'اقوال بے معنی ہیں جب تک کہ یہ عادات و
اطوار پہ اثر انداز نہ ہوں' اقوال افراد کی زندگی میں درپیش آنے والے
تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہوتے ہیں ہم اکثر اخبارات و رسائل یا پھر
انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے اقوال کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان اقوال کی اہمیت
کے حوالے سے ان اقوال کی تائید و حمایت بھی کرتے ہیں کیا تائید و حمایت
کردینے سے ہی اقوال، صاحب اقوال یا پھر اقوال کا حوالہ دینے والوں کا حق
ادا ہو جاتا ہے۔۔۔ نہیں!
جب تک یہ اقوال ہمارے اطوار و عادات پر اثر انداز نہ ہوں بے فائدہ اور ان
کا مطالعہ بے معنی و وقت کا زیاں ہے کسی چیز کا علم ہونا، علم کی حمایت
کرنا، علم کے فروغ کے لئے تقریریں کرنا یا پھر اپنی تحریر کے ذریعے علم کی
اہمیت پر لیکچر تیار کرنا ہی کافی نہیں ہوتا جب تک کہ علم کو اپنی زندگیوں
میں عملی طور پر لاگو نہ کیا جائے
علم کی محتلف اقسام ہیں اور کسی بھی قسم کے علم سے عملی زندگی میں کام نہ
لیا جانا علم کی بے قدری ہے اور ایسا علم محض وقت کا زیاں ہے جو محض مطالعہ
و سماعت تک محدود رہے
اقوال بھی علم کی ہی ایک قسم ہے اور یہ اقوال دنیا کی عظیم شخصیات کی زندگی
کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہوتے ہیں ان میں سے بعض اقوال سنتے ہی دل و
دماغ پر گہرا اثر ہوتا ہے جبکہ روح و دل پر ان اقوال کی تاثیر کا حق اسی
صورت ادا کیا جاسکتا ہے کہ جب قارئین یا سامعین ان اقوال کی تاثیر اپنی روح
اور دل کی طرح اپنی عادات و اطوار پر بھی محسوس کریں
اقوال میں پوشیدہ علم کا حق بھی علم پر عمل کے اصول کے طور پر لاگو ہوتا ہے
اقوال ہوں یا دیگر علوم انہیں محض مطالعے تک محدود رکھنا اقوال میں پوشیدہ
علم کی توہین کے مترادف ہے علم اقوال کی اہمیت اسی وقت عیاں ہوتی ہے جب
اقوال کو پڑھنے یا سننے کے بعد قارئین و سامعین دل دماغ کی طرح اقوال کے
زیر اثر پیدا شدہ تاثیر کو اپنی عادات و اطوار پر باقاعدگی سے لاگو کریں
اقوال میں بیان کئے گئے اصولوں کو عملی زندگی میں شامل کرنا ہی اقوال میں
پوشیدہ علم سے عملی طور پر فائدہ اٹھانا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ
اقوال کی تاثیر عادات و اطوار پر اثر انداز ہو اقوال میں بیان کردہ زندگی
کے سنہری اصولوں کو عملی زندگی میں شامل کرنا کچھ دشوار نہیں کہ انسان جو
کچھ کرنا چاہتا ہے ہمت٬ محنت اور کوشش سے کر گزرتا ہے
لیکن ہم میں سے ہی چند افراد کا نظریہ یہ بھی ہے کہ کتابی باتیں یا اقوال
محض کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں ان کا حقیقی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں،
اپنی عادات و اطوار کو اقوال کے مطابق ڈھالنا دشوار ہے جب اقوال عادات و
اطوار پر اثر انداز نہیں ہونے تو بھر ان پر کان دھرنا بے معنی ہے لہٰذا
اقوال پڑھنے، لکھنے یا بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس خیال سے کہ اقوال کی تاثیر سے عادات و اطوار پر لاگو کرنا مشکل عمل ہے
اس سے بہتر ہے کہ اقوال پر کان ہی نہ دھرے جائیں اقوال پڑھے ہی نہ جائیں
اور اقوال کو پڑھ کر یا سن کر آگے بڑھانے کا عمل روک دیا جائے کہ یہ سب
کرنا لاحاصل ہے
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اقوال میں بیان کردہ اصولوں کو عملی زندگی میں
شامل کرنا دشوار ہے تو آپ کا
یہ نظریہ درست نہیں بلکہ خیال خام ہے ہر بیان، ہر قول اور بات اپنی نوعیت
کے اعتبار سے پڑھنے اور سننے والوں پر کسی نہ کسی حد تک اثرانداز ضرور ہوتی
ہے
مختلف زمانوں میں عظیم شخصیات کے اقوال سے افراد کے عادات و اطوار پر مثبت
اور نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں اور یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں ہے اقوال کی تاثیر کو عملی زندگی میں لاگو کرنے والے افراد کی شخصیت
دیگر افراد کی نسبت نمایاں دکھائی دیتی ہے اور یہ انفرادیت کسی بھی فرد کی
عادات و اطوار پر اقوال کی تاثیر کی مرہون منت ہے
ایسے اقوال جہاں سے بھی پڑھنے یا سننے کا موقع میّسر آئے انہیں پڑھیں،
توّجہ سے سنیں، ان پر غور کریں، ان پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی ان کی
ترغیب دلائیں جلد یا بدیر عادات و اطوار پر اقوال کی تاثیر افراد معاشرہ کی
شخصیات پر جزوی یا کلی طور پر اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے اور یہی تاثیر کسی
قوم کی تہذیب کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے
عمدہ اقوال کے فروغ کا سلسہ کسی خدشہ کی زد میں آکر منقطع نہ کریں بلکہ
اسکا تسلسل جاری رکھیں
بقول شاعر!
جو پتھر پہ پانی پڑے مسلسل
تو بے شبہ گھس جائے پتھر کی سل |