عیدالفطر :خصوصی بخشش اور مغفرت کا دن

عیدالفطر رمضان المبارک کے پورے روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو آتی ہے جو روزہ داروں کیلئے مسرت اور شادمانی اور مغفرت کی نوید لاتی ہے شوال کا یہ پہلا دن روزہ داروں کیلئے مغفرت کا دن ہے روزہ ماہ رمضان کی ایک فرض عبادت کا نام ہے جسے اسلام کے بنیادی عقائد میں تیسرا نمبر حاصل ہے جب کہ اسلامی عبادات میں یہ دوسرے نمبر پر ہے اگر کوئی بھی شخص رمضان المبارک کا مہینہ پائے اور بغیر شرعی عذر کے وہ روزہ نہ رکھے تو حق تعالیٰ کی جانب سے سزا کا مستو جب ہوگا جس کی تلافی ممکن نہیں روزہ دار کو انعام واکرام سے نوازنے کیلئے اسے عید جیسی نعمت سے سرفراز کیا گیا عید کے معنی بار بار پلٹ کر آنا، واپس پھر آنا، خوشی کا دن اور تہوار ہے۔ قرآن میں یہ لفظ سورئہ مائدہ میں آیا ہے’’ تب دعا کی عیسیٰ ابن مریم نے اے ہمارے رب!ہم پرآسمان سے خوان نعمت جو ہمارے لئے عید ہو (آیت ۱۱۴)اب دیکھئے بار بار پلٹ آنے والے معنی میں ،عید ہر سال یکم شوال کو پلٹ کر آتی ہے یا بار بار آتی رہے گی جب تک قیامت نہ برپا ہو جائے اس دن کو عید الفطر بھی کہا جا تا ہے کیو نکہ اس دن عید کی نماز سے قبل ہر ذی نفس کی جانب سے صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے جو آخرت میں دینے والے کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے یہی نہیں بلکہ خدائے بزرگ وبر تر اپنے مومن بندوں پر انعام واکرام کی بارش کرتا ہے غور کیجئے کہ تیس روزے رکھنے کے بعد مومن بندہ لاغر ونحیف ہو جاتا ہے مگر پھر یکم شوال کو اس کی رات کو آرام کرنے کیلئے نہیں فرمایا بلکہ عید کی رات بھی عبادت میں مصروف رہنے کیلئے کہا گیا ہے عید کی رات ان پانچ راتوں میں سے ایک ہے جن میں اللہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے اور ان کی دعائوں کو سن کر منظور ومقبول فرماتا ہے۔ پھر بندۂ مومن صبح اٹھتا ہے اپنے معمولات سے فارغ ہوکر وہ نماز عید کی ادائیگی کی خاطر کسی میدان یا عید گاہ جاتا ہے جہاں ایک بڑا روحانی اجتماع ہوتا ہے جہاں دو رکعت نماز باجماعت اور پھر خطبے کی سماعت مومن بندے کو تھکانے یا مزید ابتلاء میں ڈالنے کیلئے نہیں بلکہ یہ رب کی جانب سے روزہ داروں کیلئے ایک قسم کی ’’عید ی‘‘ ہے معاشرے میں عیدی کا تصور یہ ہے کہ مسلمان اپنے کسی دوسرے بھائی کو نقدی کپڑے یا کو ئی تحفہ خواہ کسی بھی جنس میں ہو دیتا ہے مگر مالک حقیقی کی نظر میں ان مادی اشیاء کی کوئی حیثیت نہیں،وہ تو بس اپنے بندے سے خوش ہو کر اسے جنت کی بشارت دیتا ہے اس دن مومن سے اس کا مطالبہ کہ وہ فجر کی نماز با جماعت ادا کرے پھر صدقہ فطر ادا کرے خواہ و نقدی کی شکل میں ہو یا جنس کی شکل میں نہاد ھو کر نئے کپڑے پہنے اور خوشبو لگا کر وقت سے پہلے شہر کی عیدگاہ میں داخل ہو نماز عید ادا کر کے یہ سب وہ کیوں کرواتا ہے صرف اس لئے کہ اس دن وہ اپنے نیک بندوں پر بے پناہ عنایات کرنا چاہتا ہے تاکہ ہر سال اس کی ان عنایات کا شدت وبے چینی سے انتظار کیا جائے یہ اس لیے کہ یہ لمحات سال بھر میں صرف ایک ہی بار تو آتے ہیں اس کی عنایا ت وبخشش کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ راستہ بدل کر آنے جانے میں بھی اس نے ثواب رکھا ہے۔رمضان المبارک کی شب وروز کی عبادت سے فارغ ہو کر عیدالفطر کا دن آتا ہے اس دن صدقہ فطر کی ادائیگی اور پھر دگانہ نماز کی ادائیگی ہوتی ہے ان سب اعمال میں رب العزت کی منشا ہمارے شامل حال رہتی ہے یہ صرف اسی ذات باری کی توفیق تھی کہ ان مراحل سے ہم سر خرو ہوئے ورنہ ہم کس قابل ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم آئندہ سال کیلئے اپنا محاسبہ کرتے رہیں ۔اور اس بات کا اہتمام کریں کہ آئندہ زندگی میں ہم سے کو ئی کوتا ہی نہ ہو۔اب رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کو خوش کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا بلکہ نا فرمانی کا طوق گلے میں ڈال رکھا ایسے لوگوں کو عید سے کیا واسطہ ؟یہ ان کیلئے عید نہیں بلکہ وعید ہے مشاہدے میں آیا ہے کہ عید ایسے ہی لوگ زور وشور سے مناتے ہیں بڑھ کر گلے ملتے ہیں جب کہ معانقہ اور مصافحہ کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر کوئی دوست یا عزیز رشتہ دار ناراض ہے تو گلے ملے اور رنجشوں کو ختم کردیا جائے یہ حدیث مبارکہ بھی ہے کہ کو ئی مسلمان اپنے دوسرے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے روایت میں آیا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے پہلی عیدالفطر مدینہ منورہ میں یکم شوال ۲ ہجری کو منائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کی امامت کھلے میدان میں فرمائی جہاں آجکل مسجد غمامہ ہے یہ وہی مسجد غمامہ ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقاء ادا فرماتے رہے ہیں ۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731813 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More