قدر والی رات اور انورربانی

مسلمان جوق در جوق مسجد کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔دیوانہ وار بڑھے چلے جارہے ہیں ۔رات گے تک سال کی اس رات کو مسجدوں سے حمد ،نعت و درود سلام کی صدائیں عالم دنیا کو مسخر کیے ہوئے ہوتی ہیں ۔

محترم قارئین:اللّہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی ؐ کی پیاری امت کوجہاں دیگر خصوصیات سے نوازا ہے وہیں ایک خصوصیت'' شب قدر'' بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ خصوصیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ رات پہلے کسی دوسری امت کو عطا نہیں کی گئی۔۔۔۔۔۔باری تعالیٰ نے یہ خاص فضل وکرم صرف اُمت مصطفی پرفرمایاہے ۔۔۔۔۔۔ویسے تو اس کاکرم ہر آن ،ہر گھڑی جاری وساری ہے ۔۔۔۔۔۔ا س کا کرم نہ ہوتو کائنات ویران ہوجائے مگر کریم مولی عزوجل کی نوازشوںکا جو انداز شب قدر میں ہوتا ہے وہ کسی اور رات میں نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔۔ برکت ورحمت سے بھر پور اس رات میں باری تعالیٰ نے اپنا بے مثل کلام نازل فرمایا۔۔۔۔۔۔ اس نعمت سے کتنی ہی نعمتوں کے دروازے کھل گئے۔۔۔۔۔۔زبانِ خلق کلام باری سے مشرف ہوئی ۔۔۔۔۔۔قلب انسانی کتاب رحمانی کا محافظ بن گیا۔۔۔۔۔۔سینہ بشریت ملکوتی ولاہوتی اسرار کا محرم راز بن گیا اور پیکر انسانی وحی الہی کے فانوس سے جگمگا اٹھا۔۔۔۔۔۔اس رات کے عبادت گزاروں پر غروب آفتاب سے صبح چمکنے تک نورورحمت کی بارش ہوتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔اور یہ منظر دیکھنے کے لئے فرشتے آسمانوں سے قطاردرقطار اترتے ہیں۔

سلام ومصافحہ کی ایمان افروز حقیقت :
لاکھوں سال عبادت کرنے والے فرشتے اور امام الملائکہ حضر ت جبریل امین علیہ السلام اس ایک رات میں عبادت کرنے والوں پرسلام بھیجتے ہیں اور ان سے مصافحہ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔تفاسیر میں ہے کہ شب قدر میں عبادت کرنے والے بندے کو جب حضرت جبریل امین علیہ السلام آکر سلام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ مصافحہ فرماتے ہیں تو اس پرخوف وخشیت کی ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے، آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور اس کے جسم کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔حضرت امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :''فرشتوں کا سلام امن وسلامتی کی ضمانت ہے ۔حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پرصرف سات فرشتوں نے سلام بھیجاتو ان پر نارِ نمرودٹھنڈی وسلامتی والی ہوگئی اور شب قدر کے عبادت گزاروں پرتو بے شمار فرشتے سلام بھیجتے ہیں توکیوں نہ امید کی جائے کہ ان پر نار جہنم امن و سلامتی والی ہوجائے گی۔''(تفسیر کبیر ،ج١١،ص٢٣٦)

قدر والی رات :
اس رات کو شب قدر کہنے کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں:(1) لفظ قدر کا ایک معنی '' مرتبہ''ہے ، اس رات کو شب قدر اس لئے کہتے ہیں کہ سال کی باقی راتوں کے مقابلے میں یہ زیادہ بلند پایہ اور عظیم مرتبے والی رات ہے۔(2)یا اس لئے کہ اس رات میں عبادت کی قدرو منزلت باقی راتوں کی نسبت ہزار مہینوں کی راتوں سے بھی زیادہ ہے۔ (3)یااس سبب سے کہ اس رات میں عبادت کرنے والوں کی قدرباری تعالیٰ کے ہاں باقی ر اتوں میں عبادت کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔(4) قدر کا لفظ'' قضا و قدر'' کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ،چونکہ فرشتوں کواس رات انسان کی ایک سال کی تقدیر کا قلمدان سونپ دیا جاتا ہے اس لیے اس رات کو شب قدر کہتے ہیں۔(4) قدر کا ایک معنی ''تنگی ''بھی ہے، چونکہ فرشتے اس رات میں بڑی کثرت سے زمین پر اترتے ہیںحتی کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے ،اس وجہ سے بھی اس رات کو شب ِقدر کہتے ہیں۔(ماخوذ ازمقالاتِ سعیدی،ص٣٦٥)

شب قدر عطیہ خداوندی :
بنی اسرائیل میں ایک نیک خصلت بادشاہ تھا ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ہزار لڑکے عطا فرمائے۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے ایک شہزادے کو اپنے مال کے ساتھ لشکر کے لئے تیارکرتا اور اسے راہِ خدامیں مجاہد بنا کر بھیج دیتا ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک مہینے تک جہاد کرتا اور شہید ہوجاتا پھر دوسرے شہزادے کوتیار کرکے بھیجتااور ہر ماہ ایک شہزادہ شہید ہوجاتا۔اِس کے ساتھ ساتھ بادشاہ خود بھی رات کو قِیام کرتا اور دِن کو روزہ رکھا کرتا۔ایک ہزار مہینوں میں اس کے ہزار شہزادے شہید ہوگئے۔پھر خود آگے بڑھ کر جہاد کیا اور شہید ہوگیا۔لوگوں نے کہا کہ اِ س بادشاہ کا مرتبہ کوئی شخص نہیں پا سکتا ۔توخالق کائنات نے یہ آیتِ مبارکہ نازِل فرمائی:''لَیْلَۃُ الْقَدْرِخَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ(ترجمہ: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے)یعنی اس بادشاہ کے ہزار مہینوں سے جو کہ اِس نے رات کے قِیام، دِن کے روزوں اور مال ،جان اور اولاد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرکے گزارے اس سے بہترہے ۔ (تفسیر قرطبی ، ج٢٠ ،ص١٢٢)

ایک بارحضور نبی رحمت،شفیع اُمت ؐنے یہ تذکرہ فرمایا کہ'' حضرت شمعون (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )نے ہزار ماہ اس طر ح عبادت کی کہ رات کو قیام کرتے اور دن کو روزہ رکھتے اور ساتھ ساتھ راہِ خدا میں کافروں سے جہادبھی کرتے۔ ''حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان جو کہ دن رات حصولِ عبادت اور بھلائیوں میں سبقت کے لئے کوشاں رہتے تھے ،انہوںنے جب ان طویل عبادتوں کا قصہ سنا توان کو حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک ہزارسال کی عبادت اورجہاد پر بڑا رشک آیا اور وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے کہ''یارسول اللہ !ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں ۔اس میں سے بھی کچھ حصہ نیند میں گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں،کھانے پکانے میں اور دیگر امور میں بھی کچھ وقت صرف ہوجاتا ہے ،لہٰذا ہم تو اس طرح کی عبادت کر ہی نہیں سکتے اور یوں بنی اسرائیل ہم سے عبادت میں بڑھ جائیں گے۔''اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہئ قدر نازل فرما کر تسلی دی کہ''اے محبوب ہم نے آپ کی امت کو ہر سال میں ایک ایسی رات عطا فرمادی ہے کہ اگر وہ اس رات میں میری عبادت کریں گے تو حضرت شمعون (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔(تفسیر عزیزی ،ج٤،ص٤٣٤)۔۔۔۔۔۔گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بتادیا:'' تمہاری عمر نہیں بڑھ سکتی اجر تو بڑھ سکتا ہے، ہزار ماہ کی طویل عمر نہ سہی ہم تمہیں ایک ہی رات میں ہزار ماہ کا اجر دے دیتے ہیں۔''سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم

محترم قارئین :مزید مفید معلومات کے ساتھ پھر حاضرہونگے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593827 views i am scholar.serve the humainbeing... View More