۲۹؍واں روزہ تھا جیسے جیسے سورج
غروب ہورہا تھا لوگوں کا اشتیاق بڑھ رہا تھا کہ آج ہی چاندرات ہے مغرب کی
اذان ہو ئی، لوگ افطار ی میں مشغول ہو گئے ،فرض نماز سے فارغ ہوکر ابھی سنت
ونفل میں مشغول تھے کہ شور بلند ہوا چاند نظر آگیا، کل عید ہو گی، ہر کسی
کے چہرے خوشی سے دمکنے لگے ،فجر کی اذان ہونے لگی، سفیان ہڑ بڑا کر اٹھ
کھڑا ہوا، آنکھیں ملتے ہوئے اس نے اپنی امی کو دیکھا جو مصلیٰ پر بیٹھی
تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ننھے سفیان نے اپنی امی سے کہا آج عید ہے مجھے نہلادو
اور نئے کپڑے پہنادو ۔سفیان کی امی نے الماری کھولی اور کرتا شلوار نکال
دیا۔ آنسو تھے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔سفیان کہنے لگا یہ تو پرانے
ہیں،مجھے نئے کپڑے چاہئے ،ضد کرنے لگا، ماں نے سفیان کو گلے لگا لیا اور
پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، یا اللہ !یہ کیسا امتحان لے رہا ہے ؟سفیان کوکیسے
سمجھائوں کہ اس کے ابّو کو اس دنیا سے گزرے آٹھ مہینے گزر گئے۔ عید کا
کپڑا تو دور کی بات ہے رمضان کا مہینہ جیسے تیسے گذرا ہے۔ وہ ہاتھ اٹھائے
پھر سے دعا میں مشغول ہو گئی ۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی سفیان کی ماں
آنسو پوچھتے ہو ئے دعا ختم کی اور دروازہ کھولا سامنے جمن چاچا کی بیوی
کھڑی ہو ئی تھی کیا بات ہے چاچی ،آئیے اندر آئیے ۔چاچی نے اندر آتے ہو
ئے کہا معاف کرنا بہن میں بچے کیلئے کپڑے لائی ہوں ۔پرسوں تمہارے چاچا اپنے
بچوں کے ساتھ سفیان کے لئے بھی کپڑے لائے تھے ،کام کی الجھن میں اول نہ
آسکی ،ہمارے بچے نئے کپڑے پہنے اور تمھارا بچہ پرانا کپڑا پہنے یہ کیسی
عید۔ ہم نے اپنافرض پورا کیا ہے کوئی احسان نہیں ۔چچی کپڑااور سامان وغیرہ
سفیان کودے کر رخصت ہوگئی ،سفیان کی امی پھر سجدے میں گرگئیں اے میرے
پروردگار! تیرا لاکھ لاکھ شکرہے تو نے ایک غریب بیوہ کی سن لی، تو بڑا رحیم
وکریم ہے ۔کچھ ہی دیر میںایک دستک اور سنائی دی، دروازہ کھولا تو ایک حضرت
روپیوں کی تھیلی تھما کر چل دئیے ۔ سفیان کی امی کی آنکھوں میں آنسو
آگئے ۔اکثر ایسا ہوتاہے کہ ہم نادار افراد کی مدد رمضان المبارک کے آخری
عشرے میں کرتے ہیں جب کہ وہ تقریباً بیس سے پچیس روزے نہایت ہی تنگ دستی
میں گزاردیتے ہیں ۔انھیں فکر رہتی ہے کہ ان کے اہل خانہ کے عید الفطر کے
نئے کپڑے اور دیگر اشیاء آئی یا نہیں،ان کے چھوٹے بچے دوسروں کا سن کر بار
بار عید کے کپڑے اور جوتوں وغیرہ کا تقاضا کرتے ہیں،اس وقت ان کے دلوںپر
کیا گزرتی ہو گی اسے الفاظ میںیہاں نہیں بیان کیا جاسکتا ہے۔ صاحب حیثیت
اور خوشحال گھرانوں سے ادارہ بہار سنّت کی نہایت ہی عاجزانہ درخواست ہے کہ
وہ اپنے عطیات جلد سے جلد مفلس ونادار گھرانوں تک پہنچادیں تاکہ وہ گھرانے
بھی عید کی تیاریاں کرسکیں ۔
نہ ایسا ہوکہ تمنا خوشی کی مرجائے
تمام دن کی طرح یہ بھی دن گزر جائے
ابھی غریب کے بچوں کے کپڑے باقی ہے
ہلال عید سے کہدو ذراٹھہر جائے |