اگر کوئی شخص بجلی کی ترسیل و
تقسیم میں مداخلت یا چھیڑچھاڑ کر گا تو اسے تین سال قید یا ایک کروڑ جرمانہ
یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام میں چھیڑ چھاڑ
اور مداخلت کرنے پر دو سال قید یا تیس لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی
ہیں۔ گھریلو میٹر کی ٹمپرنگ پر ایک سال قید یا دس لاکھ جرمانہ یا دونوں
سزائیں دی جائیں گی۔ صنعتی و کمرشل میٹر کی ٹمپرنگ پر تین سال قید یا ساٹھ
لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں اور زرعی میٹر کی ٹمپرنگ پر دوسال قید یا پچیس
لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں روبہ عمل میں لائی جائیں گی۔ یہ مسودہ مشترکہ
مفادات کی کونسل نے پیش کیااور جسے منظوری کے بعد نافد العمل کیا جائے
گا۔اسی طرح میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ سب سے پہلی
ترجیح بجلی چوری کو روکنا ہے اور اس کا مرتکب افراد کو کیفرکردار تک
پہنچانا ہے یہاں پر تمام بڑے بڑے عہدوں پر کرپٹ موجود ہیں جنہوں نے اس نظام
کو فیل کرنے کی ٹھان لی ہے ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ بجلی و
توانائی کے بحران کی وجہ سے مسائل اتنے گھمبیر ہوچکے ہیں کہ انہیں سمجھتے
سمجھتے ہی دن آگئے ہیں۔ پہلے تمام ایشوز کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ قوم سے خطاب
کرنا چاہتاہوں۔لیکن کہنے کو کچھ نہیں۔ کہنے کو کچھ تو ہوناچاہئے۔ مزید یہ
کہ بجلی کی طرح گیس چوری بھی منہ پھاڑے معیشت و انڈسٹری کو نگلنے کیلئے
تیار کھڑی ہے۔ کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا ہے۔ اقتصادیات اپنی آخری سانسیں
لے رہی ہے۔ ملک میں افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت ہے
لو جی! ملک پاکستان کے لوگو!اپنی گردنیں تیار کرلو۔ شکنجے کسے جارہے ہیں
کیونکہ جیبیں تو پہلے ہی خالی ہوچکی ہیں۔ دینے دلانے کو کچھ بچا ہی نہیں۔
لے دے کے گردن ہی بچی ہے وہ بھی ’’حکم حاکم‘‘پر پیش کرنے کو تیار کرلو
کیونکہ جب وزیر اعظم پاکستان نواز شریف خود فرمارہے ہیں کہ واپڈا میں تمام
بڑے بڑے عہدوں پرکرپٹ افسران اور بیوروکریسی چھائی ہوئی ہے تو معلو م ہونے
کے باوجود اور جانتے بوجھتے ہوئے ان کے خلاف ایکشن نہیں لیاجارہاہے صر ف
نشاندہی پر ہی اکتفا کیا جارہاہے۔ اور چونکہ فرمان قائد ہے اس پر عمل کرنا
بھی ضروری ہے تو پھر یقینا شامت اعمال تو غریبوں کی ہی آنی ہے۔ بے رحم
تلوار گردن غریب پر ہی چلنی ہے۔ اس لئے نظر جلاد میں بھی حلقوم غربا ہے۔وجہ
صاف ظاہر ہے کہ بجلی و گیس چوروں کے ساتھ ملے ہوئے عملے (اندر کے لوگ) اپنی
روزی کا سلسلہ تو بند کرنے سے رہے اس لئے بجلی چور تو مستثنی ہوگئے اور یہ
بجلی و گیس چور وہ ہیں جو یقینا ہزاروں سے لیکر کروڑوں روپے کی بجلی و گیس
چوری کررہے ہیں۔ محکمہ کا عملہ ان کا اس قدر فرمانبردار اور زیر بار ہے کہ
وہ میٹرز اور کنکشنز تو ان کو دکھائی ہی نہیں پڑتے جہاں سے ہذا من فضل ربی
کا نزول ہوتا ہے۔ لہذا رہ گئی غریب عوام کہ جن کے بل ہی سو ڈیڑھ سو روپے کے
آتے ہیں اب ان پر لاکھوں اور کروڑوں کے جرمانے لگیں گے کیونکہ آخر تنخواہ
بھی تو ’’حلال ‘‘کرنی ہے اس لئے ماضی کی طرح سارا ملبہ ایک بلب والے صارف
کسی مسجد کسی جھونپڑی پر گرے گا اور بڑی مضحکہ خیز صورت حال سامنے آئیگی۔
میاں صاحب! بجلی و گیس چوری جس طرح سے آپ کم کرنا روکنا یا پکڑنا چاہتے ہیں
تو اس طرح بالکل بھی نہیں ہوتی۔ میٹنگز ہوتی رہی گی کمیٹیاں بنتی رہیں گی
اور معاملہ جوں کا توں یعنی لاینحل رہے گا بلکہ گھمبیر ہوتا جائیگا۔میاں
صاحب ابھی تک آپ’’ سمجھ ہی نہیں سکے‘‘ کہ حالات کیا ہیں کہاں پر گڑبڑ ہے
اسے کیسے دور کیا جاسکتا ہے تو خاک ہوجائیں گے ان کو خبر ہونے تک کے مصداق
ہی معاملہ رہے گااور یہ معاملہ کاغذات کی حدتک یااخبارات و چینلز کی زینت
بنانا مقصود ہے تو ’’لگے رہو منا بھائی‘‘۔ اور اگر واقعی اس حل کرنا ہے تو
سب سے پہلے کرپٹ عملے کو سدھارنا بلکہ سدھانا ہوگا۔ اس سلسلے میں پہلے بھی
ایک کالم نذر قارئین کرچکا ہوں کہ اگر صرف اور صرف عملے کے لوگوں کے
میٹرزکو چیک کرلیاجائے تو تیس فیصد بجلی بچائی جاسکتی ہے اور یقینا بڑھائی
بھی جاسکتی ہے یہ بھی صرف چھوٹے ملازمین کی بات ہورہی ہے کہ جن کے میٹرزاول
تو بند ہوتے ہیں اور اگر بالفرض محال چل رہے ہوں تو ان کی ریڈنگ ہی نہیں
ہوتی فرضی یونٹس ڈال کر سو سے دو سو روپے کا بل بھیج دیا جاتا ہے حالانکہ
انہوں نے اپنے میٹرز سے پورے محلے کو’’مستفید‘‘کیا ہوتا ہے ۔ فی گھر 1000
سے 2000 روپے وصول کرلیاجاتا ہے اور پھر ہیٹر چولہا، استری ، اے سی ، فریج
اور سردیوں میں کمروں کو گرم کرنے کیلئے بجلی کے ہیٹرز کا بلا دریغ استعمال
ملک و قوم کو تکلیف دینے کا سامان پیدا کیا جاتا ہے۔ بعینہ صورت گیس چوروں
اور محکمہ کے لوگوں کی ہے کہ محکمہ سے ’’وفاداری کا ثبوت‘‘دیتے ہوئے انہوں
نے بہت سے ایسے کنکشنز چالو کر رکھے ہیں کہ جن کا کوئی ریکارڈموجود نہیں۔
بازار سے کٹ (kit) خرید کر گڑھا لگاکر سروس(کنکشن)چالو کردیا جاتا ہے اور
پندرہ سے بیس ہزار روپے اینٹھ لئے جاتے ہیں۔ اب میٹر لگنے کا بھی انتظار
نہیں کیاجاتا اور ’’محکمے کی اجازت‘‘سے ڈائریکٹ لگا کر مزے لوٹے جارہے ہیں۔
کوئی پوچھنے والہ نہیں کیونکہ پوچھنے والا تو خود ’’ منہ کھائے اور آنکھ
شرمائے‘‘ کے فارمولے کے تحت چین کی بانسری بجا رہا ہے ۔
میاں صاحب جب بلی کو دودھ کی رکھوالی پر مامور کردیا جائے اور پھر یہ توقع
رکھی جائے کو دودھ پورا ملے گا تو سوائے بیوقوفی کے اور کچھ نہیں۔ اس صورت
میں کف افسوس ملنا از خودافسوس ناک ہے۔ اسی لئے جناب وزیر اعظم !سب سے پہلے
کرپٹ افسران، کرپٹ اہلکاران، کرپٹ مافیا اور ٹاؤٹ مافیا کو لگام نہیں ڈالی
جائے گی ۔ یہ شتر بے مہار جب تک نکیل میں نہیں آئیں گے اس وقت تک آپ صرف
’’سمجھتے سمجھتے ‘‘ ہی گورنمنٹ اور عوام کو بھینٹ چڑھادینگے۔ اور معیشت ،صنعت،تجارت،
کاروبار و دیگر شعبے اسی طرح تنزلی کا شکاررہ کر اپنی موت آپ مرجائیں
گے(خدانخواستہ)لہذا زیادہ سوچئے بھی مت اور تدبر و فہم سے کام لیکر اس چھید
رسیدہ ڈوبتی کشتی کو ساحل پر لانے کی کوشش کیجئے۔ |