یہ ملک جسے ہم نے دو قومی نظریہ
کی آڑ میں حاصل کیا۔برصغیر پاک وہند میں جب انگریز اور ہندو ہم پر غالب
تھے،تواس وقت مسلمان ہر طرح سے دبوچے جاچکے تھے دشمنوں نے ان کا جینا محال
کررکھا تھا معاشرے میں ان مسلمانوں کو جنہوں نے ہمیشہ حکمران بن کر زندگی
بسر کی تھی اب وہ اپنا اصل مقام کھو چکے اور غلاموں کی طرح مشکلات سے دو
چار تھے اس وقت ہمیں خدا نے فرشتوں کی اچھی سیرت کے مالک رہنماؤں سے نوازا
جو کہ بے لوث خدمت گار اورباکردارشخصیت کے مالک تھے ان رہنماؤں میں سرسید
احمد خانؒ ٗعلامہ اقبالؒ ٗاورقائداعظم محمدعلی جناح ؒسب سے آگے تھے ان
رہنماؤں نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی اور
پیوندکاری کی اور مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی
بنیاد ڈالی۔ان رہنماؤں کی بدولت آخرکار مسلمانوں نے زمین کا ایک ٹکڑا تو
حاصل کرلیا مگر غلامی کی زندگی تو ہم بھی بسر کررہے ہیں، اقبال اپنے دور کی
بزرگ نسل سے بہت مایوس تھے یہ نسل ایک جانب تو مغربی تہذیب کی اندھی تقلید
اور دوسری جانب مذہبی تقلید اور فرقہ واریت کا شکار ہوکرجمود کاشکار ہوچکی
تھی اور اپنے آپ میں تبدیلی لانے کے لیے تیار رہے ان حالات میں نوجوان ہی
ان کی واحد امید تھے اقبال خود کو حال کی بجائے مستقبل کا شاعر سمجھتے تھے
انہوں نے اپنی شاعری میں بوڑھے لوگوں کی بجائے نوجوانوں کو مخاطب کیا۔
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشمین قصر سلطانی کے گنبدپر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
پرواز وہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہین کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
اقبال اپنے ایک کلام میں رب سے یہ دعا کرتے ہیں میں’’ جو پر ان کہن سے
ناامید ہوں‘‘ آنے والے دور کی بات کہنا چاہتا ہوں جوانواں کے لیے میرا کلام
سمجھنا آسان کردیجئے۔ان کے لیے سخن کی گہرایاں آشکار کر دیئجے-
فلسفہ اقبال جغرافیائی دسعت ہے آج بھی یورپ میں اس بات کو تسلیم کیا جارہا
ہے کہ ہندو مندروں میں رکھے بتوں کی پوجا کرتے ہیں گائے، بندر، ہاتھی اور
سانپ جیسے جانوروں کی پوجا کرتے ہیں خوشی میں ناچتے اور غمی میں گاتے تھے
بلکہ ہندو ناچ گانے کو تو اپنا دھرم سمجھتے تھے ذات پات کی تفریق ہندو دھرم
کا خاصہ ہے جبکہ مسلمانوں کا خاصہ توحید ہے اور ہندود ھرم کے برعکس مسلمان
کے ہاں ناچ گانا ایسی شیطانی خرافات ہیں جو بنی نوع انسان کو بدمست کر تیں
اور بہکاتی ہیں تمام جانور چرند پرنداﷲ تبارک تعالیٰ کی مخلوق ہیں مسلمان
کے ہاں بڑائی کی بنیاد تقویٰ ہے ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے ایک الگ ملک کا
مطالبہ کیا تاکہ ہم اپنے ملک میں اسلام کا بول بالا کر سکیں انصاف عام
کرسکیں مگر مجھے لگتا ہے کہ ہمیں صرف ایک زمین کا ٹکڑا حاصل ہوا اور کچھ
نہیں کیونکہ غلام ہم پہلے بھی تھے اور آج بھی! ہمارا وطن عزیز جیسے ہم نے
بہت سی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہندواور انگریزوں اور سب باہر والے دشمنوں
سے مقابلہ کرکے حاصل کیا۔افسوس ہے کہ ہم نے باہر والے سب دشمنوں کا تو
سامنا کرلیا مگر اب ہمارے اپنوں نے ان کی جگہ لے لی ہے ہمارے حکمران جو کہ
روپ بدل بدل کر آتے ہیں عوام کو لوٹتے ہیں ان کو اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں
اور خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔
1947ء سے لے کر آج تک وہی چہرے وہی لوگ ہمارے اوپر مسلط ہورہے ہیں کبھی
نواز حکومت آجاتی ہے اورکبھی زرداری یہ سب وہ لوگ ہیں جن کو ہم بہت مرتبہ
پرکھ اور جان چکے ہیں اب ہمیں اپنے پیارے وطن کو ترقی کی طرف گامزن کرنا ہے
اور یہ ترقی ہمیں ان لوگوں سے حاصل نہیں ہوگی ہمیں ان سے امیدیں وابستہ
نہیں کرنی چاہئیں،آج ملک کو نوجوان قیادت کی اشدضرورت ہے، نوجوانوں اٹھو
جاگو اور خود میدان میں اترو یہ جو لوگ چہرے بدل بدل کر ہمارے پیارے وطن
عزیز کو لوٹ رہیں ہے ان کو ان کے انجام تک پہنچاؤ ہمارے قائد نے ہمیں یہ
وطن عزیز بہت قربانیوں کے بعد حاصل کرکے دیا تھا ہمیں اب اپنے اندر والے
دشمنوں کا نام ونشان ختم کرنا ہے ان کا دانہ پانی اور ڈیرے جو یہ جما کر
بیٹھے ہیں جڑ سے اکھاڑنے ہیں نوجوانوں اس دور کا سب سے مشکل کام اس دور میں
جینا ہی تو ہے اور جو انسان اس دور کے طور طریقے سیکھ گیا وہی کامیاب ٹھہرا
ٗہر دور انسان خود بناتا ہے کیونکہ دور وہی رہتا ہے بس انسان تبدیل ہوجاتے
ہیں پچھلے چند سالوں سے پاکستان کو پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے نہیں
دیکھا جارہا۔جس کی چند وجوہات ہیں جن میں کرپشن ناانصافی اور دہشت گردی
شامل ہیں آج اگر کوئی شہری غلط کام کرے توحکومت اس کے خلاف ایکشن لیتی ہے
لیکن اگرحکمران خود غلط کام کریں تو کوئی بھی ایکشن نہیں لیتا آخر ایسا
کیوں؟اور کب تک ہمیں ان سوالات کا جواب چاہئے جو کے ہمارے سوا اور کوئی
نہیں دے سکتا کیونکہ یہ ملک ہم سے ہے اگر ہم غلط ہوں گے تب ہی یہ ملک بھی
غلط ہوگا آج ہماری عوام گونگی اور اندھی ہونے کا ثبوت دے رہی ہے آج سب کچھ
دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں اور کان بند کیے ہوئے ہیں ہماری مثال اس دور میں
کئی منزلہ بحری جہاز جیسی ہے جس کے نیچے کی منزل والے لوگ جہاز میں سوراخ
کررہے ہوں اور اوپر والے چپ چاپ بیٹھ کر تماشا دیکھیں اور اس جہاز کے ڈوبنے
کا انتظار کریں۔کیا ہم ان سب کو روک نہیں سکتے؟کیا ہمیں جینے کا حق
نہیں؟خدا ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور ہماری عوام کو جلد از جلد خواب
غفلت سے بیداری عطا فرمائے۔آمین تاکہ ہم اس جہازکو صحیح سلامت اس طوفان سے
نکال کر لے جائے۔
حضرت اقبال نے بھی سچ کہا ہے کہ
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورے بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقریریں |