے۔

بھوکے تم مروگے۔ پہاڑوں کے غاروں اور جنگل بیابانوں میں تمہارے بچے مارے مارے پھریں گے۔ اُن کی اولادیں دنیا کی اعلیٰ درسگاہوں میں تعلیم کے ساتھ عیش بھی کررہی ہوگی۔ ان شیروں کے شکار میں شریک ہونے سے پرہیز کرو اور اپنے جیسے کمزور دل کا شکار کرنے میں اُن کے معاون ومددگار نہ بنو۔ کیونکہ جب بادشاہ کی نیت میں فتور آتا ہے تو چیزوں میں بے برکتی آتی ہے، بھوک ننگ کا ہر طرف راج ہوتا ہے، جب بادشاہ اور رعایا دونوں بدنیت اور بدطینت ہوں تو پھر ملک سیلاب، زلزلے اور آتش فشاں پہاڑوں میں تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں۔

Najamuddin Ghanghro
About the Author: Najamuddin Ghanghro Read More Articles by Najamuddin Ghanghro: 583 Articles with 733530 views I m now Alhamdulillah retired from Govt. Service after serving about 39 ys. Passing ,Alhamdulillah a tense less life. MAY ALLAH CONTINUE IT.AAMEEN

.. View More