تکے باز اسلامی سکالر

سوشل میڈیا پر ایک جملہ گردش کر رہا ہے مسلمانو! تُکا لگاؤ۔۔۔ جب سنا تو ایک جملہ ِمہمل سمجھ کر نظر انداز کر دیا تاہم چند ہی لمحات میں اس کی بھرمار اور پھر پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ کے وائس پریذیڈنٹ اور خود ساختہ اسلامی سکالر عامر لیاقت کی زبانی یہ جملہ سن کر بہت تشویش ہوئی۔ ان صاحب کی پہچان بھی کچھ متنازعہ ہے کہ دین و سنت میں ان کا کوئی استاد نہ مرشد۔ ۔۔اور بے استاد ا اپنے اندر موجود جہالت اکثر خارج کرتا رہتا ہے، اس کی جہالت اس کے قول ، فعل، عمل اور شکل سے ٹپکتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب بنیادی طور پر اپنے ایک فکری بھائی جو کہ اپنی مخنثانہ حرکتوں سے معروف ہیں کہ نقش قدم پر چلتے ہوئے ادکاری ہی کرنا چاہتے تھے مگر کسی پروڈیوسر نہ ان کی پشت پر ہاتھ نہ رکھا، نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ بھی لگا رکھا تھا، جسمانی مریضوں کو لوٹنے میں کامیاب نہ ہوئے مذہبی طور پر کمزور ذہن کے مالک سادہ لوح لوگوں کا شکار کیا، کچھ برس قبل تک ان کا منہ بطرف لندن شریف ہوا کرتا تھا ۔ جوشِ خطابت لے ڈوبا اور ملعون سلمان رشدی کے خلاف کچھ سچ کہہ دیا، غالب گمان یہی ہے کہ یہ واہ واہ کے حصول کا ایک ذریعہ ہی تھا (میں گمان کے شرعی احکام کو سمجھ کر لکھ رہا ہوں، لہٰذا مفتیانِ کرام اپنا فتوٰی ضائع نہ کیجئیے)۔ اس پر ان کے آقا اور بڑے بھائی کی برق برسی اور ان کو ہر طرح کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے عاق کر دیا گیا۔ آج کا دن آتا ہے یہ صاحب خود کو عشاقِ رسول ﷺ کا ترجمان، تحفظِ ختم نبوت کا سپاہی، عزت رسول ﷺ پر وزارت کو قربان کرنے کا اعزاز اپنی جھولی میں بار بار خود ہی ڈال رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہی ہے کہ نائن زیرو کے کوچے سے بہت رسوا ہو کر نکلے تھے۔ اس قربانی کے بعد کئی ٹوپیاں بدلیں ، ایک موقع پر تو ان کے باطن میں چھپی مغلظات خوب ظاہر ہوئیں، عوام کی اکثریت اسے درست سمجھتی ہے کہ اگر جھوٹ ہی تھا تو تھوک کر کیوں چاٹ لیا؟؟؟ جس کی جبلت میں لالچ اور جھوٹ ہو وہ عزت کی پرواہ نہیں کیا کرتا۔ موصوف نے دوبارہ اسی گھر کا منہ دیکھا جہاں سے رات کے اندھیرے میں نکلے تھے۔

یہی وہ صاحب ہیں جنہوں نے رمضان کو بھی تجارت بنا دیا ہے۔ اب ان کے خربوزے کو دیکھتے ہوئے دیگر ککڑیوں نے بھی رنگ پکڑ لیا ہے اور ان کی پیدا کی ہوئی برائی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ کہاں وہ رمضان جس میں صرف اور صرف رحمان عزوجل اور اس کے سچے رسول ﷺ کے احکام کا پرچار ہوتا تھا، لوگ سحر ی میں تہجد ادا کرتے، تلاوتِ قرآن کا اہتما م ہوتا، افطاری میں پورا خاندان جمع ہوتا، توبہ و استغفار مقصود ہوتا، ادب واحترام پایا جاتا تھا، اب ان صاحب کے پھیلائی ہوئی وبا کی ہولناکیوں کی وجہ سے ماں باپ دستر خوان پر بیٹھ کر آوازیں دیتے ہیں مگر جوان بیٹیاں اپنے اس شیطان صفت بھائی کا پروگرام دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ اب سحر اور افطار میں قرآن کے نغموں کی بجائے مرد و زن کی مخلوط تالیاں ، نوجوان لڑکیوں کی لہلہاتی زلفیں، بن ٹھن کی بیٹھی خواتین، بھارتی موسیقی پر سرور، چند ٹکوں کے کھوٹے تحائف اور شور و غل کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب نظر آتا ہے۔ نوجوان خواتین کی کال سنتے وقت، اور لائیو شو میں ان کو تحائف دیتے ہوئے ہوئے موصوف کی حالت پانی سے زیادہ پتلی ہوتی ہے۔ عالِم او عالَم کا ڈرامہ رچانا بھی انہیں آتا ہے، کوئی میری یہ بات ان تک پہنچا دے کہ اگر آپ خود کو عالم سمجھتے ہیں تو جان لیجئیے آپ شریعت محمدی کے عالم نہیں کہ خلیفہ دوم امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اعلان فرما دیا تھا کہ مدینہ منورہ کی مارکیٹ میں تجارت کی اجازت صرف اسی کو ہو گی جو فقہہ اسلامی جانتا ہو گا۔ جو تجارت، کاروبار اور خدمات آپ سرانجام دے رہے ہیں یہ اسلامی نہیں البتہ امن کے تماشے کے طور پر آپ اپنے بھارتی آقاؤں کو خوب خوش کر رہے ہیں۔ آپ نے توہینِ رسالت کے نام پر وزارت قربان کی تھی تو توہین پاکستان کے نام پر گندگی کے اس ڈھیر سے اٹھ جائیے جس پر آپ جنت کا لیبل لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ویسے آپ کا جنت یا شریعت سے کوئی تعلق مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ آپ وہی صاحب ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے محترم و محتشم داماد سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ پر بھی اپنی زبان درازکر چکے ہیں، شاید اس لئیے کہ جب آپ کی خطابت جوش پر ہوتی ہے اس وقت آپ کا دماغ سننے والوں کے چہروں پر مرکوز ہوتا ہے اور پھر آپ کا نصب العین تو واہ واہ کا حصول ہے، اس وقت آپ کا دماغ ساتھ نہیں دے رہا ہوتا، ویسے اس گستاخی نے آپ کے سامنے بیٹھے آپ کے فکری دوستوں کو کافی خوش کیا تھا مگر جنت البقیع میں مدفون محسنِ اسلامِ کامل الحیا والایمان سیدنا عثمان ابنِ عفان رضی اللہ عنہ کو تکلیف ضرور پہنچائی بلکہ مکین ِ گنبدِ خضرا ﷺ کو بھی ناراض کیا، حتٰی کے میرا وجدان کہتا ہے آپ نے حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اذیت پہنچائی کے وہ وقت شہادت درِ عثمان پر پہرہ دار تھے۔ آپ کی اس گستاخی پر معافی آج تک منظرِ عام پر نہیں آئی، لہٰذا جس ملعون رشدی کو برا بھلا کہتے ہوئے آپ کی وزارت گئی اس میں اور آپ میں یہ قدر و صفت مشترک پائی جاتی ہے کہ رشدی نے گستاخیِ رسول کی اور آپ نے گستاخی ِصحابی رسول کی۔

آپ کے لئیے میرا ایک اصلاحی اور درمندانہ پیغام ہے کہ توبہ کا در کھلا ہے، جو بیماری آپ نے ہمارے معاشرے میں پھیلا دی ہے اب اس روکئیے کہ آپ کی وجہ سے اکثر ٹی وی چینلز رمضان اور اسلام کے نام پر تجارت کر رہے ہیں۔ مرد کو مرد ہی نظر آنا چاہئیے ، تیسری صفت انسان کو نہیں جچتی، گوٹے، مالا، کڑھائی، شیروانیاں اور رنگ برنگے عمامے اسلام کے ترجمان نہیں، آپ نے تو نعت کو بھی کاروبار بنا دیا ہے۔ آپ جیسے رنگ برنگوں کی تعلیمات اسلام کا چہری بگاڑ رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ درباروں، مزاروں اور آستانوں پر قوالیوں اور کلاموں پر ڈھول، دھمال اور رقص عام ہو رہا ہے، ملنگ اور ملنگنیاں آپ کے بتائے ہوئے دین کا خوب جنازہ نکالتے ہیں۔ اسلام غریبوں نے پھیلایا تھا، غریب میں ہی ہے، غریب ہی بچائیں گے۔ آپ جیسے سیون سٹار سکالر، وی آئی پی نعت خوان اور بائیسویں سکیل کے مقرر صرف آنکھوں کو ہی بھاتے ہیں، دل میں اترنے کے لئیے جنید و بصری، خواجہ و فرید، اجمیر و گولڑہ والوں کی راہ اختیار کرنی پڑے گی، وہ سنورتے نہیں تھے بلکہ سنوارتے تھے، وہ ظاہر نہیں باطن کے طبیب تھے، ان کی ایک نگاہ فقر لاکھوں کو پکا مؤمن کرتی تھی اور آپ مؤمنوں کا بچا کھچا ایمان بھی برباد کر رہے ہیں۔ پہلے اپنی شکل کو مؤمنانہ بنائیے تاکہ لوگ کم از کم آپ کے فیشن کی وجہ سے پیسہ برباد نہ کریں۔ اپنے قول اور فعل میں توازن قائم کیجئیے، جو کہتے ہیں پہلے اپنی ذات پر اس کا اطلاق کیجئیے۔

میں آپ کی ڈگری پر بات نہیں کروں گا کہ الفاظ کا ضیاع ہے، مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی تاہم گذشتہ روز کسی دل جلے نے کہا ہے کہ ڈگریاں اصلی ہیں بندہ دو نمبر ہے۔ میں ان کی آدھی بات سے اتفاق ہےکیونکہ آپ سو فیصد ہیں۔۔۔ ویسے معتوب بابر اعوان بھی آپ ہی کے ہم مکتب تو نہیں تھے؟؟؟ سپین کی جس یونیورسٹی سے انہوں نے ڈاکٹریٹ خریدی تھی وہ یونیورسٹی بھی گم ہو چکی ہے اور آپ کے ساتھ بھی کہیں یہی ہاتھ تو نہیں ہوا۔۔ ویسے آپ کو اپنے مغربی اور مشرک آقاؤں سے بھی کمال لگاؤ ہے کہ ایسی یونیورسٹی سے ڈگری لی جس کا نام ہی اسلام سے متصادم ہے ۔ خیر آپ کو ڈگری مطلوب تھی بے شک وہ مظفر گڑھ سے دستی لے لیتے یا بذریعہ ڈاک منگوا لیتے ، سپین کاہے کو گئے صاحب۔۔۔ٹماٹروں سے زرد کر دینے والی سرزمین پر۔

اب مزید تکے لگانا چھوڑئیے، کیونکہ اسلام تکوں پر نہیں چلتا، اسلام ایک حقیقت ہے، ایک نظام ہے، شریعت ہے، دستور ہے، منشور ہے اور یہ کام تکوں سے نہیں ہوتا، اس کی حدود و قیود ہیں۔ یہ کالم پڑھ کر تو ویسے بھی آپ کے تکے فیل ہو جائیں گے۔ ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے باز آجائیے ورنہ ہم فقیر آپ کی جان نہیں چھوڑیں گے۔ بوری تیار کرنا تو ہمیں نہیں آتا کہ یہ آپ کے سابقہ قبلہ میں ہوا کرتا ہے، ہم زبانی اور قلمی جہاد کریں گے اور بلاخوف کریں گے اور جب تک آپ کے سارے تکے فیل نہ ہو جائیں یہ جہاد جاری رہے گا۔ انشا اللہ

Email: [email protected]
https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi

Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 246433 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More