آج تک آپ دنیا کے بلند ترین٬ گرم ترین٬ سرد ترین یا پھر
دوسری منفرد خصوصیات کے حامل مقامات کے بارے میں پڑھتے یا سنتے آئے ہیں٬
لیکن آج ہم کو آپ کو بتائیں گے دنیا کے گیلے ترین مقام کے بارے میں-
ہندوستان کے دور دراز گاؤں موسن رام کا نام دنیا بھر میں سب سے زیادہ
بارشوں والے علاقے کی حیثیت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کر لیا گیا ہے-
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے مکین اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔
بےخبری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ گاؤں کی مکین بینی کائتر کی سو سالہ
پر دادی نے اے ایف پی سے گفتگو کے دوران حیران کن انداز میں دریافت کیا
‘واقعی، کیا یہ دنیا کی گیلی ترین جگہ ہے؟، میں نہیں جانتی۔
|
|
ہندوستانی ریاست میگھالیا کا یہ گاؤں کسی اور ہی دنیا کا منظر پیش کرتا ہے
جہاں لوگ گھن گرج کے ساتھ ہونے والی بارش کے دوران اپنے گھروں کو گھاس پھوس
سے ڈھانک کر اس کی خوفناک آواز سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں- اس علاقے کا رخ
کرنے والا ایک عام آدمی اس وقت حیرت زدہ رہ جاتا ہے جب وہ زنگ آلود سائن
بورڈ پر’دنیا کی گیلی ترین جگہ’ کی تحریر پڑھتا ہے۔
ریاست میگھالایا کے موسن رام نامی اس گاؤں میں سالانہ اوسطاً 11 ہزار 873
ملی میٹر یا 467 انچ بارش ہوتی ہے جس کے باعث دنیا بھر میں سب سے زیادہ
بارش والے علاقے کے طور پر اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کر
لیا گیا۔
ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ موسن رام بنگلہ دیش اور خلیج بنگال سے قریب
واقع ہے جس کے باعث یہاں شدید بارشیں ہوتی ہیں۔
ہندوستانی محکمہ موسمیات کے سنیت دت نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہوتا یہ ہے
کہ جب کبھی بھی خلیج بنگال میں نمی جمع ہوتی ہے تو اس کے باعث موسن رام پر
قطرے جمع ہو جاتے ہیں جس کے باعث ایک لمبے عرصے تک شدید بارشوں اور مون سون
کا موسم رہتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ملکی دارالحکومت میں شدید بارش کے باعث سڑکیں جا بجا ندی نالوں
کا منظر پیش کر رہی تھیں اور ایئرپورٹ پر بھی سیلاب کا سا منظر تھا لیکن
موسن رام کے لوگوں کیلیے یہ چیزیں معمولی مسائل ہیں۔
اب سے قریباً 30 سال پہلے یہاں نہ ہی ہموار سڑکیں تھیں، نہ بجلی اور نہ ہی
فراہمی آب کا نظام اور اس دوران چھ مہینے تک جاری رہنے والے مون سون سیزن
کے باعث یہاں کے رہائشیوں کو شدید مشکلات اور اذیت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
|
|
اس علاقے میں اکثر تودے گرنے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے
اس جگہ کو دیگر علاقوں سے ملانے والا واحد راستہ بھی بند ہو جاتا ہے، بارش
کا پانی اکثر مٹی کے بنے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے جبکہ علاقے میں جن
گھروں میں بجلی کی سہولت موجود ہے وہاں بھی اس کا منقطع ہونا روز کا معمول
ہے۔
ہر موسم سرما میں موسن رام کے مکین آنے والے بارش کے موسم کی تیاریاں کرتے
ہیں جہاں کبھی کبھی متواتر بارشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور کئی دنوں تک
سورج کی شکل تک دیکھنے کو نہیں ملتی۔
مئی سے جولائی تک جاری رہنے والے بارش کے شدید ترین موسم میں گھروں سے نکل
کر مشکل سفر سے بچنے کیلیے یہ لوگ پہلے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں اور موسم
سرما کے دوران اپنے گھروں میں روشنی اور ایندھن کا انتظام کرنے کی غرض سے
لکڑیاں کاٹ کر محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ بازار سے اناج خرید کر ذخیرہ بھی کر
لیتے ہیں۔
خواتین بارش سے بچاؤ کیلیے بانس کے ٹکڑوں، پلاسٹک اور گھاس پھوس سے کچھوے
کے خول کی مانند ‘نپس’ نامی ایک رین کور بناتی ہیں جو سر سے لے کر گھٹنے تک
ان کو بارش کے پانی سے محفوظ رکھتا ہے۔
مہینوں تک بارشیں ہونے کے باعث خواتین گھر میں ہی قیام پر مجبور ہوتی ہیں
اور اس دوران ان کا زیادہ وقت رین کور کی تیاری میں صرف ہوتا ہے جسے عام
عام طور پر بنانے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
ہندوستان میں بانس کے ٹکڑوں اور گھاس پھوس سے جھاڑو بنائی جاتی ہے، اس
علاقے میں گھاس پھوس اور تنکوں کو پانی میں ڈبویا جاتا ہے اور لکڑی کے
بھاری ٹکڑوں کی مدد سے سیدھا کرنے کے بعد چھتوں پر سکھایا جاتا ہے۔
|
|
گاؤں کی ایک عمر رسیدہ خاتون پریلین پدھا کا کہنا ہے کہ اس عمل سے گھاس
مضبوط ہوتی ہے اور بارش کی شدت سہہ لیتی ہے، ستر سالہ پدھا کا موسم سرما
اور مون سون میں تمام تر وقت گھاس پھوس کی باسکٹ، جھاڑو اور رین کور بنانے
میں گزرتا ہے جسے مقامی تاجر خریدے کے بعد ریاست بھر میں بیچتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے تیز بارش پسند نہیں ہے کیونکہ سارا دن گھر میں
بیٹھے رہنا بہت بورنگ ہوتا ہے۔
حالانکہ اس خطے میں بہت کم لوگ ریکارڈز کو اہمیت دیتے ہیں اور اکثر کو تو
اپنی مصروفیات کے باعث اس بارے میں علم تک نہیں ہوتا لیکن گنیز بک کا ورلڈ
ریکارڈ کے حوالے سے بیان ایک تنازع بن گیا ہے جہاں مقامی علاقے چیرن پنجی
کا دعویٰ ہے کہ سب سے زیادہ بارش ان کے علاقے میں ہوتی ہے۔
اس علاقے میں گھاس سے بھری چھت لگانے کا مقصد بارش کی تیز آواز سے بچنا ہے
لیکن تیز بارش کے نتیجے میں یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہیں ہوتی۔
سرسٹھ سالہ بارا یانگ کہتے ہیں کہ بارشوں کے دنوں میں ایک دوسرے سے گفتگو
کیلیے ہمیں تیز آواز میں بات کرنی پڑتی ہے۔ |