دراصل عیدالفطر ان یتیم بچو ں کے لئے ہے جن کے سر پر دست شفقت رکھنے والاکو
ئی نہیں ہوتا جنہیں کو ئی عیدی نہیں دیتا اور جو اچھا لباس پہننے کو ترس
جاتے ہیں مزہ تو جب ہے کہ ہم اپنی خوشیوں میں غریبوں کو شامل کریں یتیموں
کو شامل کریں یتیموں کے سروں پر دست شفقت رکھیں انہیں عیدی دیں انہیں اپنے
دسترخوان پر بٹھائیں اور ان کے غموں میں شریک ہوں مگر اب ایسا معلوم ہوتا
ہے کہ عیدالفطر کا حقیقی پیغام اور اس کے تقاضوں کو عملی طور پر سمجھنے کی
کوشش نہیں کی جاتی ہے مگر ہم اپنی خوشیوں میں اتنے مگن رہتے ہیں کہ عید کے
تقاضوں اور پیغامات کو قصداً کنارے لگاتے چلے جاتے ہیں یہ کتنا بڑا لمیہ ہے
کہ ہم عید کے دن انہیں لوگوں سے گلے ملتے ہیں جنہیں ہم جانتے پہچانتے ہیں
جو ہمارے اپنے ہوتے ہیں اور انہیں لوگوں کے لئے لذیذ اور مرغن غذائیں تیار
کی جاتی ہے جبکہ غریبوں اور بے کسوں سے گلے ملنے اور سلام کرنے میں کسر شان
سمجھتے ہیں ہمارے گھر کے دسترخوانوں تک ان کی رسائی نہیں ہو نے پاتی ۔ذرا
نظر اٹھا کر دیکھئے کہ سماج میں کتنے لوگ ہیں جو عیدالفطر کو عملی جامہ
پہنا کر خود بھی خوش ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کر
کے خوش ہوتے ہیں معلوم ہوتا ہے عید کا جسم ہے روح نکل چکی ہے ۔ہم تو مرغن
غذائوں سے شاد کام ہولیتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں سے خوب خوب فیضیاب ہوتے
ہیں مگر کتنے غریب ایسے ہیں کہ اس دن ان کے گھروں میں چولہے تک نہیں جلتے
انہیں سیوئیاں تک نصیب نہیں ہوتی ان کے بچوں کو عیدی دینے والا کوئی نہیں
ہوتا اوروہ نئے کپڑوں سے محروم رہتے ہیں ۔کیا عیدالفطر اسی کانام ہے ؟یادرکھئے
عیدالفطر کا حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب ہم غریبوں اور پریشان حالوں کو
بھی اپنی خوشی تقسیم کریں ان کے ساتھ مساوات کا سلوک کریں اور ان کے ساتھ
ہمدردی وتعاون کریں عیدالفطر کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ آپس کی شکایات
دلوں کے رنج وعداوتیں دور ہوجائیں روٹھے ہوئے لوگوں کو منایا جائیں مگر
ایسا نہیں ہو پاتا اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں کیونکہ ہمارے دلوں کو اخلاص کی
دولت نصیب نہیں ہم عید کے دن ملتے ہیں معانقہ ومصافحہ کرتے ہیں مگر کیا بات
ہے دل کے دامن سے کدورت کے داغ دھبے نکل نہیں پاتے دلوں پر کدورت کے داغ
دھبے نہیں دھل پاتے ۔عیدالفطر کے دن ہمارے علمائے کرام تقریباً ہر مسجد سے
یہ اعلان کرتے ہیں کہ عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو ورنہ روزے
آسمان وزمین کے بیچ معلق رہتے ہیں یہ اعلان سن کر بعض بے چارے جاہل اور
مفلس عوام جوکسی صورت میں بھی فطرہ ادا کرنے کے اہل نہیں وہ اپنے روزے قبول
نہ ہونے کا خدشے میں فطرہ دیتے ہیں ۔ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی بہتا ت
ہے کہ جن کی زبانیں ہمیشہ غریبوں کے ساتھ ہمدردی،جذبہ ترنم، تعاون، اظہار
یکجہتی اور مساوات جیسی باتوں سے تر رہتی ہیں ۔بدقسمتی سے عید کے دن بھی
ہمارے یہاں ریاکاری اور نمائش کی جانے لگی ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں ایسی
خوشیوں کی کوئی اہمیت نہیں جہاں غریبوں کا گذر نہ ہو اور جہاں پریشان حالوں
کی مزاج پرسی نہ ہو ۔ذرا اس پہلو سے سوچئے کہ ہم جب اپنے کسی عزیز ،بیٹے ،بیٹی
،بہن ،بھائی وغیرہ کی شادی یا اپنے بچے کے عقیقے یا ختنے کی تقریب منعقد
کرتے ہیں تو اپنی دولت کی نمائش کیلئے سیکڑوں لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اس کے
پیچھے ہماری دلیل یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی خوشی میں دوسروں کوبھی شریک کرنا
چاہتے ہیں، طرح طرح کے مرغن اور لذیذ کھانوں سے ان مہمانوں کی ضیافت کا بہت
اچھے پیمانے پر اہتمام کیا جاتا ہے اور ہم اس موقع پر دوسروں کو شریک کرکے
بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں خوشی منانا بلاشبہ محبوب ہے مگر نام ونمود
کی خواہش اور اسطرح کے اہتمام کا شریعت میں کوئی تصور نہیں ۔مگر عیدالفطر
میں تو اللہ تعالیٰ اس طرح کا حکم دیتا ہے کہ خاص اس دن خوشی میںخوب فیاضی
کا مظاہرہ کیا جائے غریب اور پسماندہ لوگوں کے دکھ درد تقسیم کئے جائیں ۔عید
الفطر کا فلسفہ یہی ہے کہ اپنے سے کم تر لوگوں کوپوچھو،انھیں اپنے ساتھ
دعوت میں شریک کرو تاکہ ان کا احساس محرومی کچھ تو کم ہوسکے مگرہمارے دلوں
پر ریاکاری اور بے خوفی کی تہہ جم چکی ہے ۔ ہم ان سب باتوں کو نظر انداز
کرتے چلے جارہے ہیں۔بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم رسمی طور پر دنیاوی
رنگ وآہنگ میں عیدالفطر کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوجاتے ہیں مگر اس کے
دینی وعملی تقاضے پورے کرنے سے کوسوں دور ہیں کس طرح ہماری عیدیں بارگاہ رب
العالمین میں قبول ہوں گی ؟اللہ تعالیٰ نے سال بھر دو عیدیں عیدالفطر اور
عیدالاضحی اس لئے رکھی ہیں کہ اگر مصیبت زدہ کو سال بھر کوئی بھی نہیں
پوچھتا تو کم از کم ان دنوں میں تو کوئی پوچھ ہی لے مگر افسوس! یہاں بھی
نتیجہ صفر رہتا ہے۔ بڑے خوش نصیب اور قابل رشک ہیںوہ لوگ جو عید کے پیغامات
کو سمجھتے بھی ہیں اور حتیٰ المقدور اس کے تقاضوں کو پورا بھی کرتے ہیں
ایسے ہی لوگوں کی عید ’’عید‘‘ ہے اور ایسے ہی لوگوں کی خوشیاں ’’خوشیاں‘‘ ۔ورنہ
ایسی خوشی سے کیا فائدہ جسے دیکھ کر غریب کی آنکھیں نم ہوجائیں اسے اس کا
احساس محرومی تڑپادے اور آپ کی واہ اسے آہ پر مجبور کردے شکوہ دنیا داروں
سے نہیں ان دین داروں سے ہے جو ہمیشہ دین دین کی رٹ لگاتے ہیں مگر ایسے
موقع پر ان لوگوں کی دین داری کہاں اڑ جاتی ہے یاد رکھئے حقوق العباد کی
بھی بڑی اہمیت ہے حقوق العباد صاحب معاملہ ہی کے ذریعے معاف ہو سکتے ہیں
عیدالفطر بھی حقوق العباد ادا کرنے کا دن ہے اگر اس دن بھی اس کی ادائیگی
میں کوتاہی ہوئی تو اس کانتیجہ ہمیں دنیا میں بھی بھگتناپڑے گا اورآخرت
میں بھی۔ عیدالفطر بے پناہ برکتیں،سعادتیں،رحمتیں اور مسرتیں لوٹنے کا دن
ہے اور یہ ساری برکتیں دونوں ہاتھوں سے وہ لوٹتے ہیںجو صحیح معنوں میں عید
کا حق ادا کرتے ہیں آئیے عہد کریں کہ عید کے دن کوئی بھوکا نہ رہے، کوئی
احساس محر ومی کا شکار نہ ہو، تلخی کدورت کی نفسیات میں مبتلا نہ ہونے پائے
اور کسی کا احساس غربت اس کی آنکھیں ڈبڈبا نہ دے۔آئیے دعا کریں کہ اے
اللہ تو آج کے دن ہم سے وہ کام لے لے جو تجھے پسند ہو اور جو تیری رضا کے
لائق ہو ۔
|