سوات کے بے گھر افراد اور انسانی حقوق کی صورتحال

میر ا ای میل باکس سوات وادی اور بے گھر افراد کی امداد کی اپیلوں اور وہاں پیش آنے والے واقعات اور تصاویر سے بھرا پڑا ہے۔ پاکستان کی وادی سوات فوج اور طالبان کے درمیان جاری شدہ جنگ نے علاقے کے لاکھوں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے۔ ان بے گھر افراد کی حالت بہت ابتر ہے۔ کھانے پینے اور دواؤں کی قلت ہے۔ سوات کے مہاجرین کی افسوس ناک حالت کا سوچ کر دل دہل جاتا ہے۔ بعض اوقات آدھی رات کو میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ میں ان مصیبت زدہ انسانوں کی کس طرح مدد کرسکتا ہوں۔“خوراک ختم ہو چکی ہے۔ انہیں بیماریوں نے گھیر رکھا ہے، لوگ پریشان ہیں اور اب ان کی اس مصیبت پر سیاست ہورہی ہے۔ متاثرہ علاقے کے لوگ چاہتے ہیں کہ کرفیو میں اتنی نرمی کی جائے کہ وہ وہاں سے نکل سکیں۔ مردان، کشمیر اور ہزارہ سے تعلق رکھنے والی طالبات بھی محصور ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق دیر سے گیارہ روزہ آپریشن کے دوران ایک لاکھ تیس ہزار لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان تنظیموں کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے مردان، چارسدہ، درگئی، چکدرہ میں ریلیف کیمپ قائم کئے گئے ہیں جب کہ ہزاروں لوگ رشتہ داروں کے ہاں ٹھیرے ہیں۔ اسی طرح بونیر سے نقل مکانی کر نے والوں کی تعداد بھی لاکھوں سے سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان لوگوں کے لیے مردان اور صوابی میں کیمپ قائم کئے گئے ہیں تاہم کئی خاندان آسمان تلے رات گزارتے ہیں۔ پاکستان کے داخلی مہاجر پچھلے سال اگست سے، بعد تک ۰۱ لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑ چکے ہیں اور اب یہ تعداد ۳۳ لاکھ ہوچکی ہے۔ اس قدر بڑی تعداد کے بے گھر ہونے کا مشاہدہ ایک ہولناک تجربہ ہے۔ صرف دس فیصد بے گھر افراد کو خیمے دستیاب ہیں، جبکہ کھلے آسمان تلے، سورج کی تپش میں لاکھوں افرادپناہ لئے ہوئے ہیں۔ متاثرین کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں پینے کے صاف پانی کی کم دستیابی سرفہرست ہے۔ پاکستان میں ہونے والی لڑائی کا اثر براہ راست افغانستان پر پڑ رہا ہے۔ مشترکہ سرحد کے دونوں اطراف پشتون آباد ہیں اور انہی سے طالبان نے جنم لیا تھا۔ امریکہ خوش ہے کہ افغانستان کی لڑائی اب پاکستان کی سرحدوں کے اندر در آئی ہے۔ دوسری جانب مرکزی حکومت نے متاثرین کے لیے پچاس کروڑ اسی لاکھ روپے کی گرانٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ صوبہ سرحد میں قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والے ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ متاثرین کے لیے گیارہ ریلیف کیمپ بنائے گئے ہیں۔ ادھر ریڈ کراس تنظیم کے مطابق مالاکنڈ میں شدید انسانی بحران پیدا ہو رہا ہے۔ ریلیف کمشنر جاوید امجد کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں مزید متاثرین رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بونیر اور دیر کے آپریشن کی وجہ مردان اور صوابی کیمپوں میں چار ہزار سے زیادہ خاندان رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔ مردان، صوابی میں کیمپوں سے باہر بھی تین ہزار سے زیادہ خاندان آئے ہیں۔ پہلے گیارہ کیمپوں میں جگہ نہیں ہے صرف جلوزئی میں ایک ہزار خاندانوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے فروری میں ہونے والے حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر شدید تنقید کی تھی اور ان کا مؤقف ہے کہ اس سے طالبان کو منظّم اور مضبوط ہونے کا موقع ملا ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی صدر آصف زرداری اور افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات میں القاعدہ اور طالبان کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ جس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ طالبان کو شکست دی جائے گی چاہے اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے۔ادھر انٹرنیشنل ریڈ کراس نے مالاکنڈ آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگی قوانین کی پاسداری کریں۔ طالبان کے ظلم اور ان کی کاروائیوں کے ویڈیو کلپ جو ای میل کئے جا رہے ہیں وہ ہولناک ہیں۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ افسوس ناک اور شرمناک ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ طالبان اور فوج کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں لاکھوں افراد مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ان بچوں اور عورتوں کا کیا قصور ہے جو اپنے ہی وطن میں بے گھر اور بے در ہوگئے ہیں۔ دیگر شہروں میں سیاسی لیڈروں کے ساتھ مخیر حضرات نے مہاجرت کا شکار ہونے والے لاکھوں افراد کی مالی امداد، اشیائے خوردو نوش اور اور دوسرے سامان کی فراہمی کے لئے کوششیں شروع کر رکھی ہیں مالاکنڈ آپریشن، پاکستانی ذرائع ابلاغ میں آپریشن کے بارے میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اخبارات کے اداریوں سے لے کر ٹی وی چینلوں کے اشتہارات تک جگہ جگہ ملٹری آپریشن کی حمایت جاری ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کےلئے لڑی جانے والی "میڈیا وار" میں کامیاب کون ہوگا۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس کا نقصان اس ملک اور اسی قوم کو اٹھانا ہوگا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387823 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More