الو کا جواب

ایک طوطا اور مینا کا گزر ایک ویرانے سے ہوا.. وہ دم لینے کے لئے ایک ٹنڈ منڈ درخت پر بیٹھ گئے.. طوطے نے مینا سے کہا.. " اس علاقے کی ویرانی دیکھ کر لگتا ہے کہ الوؤں نے یہاں بسیرا کیا ہو گا.. "

ساتھ والی شاخ پر ایک الو بیٹھا تھا.. اس نے یہ سن کر اڈاری ماری.. اور ان کے برابر میں آ کر بیٹھ گیا.. علیک سلیک کے بعد الو نے طوطا اور مینا کو مخاطب کیا.. اور کہا.. " آپ میرے علاقے میں آئے ہیں.. میں ممنون ہوں گا اگر آپ آج رات کا کھانا میرے غریب کھانے پر تناول فرمائیں.. "

اس جوڑے نے الو کی دعوت قبول کر لی.. رات کا کھانا کھانے اور پھر آرام کرنے کے بعد جب وہ صبح واپس نکلنے لگے.. تو الو نے مینا کا ہاتھ پکڑ لیا.. اور طوطے کو مخاطب کر کے کہا.. " اسے کہاں لے کر جا رہے ہو.. یہ میری بیوی ہے.. "

یہ سن کر طوطا پریشان ہو گیا.. اور بولا.. " یہ تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہے.. یہ مینا ہے.. اور تم الو ہو.. تم زیادتی کر رہے ہو.. "

اس پر الو وزیر با تدبیر کی طرح ٹھنڈے لہجے میں بولا.. " ہمیں جھگڑنے کی ضرورت نہیں.. عدالتیں کھل گئی ہوں گی.. ہم وہاں چلتے ہیں.. وہ جو فیصلہ کریں گی.. ہمیں منظور ہوگا "

طوطے کو مجبوراً اس کے ساتھ جانا پڑا.. جج نے دونوں طرف کے دلائل بہت تفصیل سے سنے.. اور آخر میں فیصلہ دیا کہ مینا طوطے کی نہیں الو کی بیوی ہے..

یہ سن کر طوطا روتا ہوا ایک طرف کو چل دیا.. ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ الو نے اسے آواز دی.. " تنہا کہاں جا رہے ہو.. اپنی بیوی تو لیتے جاؤ.. "

طوطے نے روتے ہوئے کہا.. " یہ میری بیوی کہاں ہے.. عدالت کے فیصلے کے مطابق اب یہ تمہاری بیوی ہے.. "

اس پر الو نے شفقت سے طوطے کے کاندھے پر ہاتھ رکھا.. اور کہا.. " یہ میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے.. میں تو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الوؤں کی وجہ سے ویران نہیں ہوتیں.. بلکہ اس وقت ویران ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے..!! "


کسی کو پورا پورا ہر لحاظ سے اس کا حق دے دینا اور کسی کے ساتھ ذیادتی نہ کرنا عدل وانصاف کہلاتا ہے۔اسلامی معاشرےمیں عدل و انصاف کی بڑی اہمیت ہے ۔معاشرے میں سکون وامن کی ضمانت اس کو قرار دیا گیا ہے۔عدل اللہ تعالی کی صفت ہے۔ قرآن میں بھی بار بار اس کے بارے میں احکامات آئے ہیں قرآن میں ایک جگہ اس کو یوں بیان کیا گیا ہے۔

“میں بندوں پر ظلم نہیں کرتا“

جبکہ سورہ شوری میں یوں کہلوایا گیا ہے “کہو مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کرو“۔


پاکستان میں عدل و انصاف کی صورت حال آپ کے سامنے ہے کہ لوگوں کو انصاف کے حصول کے لئے کس طرح پاپٹر بیلنے پڑتےہیں پھر بھی بامشکل انصاف حاصل کر پاتے ہیں۔ ہمارے نام نہاد عوامی خدمت کے دعوی دار لیڈر بس ووٹ کے حصول کے لئے ہی ہمارے ساتھ انصاف دینے کا وعدہ کرتےہیں۔اقتدار ملتےہی بس اپنے ذاتی مفادات کو نقصان نہ پہنچ جائے انصاف سے کام لیتے ہوئے جتنا بھی ہاتھ میں آتا ہے اپنا حصہ بٹور کر واپس ہو لیتے ہیں اور عوام انصاف کے لئے دربدر رلتے ہی رہتےہیں۔ انصاف کے حصول کو آسان تر کرنا ہماری اعلی عدلیہ کا کام ہے اگر ایسا نظام وہاں قائم ہو جائے کہ کوئی بھی اپنے کیس کا فیصلہ تاخیر سے لانے کے لئے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال نہ کرسکے تو عوام کو جلد انصاف کی فراہمی ہو سکتی ہے مگر شاید جس کے پاس پیسہ اور سفارش ہے وہی جلد انصاف حاصل کر پاتا ہے باقی تو دادا کا مقدمہ تو پوتے پڑپوتے بھی جیت نہیں پاتے ہیں جو کہ ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

گذشتہ کئی سالوں سے ہم جو دہشت گردی کا رونا رو رہے ہیں یہ اب تک ختم ہو چکا ہے اگر انکے خلاف پکے ثبوت فراہم کیے جاتے تو عدلیہ انکے جیلوں میں ڈالتی مگر یہاں تو سب انصاف بیچ کر اپنے گھر کو چلانا ضروری سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے پاکستان میں حالات خراب تر ہو رہے ہیں ۔ذرا سوچئے کتنے لیڈروں نے انصاف کی جلد فراہمی کے لئے درست طور پر جہدو جہد کی ہے اصل میں یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ یہاں حقیقی انصاف ہو وگرنہ کسی روز یہ خود ہی تختہ دار پر لٹکے ہونگے۔اللہ تعالی ہمارے حکمرانوںکو اور عوام کو اس بارے میں سوچنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں بصورت بستیاں انصاف نہ ہوگا تو ویران ہی ہو جائیں گی۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 481757 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More