دل بظاہر نظام حیات کو بحال
رکھنے کا اہم ترین جز اور ہیئیت کے اعتبار سے گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے
جو جسم میں خون کے دوران کو رواں رکھنے کا ذریعہ ہے اگر انسان کے سینے میں
دل نہ ہو تو جسم میں جان نہ ہو انسانی زندگی قائم نہ رہ سکے
انسانی جسم و جاں کے لئے دل کی اہمیت سے کون واقف نہیں یہ دل ہی ہے جس کی
دھڑکن انسانی زندگی کے لئے سب سے زیادہ اہم ہے دل کی دھڑکن کے رکتے ہی چلتی
سانسیں رک جایا کرتی ہیں کوئی دیو ہیکل بھاری بھرکم وجود والا انسان ہو یا
دھان پان کمزور جان ہو پل میں جیتے جاگتے انسان سے خاک کا ڈھیر بن جایا
کرتا ہے زندگی کی روانی ہو، بڑھاپا یا جوانی ہو دل کے بند ہوتے ہی بدن سے
جان کا رشتہ آن کی آن میں منقطع ہو جایا کرتا ہے
دل کی محض یہی مختصر حقیقت نہیں ہے کہ یہ انسانی جسم میں حیاتیاتی افعال کا
اہم ترین جز ہے اور جسم کا ایک حصہ ہے بلکہ روحانی اعتبار سے بھی دل کی
اہمیت مسلم ہے دل انسان کے جذبات کا مخزن ہے دل ہی ہے کہ جس میں خیال یار
کی تصویر بستی ہے جس تصویر کی تلاش و جستجو میں انسانی آنکھ بیقراری کے
عالم میں ہمہ تن محو سفر رہتی ہے اور جب انسان اپنے دل میں نہاں رخ محبوب
کی جلوہ نمایاں ظاہر میں دیکھتا ہے تو یہ دل ہی ہے جو گواہی دیتا ہے کہ ہاں
یہی تو وہ صورت ہے جو کہیں دل کہ نہاں خانے میں عرصہ دراز سے مقیم ہے اور
یہ محبوب کوئی عام محبوب نہیں بلکہ محبوب حقیقی ہے رب کائنات ہے جس کا عکس
کائنات کے ذرے ذرے سے عیاں ہے یہی وجہ ہے کہ انسان جب کسی چیز کو دیکھ کر
اسکے لئے دل میں کشش محسوس کرتا ہے تو یہ وہی حسن حقیقی کی جھلک ہے جو ہر
شے میں نہاں ہے
اسی حسن کی جھلک پا کر انسان کائنات سے محبت کرتا ہے انسان کائنات کے
نظاروں سے محبت کرتا ہے انسان مخلوق کائنات سے محبت کرتا ہے اور انسان
انسان سے محبت کرتا ہے یہی محبت انسان کو منزل بہ منزل عشق آشنا کرتی ہے یہ
عشق ہی انسان کی مجاز سے اس حقیقت کی سمت رہنمائی کرتا ہے جو انسان کو اپنے
آپ سے اور اپنے رب سے ملاتا ہے
کہنے کو تو انسانی دل گوشت کا ایک لوتھڑا ہے لیکن دنیا میں دل جیسا گہرا
اور وسیع مکان کوئی اور نہیں اسی لئے دل کی وسعت و گہرائی کو صحرا و سمندر
سے بھی تشبیہ دی گئی ہے بلکہ جو دل عشق کا دم بھرتا ہے اس دل کی وسعت و
گہرائی کے آگے صحرا و سمندر کی وسعت و گہرائی بھی شرماتی ہے انسانی جسم میں
محض دل ہی وہ واحد مقام ہے جہاں عشق کا جہان آباد ہوتا ہے
کہنے کو تو دل ہر زندہ انسان کے سینے میں موجود ہے لیکن زندہ وجود میں زندہ
دلی نہ ہو تو دل مردہ ہے اور ایسی زندگی زندگی نہیں شرمندگی ہے جسم میں دل
کا ہونا بڑی بات نہیں بلکہ دل والے ہونا بڑی بات ہے اور دل والے وہی ہوتے
ہیں جن کے دل دوسروں کے لئے جذبہ محبت سے سرشار ہوں کہ رب بھی اسی دل میں
قیام کرتا ہے جس دل میں خلق خدا کے لئے جذبہ محبت مؤجزن دیکھتا ہے مخلوق
خدا سے محبت ہی خدا سے محبت کرنا ہے اسی لئے دل کو خدا کا مسکن کہا گیا ہے
کہ رب اسی دل میں قیام پسند فرماتا ہے جہاں جذبہ عشق و محبت پاتا ہے
جذبہ محبت انسان کو خدا سے قریب تر کرتا ہے اسی لئے تو کہتے ہیں کہ دل خدا
کا مسکن ہے خدا انسان کے دل میں قیام کرتا ہے اور یہ کون پسند کرے گا کہ
کوئی اس کے مکان میں دراڑیں ڈالے اس کا مکان توڑے لیکن واہ رے انسان تیری
دلیری بڑی آسانی سے آئے دن بغیر کسی وجہ کے کبھی اس کا کبھی اس کا کبھی کسی
کا اور کوئی نہ ملا تو کبھی اپنے ہی ہاتھوں اپنا دل توڑ بیٹھے اور یہ بھی
نہ جانا کہ ہم جانے یا انجانے کتنا بڑا نقصان کر بیٹھے ہیں اس گھر کی
دیواریں ہلا دیں ہیں جہاں ہمارا خدا بڑی محبت سے براجمان ہے
اللہ کے بندوں اپنی زبان اپنے ہاتھ اور اپنے رویوں میں محتاط ہو جاؤ اور
کسی کا دل نہ توڑو ہم نہیں جانتے کہ اللہ کے نزدیک کس دل کا کیا مقام ہے
اور کس دل میں اللہ کا قیام ہے کہیں انجانے میں ہم بہت بڑے جرم کا ارتکاب
نہ کر بیٹھیں، کہیں ہم سے وہ گناہ سرزد نہ ہو جائے کہ جس کا ازالہ یا معافی
ممکن نہ ہو
رب کائنات حقوق اللہ سے غفلت کی بابت توبہ قبول کر بھی لے تو حقوق العباد
سے غفلت کی بابت اس وقت تک توبہ قابل قبول نہ ہو گی جب تک کہ خود وہ شخص
معاف نہ کر دے جس کا ناحق دل دکھایا گیا ہے کہ دل دکھا دینا تو نہایت سہل
ہے لیکن دکھے دل سے نکلی آہ کے نتیجے میں ہونے والے تباہی کا رخ موڑنا سہل
نہیں ہوتا اس سے پہلے کے کسی ٹوٹے دل کی آہ عرش کو ہلا دے اپنے آپ پر وہ
اختیار حاصل کر لیں جو آپ کو ناحق کسی کا دل دکھانے کی عادت سے روک لے
آگے آپ خود بہتر سوچ سکتے ہیں کہ کسی کا دل دکھانا کیسا جرم ہے جب کے آپ
بخوبی جانتے ہیں کہ دل خدا کا مسکن ہے اور جو خدا کے مسکن کو خدا کے گھر کو
توڑے گا تو کیا رب یہ پسند فرمائے گا اسی لئے کہنے والے کہہ گئے ہیں اور
کہتے بھی رہتے ہیں
'دل کو نہ توڑیئے یہ خدا کا مقام ہے' |