زکاۃ اسلام کا بنیادی رکن ہے ،قرآن
وحدیث میں ا سکے فرض ہونے کے قطعی دلائل وافر مقدار میں موجود ہیں، عقیدۃً
اس کا انکار کرنے والا مرتد (کافر ) ہے ،اوربخل کی وجہ سے نہ دینے والا
مجرم کبیر ہے ۔
حضرت أبو ہریرہ سے روایت ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جس مال کی زکاۃ ادا نہیں
کی گئی ،وہ قیامت کے دن ’’گنجاسانپ ‘‘ کی صورت اختیار کرے گا، جو اپنے مالک
اور سیٹھ کو دوڑائے گا، وہ بھاگ بھاگ کر جب تھک جائے گا ،تو اپنی انگلیاں
اس کے منہ میں دیدے گا، جنہیں وہ چباتارہے گا‘‘، (مسند احمد )۔
ٌ حضرت ابوہریرہ سے یہ بھی مروی ہے ،جناب رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ جو شخص
سونے چاند ی کامالک ہو ، اور اس کا حق( زکاۃ ،صدقات ، اور عطیات کی شکل میں
)ادا نہ کرے، تو جب قیامت کا دن ہوگا، اس کے لئے اسی سونے چاندی میں سے آگ
کی چادریں بنادی جائے گی ،پھر ان آگ سے بنی ہوئی چادروں پر جہنم کی آگ مزید
بھڑ کائی جائیگی ،پھر ان سے ان کے حقوق ادا نہ کرنے والے مالکوں اور سیٹھوں
کی کروٹیں اور پیشانیاں داغی جائے گی، جب ان میں کچھ ٹھنڈک آئیگی ، دوبارہ
سے انہیں داغنے کے عمل کے لئے ویسے ہی گرم کردیاجائے گا،یہ اس دن کامعاملہ
ہے جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے ،حتی کہ حشر قائم بپاہوکر تمام بندوں میں
جنت یادوزخ کا فیصلہ ہوجائے ۔ اورجن لوگوں کے پاس مال کی صورت میں جانور
ہوں گے ، تو ان میں اونٹوں کے متعلق فرمایا: جو ان کے حق ِزکاۃ وخیرات
ادانہیں کرتا، ایسے مالک کو قیامت کے دن ایک ہموار میدان میں لٹادیاجائے گا،
اس کے اونٹ نہایت موٹے تازے ہوکر قطاراندرقطار آتے جائینگے ، پیروں سے اس
کو روندینگے اور دانتوں سے اس کو کاٹینگے ، جب پہلی جماعت ان کی گذر جائیگی،
پچھلی آتی جائیگی ۔اسی طرح ان بکریوں کے مالک کو ہموار زمین پر لٹادیا جائے
گا، جن میں سے ﷲ تعالی کے حقوق ادا نہ کئے گئے ہوں، وہ بھیڑ بکریاں بھی
ترتیب سے آتی رہینگی ، نہ ان میں مڑے ہوئے سینگوں والی ہوگی ، نہ بے سینگ
او رٹوٹے ہوئے سینگوں والی ، سینگوں سے اسے مار تی رہینگی ، اور کھروں سے
اسے روندتی رہینگی ‘‘، حضرت ابوذر ؓ کی روایت میں گائے (بھینس)وغیرہ کا بھی
یہی حال بتایاگیاہے۔(صحیحین )۔
حضرت عبدﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ زکاۃ کا انکار کرنے
والا قتل کردیاجائے ‘‘ (مسند ربیع بن حبیب )۔
حضرت جابر ؓ نبی کریم سے نقل کرتے ہیں:’’ جب آپ نے اپنے مال کی زکاۃ دیدی ،
تو آپ نے اپنے آپ کو اس کے شر سے محفوظ کرلیا‘‘ ۔(مستدرک حاکم )۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کی ایک اور روایت ، حضور پرنور ﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص کو ﷲ
تعالی مال عنایت کردے ، پھر وہ اس میں سے زکاۃ ادا نہ کرے ، یہ مال قیامت
کے دن گنجاسانپ بن جائے گا، جس کے ماتھے پر خطرناک سانپوں والی دونشانیاں
ہوں گی ، یہ گنجاخطرناک سانپ اس کے گلے کا طوق بن کراس میں لٹک جائے گا،
اور اپنے مالک کو دونوں بانچھوں سے پکڑلے گا، پھر اسے کہے گا ، میں تیرا
وہی مال ہوں ، میں تیرا وہی خزانہ ہوں ۔پھر نبی کریم ﷺ نے یہ آیت تلاوت
فرمائی : ’’ہرگز گمان نہ کرے وہ لوگ جو ﷲ کے دیے ہوئے فضل کے انفاق میں بخل
کرتے ہیں ،کہ کہیں یہ (بخل ) ان کے لئے بہترہے، عنقریب یہ مال بغیر زکاۃ
قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا ۔آل عمران ،180‘‘ ،(صحیح بخاری )۔
نیز دنیا میں بھی زکاۃ ، صدقات وخیرات کے ذریعے سے اپنے اموال کا تزکیہ
وتطہیرنہ کرنے کی وجہ سے سخت پکڑ ہوگی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی بھی قوم جب
زکاۃ کی ادائیگی نہیں کرتی ، تو ﷲ تعالی ان پر قحط او ر بھوک مسلط کردیتے
ہیں ‘‘ ، (طبرانی)۔
جناب رسالت مآب ﷺ نے فرمایا :’’ جب مالِ زکاۃوصدقات اپنی مدت پوری ہوجانے
کے بعدبھی دیگر مال کے ساتھ خلط ملط رہے گا، تووہ پورا مال فاسد اور خراب
ہوجائے گا‘‘،(بیھقی)۔
آپ ؑ نے فرمایا : ’’جب بھی کسی کا کوئی مال بحروبر میں تلف ہوجائے ، یقینا
یہ سمجھ لیاجائے، کہ ان کی زکاۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کی گئی تھی‘‘ ۔ (مجمع
الزوائد)۔
یہ تو ادائیگی کی اہمیت ، ضرورت اور فرضیت کی بات تھی ، دوسری بات یہ ہے کہ
زکاۃبطورِ اجر، ثواب اور عبادت اداکی جائے ،خشوع ، خضوع ،ﷲیت اور اخلاص کو
مدنظر رکھاجائے ،نہ کہ جزیہ، ٹیکس اور خراج کی طرح ادا ئیگی ہو۔نیز زکاۃ کی
ادائیگی ترغیباً للآخر ین علی الاعلان ہو اور دیگر صدقات ،خیرات ، عطیات
اورتبرعات میں اخفاء سے کام لیاجائے ، یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے، کہ
زکاۃ حلال او رطیب مال سے نکالی جاتی ہے، خبیث اور حرام نہ مسلمان کو کسی
طرح زیب دیتاہے اور نہ ہی اس میں سے زکاۃ وصدقات کی نیت سے کچھ ﷲ کے پاک
نام پر دینا جائز ہے ،بلکہ وہ سب یااس میں کچھ حصہ جب بھی دیاجائے ، تو وہ
بلانیتِ ثواب دیاجائے ۔ہاں یہ بات بھی انتہائی ضروری ہے کہ جن کو زکاۃ دی
جارہی ہے، ان کی تحقیق بھی ازروئے عبادت ِزکاۃ دینے والے کیلئے از حد ضروری
ہے، کہ آیا وہ صحیح مصرف بھی ہے ،یانہیں ، آج کل ایک بڑی بیماری یہ بھی ہے
کہ بہت سے لوگ صاحبِ نصاب ہوکر زکاتوں کی وصولیاں کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو
اس قبیح ذخیرہ اندوزی سے پرہیز کرنی چاہیئے ، اور بہت سے ادارے اوراین جی
اوز وغیرہ اموال زکاۃ کومصارف زکاۃ کے بجائے غیر مصارف میں خرچ کرتے ہیں ،
ان کو زکاتیں دیتے ہوئے اپنی عبادت کا خیال رکھنا لازمی ہے ، کچھ ادارے
ایسے ہیں کہ ان کے پاس فنڈ کی کثرت کی وجہ سے زکاۃ کئی سالوں تک اکاونٹ میں
پڑی رہتی ہے ، نہ اس کے تملیک ہوتی ہے ،نہ مصرف تک پہنچتی ہے ، بسا اوقات
زکاۃ دینے والا ﷲ کو پیارا ہوجاتاہے، اور اس کی زکاۃ اگلے دس بیس سالوں تک
ادارے کے مصارف کی پائپ لائن میں منتظر ِخرچ ہوتی ہے ، اس باریکی کا لحاظ
بھی زکاۃ دینے والے کا کام ہے ۔ یہاں کالم کے اختتام پر ہم اس حوالے سے چند
قرآنی آیات کا بھی تذکرہ کئے دیتے ہیں:
ٌ٭’’اور متقی وہ ہیں جو ہماری دی ہوئی رزق میں سے انفاق کرتے ہیں‘‘ (بقرہ
،3)۔
٭’’اے نبی ،ان کے اموال میں سے صدقہ وزکاۃ لو،جس کی وجہ سے انہیں پاک صاف
بنالو‘‘۔(توبہ ، 103)۔
٭’’اور فلاح پاتے ہیں وہ جوزکاۃ ادا کرتے ہیں‘‘ (المؤمنون40)۔
٭’’اور جو کچھ تم خرچ کروگے ﷲ تعالی اس کی جگہ اور دے گا اور وہ بہترین
روزی دینے والاہے ‘‘۔(سبا ،39)۔
٭’’ جولوگ ﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال اس دانہ کی ہے ،جس نے سات
بالیں (خوشے)اُگائیں،ہر بال میں سودانے ہیں ، اور ﷲ جسے چاہتاہے، اِس سے
بھی زیادہ دے گا ، اور وہ ﷲ وسعت والاہے اور خوب علم والا ہے ،جو لوگ ﷲ کی
راہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ،پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں
، نہ أ ذیت دیتے ہیں ، ان کے لئے ان کا اجر وثواب ان کے رب کے یہاں ہے ۔نہ
ان پر کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے ۔اچھی بات اور کسی کو معاف کردینا
اُس صدقہ سے بہترہے جس کے بعد اذیت کا عمل ہو، اور ﷲ تعالی بے پرواہ ہے اور
حلم والا ہے (بقرہ ۔ 141 ۔143)
٭’’جو لو گ سونا چاندی کے خزانے بناتے ہیں ،اور انہیں ﷲ کی راہ میں خرچ
نہیں کرتے ، تو ایسے لوگوں کو ایک دردناک عذاب کی خوشخبری (سرپرائز)دو ، جس
دن جہنم میں وہ خزانے گرم کئے جائینگے ، پس ان سے ان کی پیشانیاں ،کروٹیں،
اورکمرکی پُشتیں داغی جائیں گی ، (اوران سے کہاجائے گا ،یہ وہی مال ہے ،جو
تم نے ذخیرہ کرکے جمع کیاتھا اپنے لئے ،سو اب چکھو جو کچھ تم ذخیرہ کیاکرتے
تھے ‘‘۔(توبہ ،34 ۔35)۔
یہ موضوع بہت طویل تھا، اختصار اً واشارۃً یہاں گنجائش کی بقدر یہ نصوص پیش
کیں،ﷲ کرے زکاۃ دینے اور لینے والوں کے لئے مفید ہوں ۔ |