از:مولانا محمداسلم رضا قادری ،راجستھان
یہ بات صحیح اوردرست ہے کہ رمضان المبارک خیروبرکت،رحمت ومغفرت،عفوومہربانی،
احسان وبھلائی ،محاسبۂ نفس،تزکیۂ قلوب ، صبروشکر،ہمدردی وغم خواری،اخوّت
وبھائی چارگی،صلہ رحمی وغرباء نوازی،عبادت وریاضت، کا مہینہ ہے لیکن جس ذوق
اورشوق کے ساتھ ہم ماہ صیام میں یہ سب امورومعاملات بحسن وخوبی انجام دیتے
ہیں کیا رمضان شریف جانے کے بعد بھی ہم اس پوزیشن میں نظرآتے ہیں ؟تو ہر
ذی شعورانسان میری اس بات کی تائیدوتصدیق کرے گا کہ ایسا ہرگز نہیں
ہوتا!آخروجہ کیا ہے ہمیں ان اسباب وعوامل پر غوروفکر کرنا ہے ۔کیا عبادت
وریاضت صرف رمضان ہی کے ساتھ خاص ہے؟اور کمزور لوگوں کے ساتھ ہماری یہ
ہمدردی وغم گساری صرف رمضان ہی میں کیوں؟کیا احسان وبھلائی کا یہ جذبہ ہمیں
صرف رمضان ہی میں نظر آتا ہے؟باقی مہینوں یااوردنوں میں ہماری یہ کوششیں
کیوں سرد پڑجاتی ہیں ؟ جس طرف نگاہ اٹھاکر دیکھئے ہرانسان حصول ِعبادت ،ذوقِ
تلاوت،اموال کی زکاۃ نکالنے میں کوشاں اورسرگرداں نظر آتا ہے ،ہرایک دل
خوف ِخدا ،حبِّ رسولِ مجتبیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سرشاردکھائی
دیتا ہے، جو شخص پہلے کمزوروں ،غریبوںاوریتیموں پر ظلم کرتا تھا اب وہ ان
کے سروں پر دستِ شفقت پھیر رہا ہے،ہمدردی کا اظہار کررہا ہے آخر یہ بدلاؤ
کیسے آگیا ؟سرکش اوربدکردارانسان اتنارحم دل، اورنرم مزاج کیسے ہوگیا؟کیا
اس پر کوئی دباؤاورفوکس ہے جس کی وجہ سے وہ اس قدر مہربان بن گیا؟نہیں
ہرگزنہیں !کیا یہ تبدیلیاں ہمیں رمضان آتے ہی ہمارے معاشرے میں نظرنہیں
آتیں؟اب بھی میری ان باتوںسے شاید ہی کوئی اختلاف کرسکے ۔ لیکن صرف ان
باتوں کی تائید وتردید کرنا ہی اس کاحل نہیں ہے بلکہ ہمیں خود اپنے
اندرجھانک کردیکھنا ہوگا اورجو بنیادی کمزوریاں ہمارے اندرراہ پا گئی ہیں
انہیں ختم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔رمضان رخصت ہوتے ہوتے ہمیں یہی پیغام
دیتا ہے کہ ائے غافل انسان!جس طرح تونے رمضان کے اندر اپنے شب وروزکو
ذکرالٰہی ، عبادت وتلاوت ،نمازوں کی پابندی سے آباد کیا تھا اب اس جذبہ
وشوق کو بھول مت جانا؟تیری زندگی کے ان کامیاب اوربامقصدایّام کو فراموش مت
کردینا۔یہ وہ حقائق وشواہد ہیں جن کا ظاہری طورپرہم سب کو بخوبی احساس ہے
لیکن صرف احساس کرلینے ہی سے کام بن جائے گا؟نہیں ۔
یوم عید:آج عیدکا مبارک دن ہے سب خوشیوں میں سرشارہیں،ایک دوسرے کو
مبارکبادیاں پیش کررہے ہیں ، مصافحہ(دونوں ہاتھوں سے)ومعانقہ کررہے ہیں ،رشتہ
داروں سے ملاقاتیں کی جارہی ہیں ،چھوٹے،بڑے سب خوش ہیں ،غیرمسلم طبقہ بھی
آج مسلمانوں کی اس عیدسعیدکو ملاحظہ کررہاہے ،اسے بھی معلوم ہے کہ اب
مسلمانوں کی عبادت وریاضت،روزہ والا مہینہ ختم ہو گیا،اب مسلمان پھر آزاد
ہوگیا ،جی ہاں!لیکن ہمیں ان مبارک ایّام کو بھولنا نہیں ہے ،عید کی خوشیاں
اپنی جگہ، ان سے کسے انکار ہے مگر اس کے بعد بھی ہمیں اپنی ذمہ داری کا
احساس کرنا ہے ،نماز،تلاوت،صدقہ وخیرات،احسان وبھلائی کا اپنے کردار وعمل
سے اظہارکرنا ہے۔
رحمت والی چارراتیں: حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے
کہ حضوررحمت عالم ﷺنے ارشادفرمایا:چار راتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر
بہت زیادہ رحمت نازل فرماتا ہے :رجب المرجب کی پہلی رات،شعبان المعظم کی
پندرہویں رات،عیدالفطرکی رات،اورعیدالاضحی کی رات‘‘(شعب الایمان:۳؍۳۴۲،باب
الصیام فی لیلۃ العید ویومھا)عیدکی رات میں ہمارے کیا معمولات ہوتے ہیں کیا
کسی سے پوشیدہ ہیں ،وہی کھیل کود،مزاق مستی،پوری پوری رات آوارہ گردی ۔کتنے
افسوس کی بات ہے رمضان کی ہماری عبادت کو دیکھ کر غیربھی متأثر ہوتے
تھے،لیکن عیدکی اس مبارک ومحترم رات میں ہماری ان حرکتوں سے ایک طبقہ نہایت
شاکی اور نالاں رہتا ہے،اب ہم رمضان کی ساری عبادت ،ریاضت بھو ل گئے ،اب
کیا ہے رمضان رخصت ہوگیا قیدوبندسے آزاد ہوگئے ،اب تو ہمیں کل عید منانی
ہے ،کیا اس طرح خوشیوں اورمستیوں میں مگن ہوجانے کا نام عیدہے یا پھر عید
کسی اور چیز کا نام ہے ،ذراغورکریں ،اپنے اسلاف کرام کی مقدّس تاریخ پڑ ھیں
تو آپ کو احساس ہوگا کہ وہ عیدکی رات اوردن کو کس قدرمبارک جانتے ،اس میں
اللہ کو یاد کرتے ،توبہ واستغفارکرتے ،حضوراقدس ﷺکا فرمان ہے:جس نے
عیدین(عیدالفطروعیدالاضحی)میں شب بیداری کی تواس کادل اس دن نہ مرے گا جس
دن لوگوں کے دل مرجائیں گے‘‘(ابن ماجہ:ابواب الصیام ،باب:فیمن قام لیلتی
العیدین) حضرت سیدنا وہب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں منقول ومروی ہے
کہ آپ عیدکے دن نکلے تو اپنے سر پر مٹی اورراکھ ڈال رہے ہیں لوگوں نے آپ
سے عرض کیا آج تو عیدکا دن ہے ،خوشی اورمسرّت کا دن ہے ۔توآپ نے
فرمایا:یہ اس شخص کے لئے سروروزینت اورخوشی کا دن ہے جس کے رمضان شریف کے
روزے مقبول ہوگئے‘‘(الروض الفائق فی المواعظ والرقائق ص:۲۴۵،اردو۔) عاجزی
وانکساری کا یہ انداز تھا ہمارے مقدّس اسلاف واکابر کا، جنہیں دیکھ کرلوگ
مسلمان ہوتے تھے،آج ہماری بدعملی اور بدکرداری سے لوگ متنفرہو رہے ہیں ۔
اس لیے ٔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم غیروں کے سامنے اچھے اخلاق وکردارکا
اظہار کریں تاکہ وہ اسلام کی اخلاقی خوبیاں سے متأثر ہو سکیں ،خداہم سب کو
عقل سلیم اورفکرآخرت کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
عیدکادن یوم محشرکی یاددلاتاہے: حضرت علاّمہ شیخ شعیب حریفش رضی اللہ تعالیٰ
عنہ لکھتے ہیں:عیدکادن یوم قیامت کے مشابہ ہے جس دن گرج دارکڑک اورصور
پھونکنے کی آواز سنائی دے گی ،یہ طبلوں کا بجنا گرج دار کڑک کی یاددلاتا
ہے اوربگل کا بجنا صورپھونکنے کی یا ددلاتا ہے ،عیدگاہ میں لوگوں کا یہ
اجتماع میدان محشر کی یاددلاتا ہے کہ مختلف رنگ ونسل کے ہوں گے اور ان کے
احوال بھی مختلف ہوں گے کچھ کے سفیدلباس،اورکچھ کے سیاہ،کچھ پیدل توکچھ
سوار،کچھ خوش توکچھ غم گین،کچھ جنتو ں کی نعمتوں کی طرف دوڑیں گے تو کسی کو
جہنم میں ڈالا جائے گا ‘‘جیساکہ حضوررحمت عالمﷺنے ارشادفرمایا:(قیامت کے
دن)لوگوں کو ان کی قبروں سے تین حصوں میں اٹھایاجاے ٔ گا ،ایک تہائی
سواریوں پر ،ایک تہائی پیدل ہوں گے ،اور ایک تہائی چہروں کے بل گھسیٹے
جائیں گے ‘‘(فردوس الاخبار،للدّیلمی :۲؍۵۰۱،باب الیائ،رقم الحدیث:۸۴۹۸۔)جس
طرح لوگ عیدگاہ میں امام کا انتظارکرتے ہیں اسی طرح روزقیامت کھلے میدان
میںٹھہرکرجزاوسزا کا انتظارہوگا،جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمارکھا ہے ۔اورخطبہ
اشارہ ہے کہ جب امام خطبہ دیتا ہے تو لوگ خاموش ہوجاتے ہیں اسی طرح اللہ
تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں سے حساب لے گا اورجزاوسزاسنائے گا جب ہم خاموش
ہوں گے ۔اورعیدگاہ میں لوگوں کے مختلف درجے قیامت میں لوگوں کے مختلف درجوں
کے مشابہ ہیں یعنی کچھ سائے میں توکچھ دھوپ میں ،اسی طرح کچھ بروزقیامت
پسینے میں شرابورہوں گے تو کچھ عرش ولواء الحمدکے سائے میں مزے لوٹ رہے ہوں
گے۔اسی طرح لوگوں کا عیدگاہ سے لوٹنا بھی قیامت کی یاد دلاتا ہے کہ بعض کی
عبادت قبول ہوجاتی ہے جب کی بعض کی مردود‘‘(الروض الفائق فی المواعظ
والرقائق ص:۲۴۵،اردو۔) رمضان کے اختتام پر آج ہم عید منا رہے ہیں لیکن آج
بھی ہمیں صدقۂ فطر اداکرکے غرباء پروری ،احسا ن وبھلائی کا ثبوت پیش کرنا
ہے،اورآئندہ رمضان کے انتظار میں بقیہ ایّام کو اللہ عزّوجلّ کی یادمیں
گزارنے کی کوشش کرنی ہے ،نماز،تلاوت،عبادت کے اسی ماحول سے اپنی زندگی کو
وابستہ رکھنا ہے ،مولیٰ تعالیٰ ہم سب کو زندگی میں باربار یہ مہینہ نصیب
فرمائے،محبت رسولﷺسے ہمارے سینوں کو شادوآبادرکھے،آمین۔اورہماری عبادات
وزکاۃ کو قبول فرماکر ہم سب کی مغفرت فرمائے،آمین۔ |