عید کے دن قریب تھے ہر کوئی عید
کی تیاریوں میں مصروف تھا۔اکرم صاحب نے سلیم کو پیسے دیتے ہو ئے کہا لو
بیٹے اپنی مرضی سے اپنے لئے خوبصورت قیمتی کپڑے اور چپل خریدلو ۔اس سال ہم
عید بڑی دھوم دھام سے منائیں گے اور ہاں تفریحی اور صحت افزائی مقامات کی
سیر بھی کریں گے اس لئے قیمتی اور اعلیٰ کپڑے اور خوبصورت معیاری چپل
خریدنا تاکہ لوگ دیکھتے رہ جائیں۔سلیم بڑی خوشی سے بازار کی طرف چل پڑا وہ
اپنے آپ میں مگن ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھاتا،اپنے تصورات کی دنیا میںایک
بڑی دکان پر کھڑا دوکاندار سے کہہ رہا تھا، ڈیڈی نے بہت تاکید کی ہے مجھے
منفرد اور اعلیٰ قسم کے کپڑے دینا کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ مجھے کوئی معمولی
کپڑا دے دیں ۔ایسا کپڑا دیں جو بول پڑے کہ میں اعلیٰ ہوں۔ کپڑوںکی دکان سے
فارغ ہوکر چپل کی دکان پر کھڑادکاندار سے کہہ رہا تھا دیکھوں میاں !ایسے
جوتے دکھانا جو ڈیزائن کے ہوںاور مارکیٹ میں ابھی اور کسی دکان پر نہ
ہوں۔فاروق راستے میں کھڑا سلیم کو بازار جاتے دیکھتا رہاْلیکن وہ اپنے
تصورات میںاتنا مگن تھا کہ اس کی نظر فاروق پر پڑی نہیں۔ بالآخر فاروق نے
آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا ہاتھ کا لمس محسوس کر کے سلیم نے
پیچھے مڑ کر دیکھا تو بے اختیار بول اٹھا فاروق تم ؟ فاروق نے منہ بناتے ہو
ئے کہا یار تم نے توجہ نہیں دی میں نے سوچا کہ چلوں خود ہی تم سے مل لوں۔
میں نے تمہیں سرے سے دیکھا ہی نہیں اور تم شکوہ کر رہے ہو۔میں تصورات کی
دنیا گم تھاکپڑوں اور جوتوں کی خریداری میں گم تھا، فاروق تم کدھر گئے تھے
؟میرے خیال میں تم بھی عید کی خریداری کرنے بازار آئے ہو ۔ ہاں سلیم !لیکن
بازار پہنچ کر میں نے سب سے پہلے اخبار خریدا تمہیں یہ جان کر حیرت ہو گی
کہ جس لڑکے سے میں نے اخبار خریدا وہ ہمارا کلاس فلیو عامر تھا جو کہ
پڑھائی میں سب سے آگے تھا ۔اس نے بتایا کہ اسے کچھ معاشی مشکلا ت کی وجہ
سے پڑھائی چھوڑنا پڑی ہے یہ سن کر مجھے دکھ ہوا ۔سلیم نے فاروق سے کہا کہ
ہم اپنے دوست کے لئے کیا کرسکتے ہیں سوائے اس کہ اس کی کچھ حوصلہ افزائی کی
جائے ۔ فاروق نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اگر ہم عید کے جوڑوں اور جوتوں
کی رقم عامر کو دے دیں تو وہ باآسانی اپنی تعلیم جاری رکھ سکے گا جب یہ
بات سلیم اور فاروق کے والدین کو معلوم ہوئی تو انھوں نے کہا کاش! یہ بات
ہمیں معلوم ہوجاتی تو ہم بھی عامر کی کچھ مدد کر دیتے ان کے والدین نے عہد
کیا کہ عامر کی تعلیم کے اخراجات وہ خود اٹھائیں گے اس طرح تینوں دوست پھر
مل گئے۔ |