اے لوگوں تمھارے لیے تو چوپایوں میں بھی عبرت ہے

قارئین ہم بچپن میں کبھی کبھی اپنے علاقے سے کچھ دور دریا کی ساحلی پٹی پر اپنے چچاکے ساتھ تازہ اور آلودگی سے پاک ہوا کا مزہ لینے چلے جایا کرتے تھے۔میں بڑے شوق سے اپنے چچا کے ساتھ دریا کے کنارے جایا کرتا تھا میرا مقصد وہاں تازہ آب وہوا کا لطف لینا نہیں تھا بلکہ وہاں موجود دریا کے ساحل پر گا ئے بھینس کو چرَانے والے گڈریاکی اُس آواز کو سننا تھا جس کے بعد دریا کے ساحل پر بیٹھی تمام بھینسیں اپنے مالک کی ایک ہلکار پر جوق درجوق پانی میں سے نکل کر اپنے مالک کی پیچھے چل دیا کرتی تھیں۔مجھے یہ سب بہت اچھا لگتا تھا اور یہ سب دیکھنے میں بڑا لطف آتا تھا ۔قارئین یہ سب یقینا آپ کی نظروں سے بھی گزرا ہوگا ۔بڑا ہونے کے بعد جب میں نے قرآن میں سورہ النحل کی یہ آیت بمعہ ترجمہ پڑھی تو مجھے میرا بچپن میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا اور میرا دل و دماغ خدا کی خدائی پر عش عش کرنے لگا۔قرآن مجید کی یہ آیت اہل ِ علم کے لئے غور وفکر کے نئے دروازے کھول دیتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ : تمھارے لیے تو چوپایوں میں بھی عبرت ہے کہ ہم تمھیں اُس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اُسی میں سے گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے سہتاپچتا (صحت بخش) ہے۔(سورہ النحل؛ آیت نمبر ۶۶) ۔اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کئے ہیں، جن کے دل ایسے ہیں جن سے وہ نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے ۔ یہ لوگ تو چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ تو ان سے بھی بدتر ہیں، یہی لوگ غافل ہیں۔(سورہ الاعراف؛ آیت نمبر ۱۷۹)

قارئین اﷲ تعالیٰ نے انسان کو کس خوبصورت انداز میں ان آیات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ چوپائے (اونٹ ،گائے ،بکری،بھیڑ، دنبہ) جو کچھ کھاتے ہیں معدے میں جاتا ہے اسی خوراک سے رگوں میں خون اور دوسری طرف گوبر اور پیشاب بنتا ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ اپنی قدرت سے رگوں میں بہتے ہوئے خون پیشاب اور گوبر کے درمیان سے صاف شفاف دودھ نکالتا ہے جس میں نہ خون کی رنگت شامل ہوتی ہے اور نہ گوبر اور پیشاب کی بدبو ۔بلکہ نہایت صاف شفاف دودھ باہر آتا ہے جو آسانی سے انسان کے حلق سے نیچے اترجاتا ہے جو اس کے لیے صحت بخش اور فائدہ مند ہے۔وہ چوپائے جو جانور ہوکر اپنے مالک کی بات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اس کی ایک ہلکار پر لیبک کہ اٹھتے ہیں ۔اے لوگوں تم کیسے ہوتم تو اشراف المخلوقات ہو تمام مخلوق میں سب سے افضل پھر بھی تم اپنے مالک کی بات کو نہیں سمجھتے تو پھرکیا تم اس چوپائے سے بھی گئے گزرے ہو۔اس لیے کہ چوپائے تو پھر بھی اپنے نفع و نقصان کا کچھ شعور رکھتے ہیں اور نفع والی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچ کر رہتے ہیں۔لیکن اﷲ تعالیٰ کی ہدایت سے اعراض کرنے والے شخص کے اندر تو یہ تمیز کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے کہ اس کے لیے مفید چیز کون سی ہے اور مضر کون سی ۔اسی لیے اگلے جملے میں انہیں غافل بھی کہا گیا ہے۔

اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ : اور جن لوگوں نے بدکام کیے اُن کی بدی کی سزا اس کے برابر ملے گی اور ان کو ذلت چھائے گی ، ان کو اﷲ تعالیٰ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے پرت کے پرت لپیٹ دئیے گئے ہیں۔یہ لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔

اور وہ دن بھی قابل ِ ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمھارے شریک (جنھیں تم اﷲ کا شریک ٹھہراتے تھے)اپنی جگہ ٹھہرو ، پھر ہم ان کی آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے اور ان کے وہ شرکاء کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ۔

سو ہمارے تمھارے درمیان اﷲ کافی ہے گواہ کے طورپر، کہ ہم کو تمھاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی۔

اس مقام پر ہر شخص اپنے اگلے کیے ہوئے کاموں کی جانچ کرلے گا اور یہ لوگ اﷲ کی طرف جو ان کا مالک ِ حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور جو کچھ جھوٹ باندھا کرتے تھے سب ان سے غائب ہوجائیں گے۔(سورہ یونس؛ آیت نمبر ۲۷- ۳۰)

اس آیات میں بتلایا جارہا ہے کہ برائی کا بدلہ برائی کے مثل ہی ملے گا ۔ازل سے ابد تک کے تمام اہلِ زمین انسان و جنات ہیں سب کو اﷲ تعالیٰ جمع فرمائے گا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ترجمہ:ہم ان سب کو اکھٹا کریں گے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے(سورہ الکھف؛ آیت نمبر ۴۷)

اور ان کے مقابلے میں اہلِ ایمان کو دوسری طرف کر دیا جائے گا۔ یعنی اہلِ ایمان اور اہلِ کفر و شرک دونوں کو الگ الگ ایک دوسرے سے ممتاز کردیا جائے گا۔ اس دن لوگ گرہوں میں بٹ جائیں گے ۔یعنی دو گرہوں میں۔(ابنِ کثیر)

یعنی دنیا میں ان کے درمیان آپس میں جو خصوصی تعلق تھا(یعنی ان میں اور ان کے معبودوں میں) وہ ختم کردیا جائے گا اور یہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور ان کے معبود خود اُن کی بات کا انکار کریں گے جو وہ دنیا میں ان سے نسبت کیا کرتے تھے ۔قارئین انکے معبود خود ان سے کہیں گے ہمیں تو کچھ پتا ہی نہیں تم کیا کچھ کیا کرتے تھے اور ہم اگر جھوٹ بول رہے ہوں تو ہمارے درمیان اﷲ تعالیٰ گواہ ہے اورہمارے تمھارے لیے اﷲ ہی کافی ہے۔ اُس کی گواہی کے بعدکسی اور ثبوت کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ یہ آیت اس بات پر نص ِ صریح ہے کہ مشرکین جن کو مدد کے لیے پکارتے تھے وہ صرف پتھر کی مورتیا ں نہیں ہوتی تھیں بلکہ وہ عقل و شعور رکھنے والے افراد ہی ہوتے تھے جن کے مرنے کے بعد لوگ ان کے مجسمے اور بت بنا کر یا انھیں اپنا اکابر بنا کر پوجتے تھے ۔جس طرح کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے طرز ِ عمل سے بھی ثابت ہے۔

ایسے تمام مشرکین کے معبود ان کے تمام عمل سے بے خبر ہیں اور ان تما م چیزوں کا انکار وہ قیامت والے دن کریں گے ۔ اور مشرک جان لے گا اور مزہ چکھ لے گااور ان کا کوئی معبود اور رہبر وہاں کام نہیں آئے گا ۔

میرے محترم قارئین مشرکین اﷲ تعالیٰ کی مالکیت ،خالقیت ، ربوبیت اور اس کے مدبر الامور ہونے کو تسلیم کرتے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ وہ اس کی الوہیت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے انہیں جہنم کا ایندھن قرار دیا ۔ آج کل کے مدعیان ایمان بھی اسی توحید الوہیت کے منکر ہیں۔

اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ : آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان و زمین سے رزق پہنچا تا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے۔۔؟ضرور وہ یہی کہیں گے کہ " اﷲ" تو اُن سے کہییے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے ۔سو یہ ہے اﷲ تعالیٰ جو تمھارا ربِ حقیقی ہے۔ پھر حق کے بعد اور کیا رہ گیا بجز گمراہی کے ، پھر کہاں پھرے جاتے ہو۔۔۔؟(سورہ یونس؛ آیت نمبر ۳۱- ۳۲)

یعنی رب اور الہٰ (معبود ) تو یہی ہے جس کے بارے میں تمہیں خود اعتراف ہے کہ ہر چیز کا خالق و مالک اور مدبر وہی ہے پھر اس معبود کو چھوڑ کر جو تم دوسرے معبود بنائے پھرتے ہو وہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں تمھاری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی ۔۔تم کہاں اِدھر اُدھر گمراہ ہوئے پھرتے ہو۔قارئین درحقیقت یہ لوگ اپنے معبودِ حقیقی کو چھوڑ کر اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔

اور اسی سورہ میں اﷲ تعالیٰ آگے فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ : اسی طرح آپ کے رب کی یہ بات کہ یہ ایمان نہ لائیں گے ، تمام فاسق لوگوں کے حق میں ثابت ہوچکی ہے۔(سورہ یونس؛ آیت نمبر ۳۳)

یعنی جس طرح یہ مشرکین تمام تر اعتراف کے باوجود اپنے شرک پر قائم ہیں اور اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ، اسی طرح تیرے رب کی یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔کیوں کہ یہ غلط راستہ چھوڑ کر صحیح راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں تو ہدایت اور ایمان انہیں کس طرح نصیب ہوسکتا ہے۔

اور اسی سورہ میں اﷲ تعالیٰ آگے فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ : جو لوگ ان سے پہلے ہوئے ہیں اسی طرح انہوں نے بھی (اﷲ کے پیغام کو)جھٹلایا تھا ، سو دیکھ لیجیئے ان ظالموں کا انجام کیسا ہوا؟(سورہ یونس؛ آیت نمبر ۳۹)

قارئین اس آیت میں اﷲ تعالیٰ ان کفار و مشرکین کو تنبیہ و تہدید ہے کہ تمھاری طرح پچھلی قوموں نے بھی آیات ِ الٰہی کی تکذیب کی تو دیکھ لو ان کا کیا انجام ہوا؟اور اگر تم اس تکذیب سے باز نہ آئے تو تمھارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔

قارئین ِ محترم میں اپنے کالم کا اختتام کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ نے دیکھا اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے محبوب بندوں کوکس طرح آیات کھول کھول کر سمجھا رہا ہے اور ہمیں گمراہیوں سے دور رہنے کی ہدایت کررہا ہے جو سرا سر اور خالص ہمارا فائدہ ہی ہے لہذا ہمیں اپنے مالک ،خالق اور ربِ کائنات کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے ہر طرح کے شرک و بدعت سے لاتعلق ہوجانا چاہیئے ۔ورنہ یادرکھئے خود کو اشراف لمخلوقات کہلانے والے اپنے رب کی نافرمانی کرکے ان چوپائیوں سے بھی بد تر ثابت ہونگے جس کا تذکرہ ہم شروع میں کرچکے ہیں۔۔۔۔!
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 107449 views کالم نگار/بلاگر.. View More