ہماری عیدیں ……مظہر اتحاد یا علامت اِنتشار؟

ماہِ صیام کے روزوں کی مشقت سے بامراد و کامراں گزرنے کے بعد عیدگاہوں اور مساجد میں دوگانہ ادا کرکے ایک روزہ دار مسلمان جس مسرّت و شادمانی سے سرفراز ہوتا ہے ، اُس کی روحانی لذّ ت وایمانی فرحت کا احساس ایک روزہ دار مسلمان ہی کو ہو سکتا ہے۔ اِنتہائی آمادگئی قلب کے ساتھ فریضہ ٔ صیام کی ادائیگی اور اس ماہ ِ با برکت کی عبادت گزاریوں کے بعد عید الفطر ہی تو ایک ایسا موقع ہوتا ہے جوروزہ دار کی دینی خوشیوں کے حقیقی اِظہار کا ضامن بنتاہے ۔یہ موقع اُسے یکم شوال کی صبح میسر آتاہے۔چنانچہ ایک حقیقی روزہ دار مسلمان کا یہ حق ہے کہ اُسے اُس کی روحانی خوشی کے اظہار کا بھر پور موقع ، کسی رکاوٹ کے بغیر، فراہم کیا جائے ۔کیونکہ یہ حق اﷲ تعالےٰ کا عطا کردہ ہے ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یکم شوال یا عید الفطر کے اس بابرکت دن کے اعلان کا دارومدار چاند کے نظر آنے پرہے، جو ایک فلکی مظاہرہ Astronomical Phenomenonہے، جس پر کسی انسان کا کنٹرول نہیں( اسلامی سال کے کسی بھی مہینے کی پہلی تاریخ کا دارومدار چاند کے نظر آنے پر ہے)۔ آخری روزے کے دن غروبِ آفتاب کے بعدمطلع صاف ہواور چاند نظر آجائے تواِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غروبِ آفتاب کے ساتھ شوال کی پہلی تاریخ کا آغاز اور نمازِتراویح کا سلسلہ ختم ہو گیا۔پھرایک شب گزرنے کے بعد جو صبح نمودار ہوگی وہ یکم شوال کی صبح ہوگی، جو عید کی صبح کہلائے گی۔ عید کا چاند جہاں عید الفطر کی بے پناہ خوشیوں کی تمہید بن کر نمودار ہوتا ہے وہیں یہ خود بھی اپنے آپ میں ڈھیر ساری خوشیوں کا سبب بن جاتا ہے ۔ نظر آ جائے تو ایک روزہ دار کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا اورمطلع ابر آلود رہنے کے سبب نظر نہیں آتا تو ایک روزہ دار بڑی بے چینی محسوس کرتا ہے۔اسی لیے ملت کے ذمہ داروں نے مختلف سطحوں پر رویت ہلال کی کمیٹیاں قائم کر رکھی ہیں تاکہ مختلف ذرائع جیسے ٹیلیفون، ریڈیو، ٹی وی اور ایک دوسرے سے روابط کی مختلف شکلوں کی بنیاد پر ایک مشترکہ، شرعی اور اجتماعی فیصلہ کرکے’’ چاند کے ہونے‘‘ کا اعلان کر سکیں اور اسی اعلان کی بنیاد پر ملک کے تقریباً ہر مقام پر کروڑوں مسلمان، مکمل یکجہتی ،باہمی اتحادو اتفاق اورروزہ داروں کے متذکرہ جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے ایک ہی ملک میں ایک ہی دن عیدالفطرمنا سکیں اور نہ صرف رکوع و سجود کی سوغاتِ تشکر اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کر سکیں بلکہ عید کے عظیم اجتماعات کی منظم صف بندی کے ذریعہ اور بہ آوازِ بلنداﷲ تعالےٰ کی کبریائی کے اعلان سے اہل باطل کو اپنے وجود کا احساس دلا سکیں اور ان کے دلوں پر اپنے اتحاد و اتفاق کی دھاک بٹھا سکیں۔

ملک گیر سطح پرعید الفطرکا بہ یک وقت منایا جاناجن وجوہات کی بنا پر بعض اوقات متاثر ہوجاتا ہے اور ملت کے اِنتشار کا سبب بنتا ہے اورجن اسباب کے تحت دو سے زائد دنوں میں عید مناکر اقوامِ اغیار میں ہماری جو جگ ہنسائی ہوتی ہے، ان وجوہات و اسباب میں گئے بغیر ہم بڑے افسوس کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں رنجیدہ خاطر ہونے کا حق حاصل ہے تو ہم جیسے عام مسلمان اپنے غصے کا نہیں بلکہ شدید رنج اور غم کا اظہار ضرور کرتے ہیں اور اﷲ تعالےٰ سے ان کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالےٰ ہمارے ان معزز ذمہ داروں کو انتشار ِملت کا محرک بننے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔ساتھ ہی ہم ہندوستان کے پچیس کروڑ مسلمانوں کے لیے آنے والے سالوں میں ایک متفقہ و متحدہ رمضان المبارک اور عید الفطر کا موقع فراہم کرنے کی آٹھ نکاتی تجویز پیش کرتے ہیں تاکہ ملت اسلامیہ ہند کو عیدین کے مواقع پر انتشار کے مزید مظاہروں سے بچایا جا سکے:
……رمضان2007؁ء کے آغاز و اختتام،طاق راتوں ، چاند رات اورعیدالفطر کی تاریخوں کے تعین پرابھی سے غور و فکرکاآغازکیاجائے۔
……ہر سطح کی موجودہ رویت ہلال کمیٹیوں کا تعاون کرنے والی ایک ٹکنکل سب کمیٹی کی تشکیل دی جائے جس میں ماہرینِ فلکیات ،فلکی سائنسدان، سنجیدہ اور اِسلامی ذہن رکھنے والے دانشوراور کمیونکشن کے ماہرین شامل ہوں ۔
……آنے والے رمضان اور عید الفطر تک ان کی کم از کم دو یا تین نشستیں منعقد ہوں اوراس کے فیصلوں کی میڈیا میں بھر پورتشہیرکی جائے تاکہ مسلمان ملک گیر سطح پر ایک ہی منزل کی طرف اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔
……تقریباًرجب المرجب کی ۱۵ ؍ تاریخ تک لوگوں کے ذہنوں میں چاند نظر آنے والے دن کی پیش بینی اور پہلے روزے کے دن کا اور یکم شوال کے دن کا ایک ہلکا اندازہ ملت اسلامیہ کوعموماً ہو جائے اور کم از کم واقعات کا دوماہی کیلینڈر یعنیCalender of Eventsترتیب دے کر وسیع پیمانے پر مرکزی ہلال کمیٹی دہلی کے زیر اہتما م اس کو اخبارات میں شائع کیا جائے یا ہنڈ بل کی شکل میں مسلم عوام میں تقسیم کا انتظام کیا جائے ۔
……پہلی طاق رات ہی سے مختلف TVچینلوں میں LIVE Telecastکے ذریعہ مسلم عوام کو باخبر رکھنے کے پروگرام چلائے جائیں اور میڈیا کابھر پور تعاون حاصل کیا جائے تاکہ چاند رات تک مسلم عوام کا ایک ذہن بنایا جاسکے۔اب تو گوگل کی مدد سے قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ چاند نظر آیا یا نہیں۔
……خدا نخواستہ ان تمام کوششوں کے باوجود مذکورہ واقعاتی کیلنڈر کے مطابق چاند کے نظر آنے میں کوئی فرق واقع ہو جائے تو یہ بات بھی پہلے ہی سے طے ہو کہ ایسی صورت میں کس طرح ملک کے سارے مسلمان لا زماً ایک ہی دن پورے ملک میں پہلا روزہ رکھیں اور ایک ہی دن یکم شوال کوعیدالفطر منانے کے موقف میں آجائیں اور کسی صورت ملت اسلامیہ میں انتشار کو راہ پانے کاموقع نہ مل پائے ۔ یہ کام اس قدر مشکل نہیں جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔ اصل میں منظم پلاننگ کے فقدان کی وجہ سے ان مسائل کا وجود ہے۔ورنہ دنیا پرست لوگ اپنے کام کے منصوبے کس طرح سالوں پہلے تیار کرکے ان کو سو فی صد کامیاب کرتے ہیں، اس کی کئی مثالیں ملیں گی۔ مثلا ًکرکٹ بورڈ کی مثال لیجئے ۔یہ اپنی عالمی ٹیموں کے درمیان میچوں کے انعقاد کی جو منصوبہ بندی مہینوں پہلے کرتے ہیں وہ کس قدر منضبط ہو تے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے ہاں یہ بات بھی طے ہوتی ہے کہ موسم بدل جائے یا بارش ہوتو میچ کا کیا رخ ہونا چاہیے۔ہم دین کے ماننے والوں کو رویت ہلال جیسے معاملوں ہی میں نہیں دیگر دینی معاملات میں بھی ان سے بہترپلاننگ کا سلیقہ آنا چاہیے جسے دیکھ کر دنیا حیران رہ جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ ہم سے ممکن نہیں۔ حج کے موقع پر ہمارے سعودی بھائیوں نے حج کے مواقع پرلاکھوں افراد میں جو نظم وضبط قائم کر رکھا ہے، کیا اس پر دنیا انگشت بدنداں نہیں؟ کیا کوئی دوسری قوم اپنے عوام کو کسی تیرتھ یا Pilgrimage میں ایسی ڈسپلن اور ایسی پاکیزگی فراہم کر سکی ہے، جو حج کے موقع پر نظر آتی ہے؟ پھر ہم ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے دینی معاملات میں ایسے ہی مظاہرے کی راہ میں کیا چیز رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔؟
……مسلم پرسنل لا بورڈ یا دیگر نمائندہ مسلم اداروں کو اس معاملے میں دلچسپی لینے پر آمادہ کیا جائے اِس لیے کہ عیدین کا معاملہ اس اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل بن گیا ہے کہ ٹوٹتی بکھرتی ملت کے عام طبقوں میں اجتماعیت کا احساس دلانے کا یہی ایک موثر ذریعہ باقی رہ گیا ہے۔نیز اس لیے بھی کہ عید الفطر کے اس انتشار سے ہونے والی ہماری جگ ہنسائی کے چرچے کرنے سے میڈیا کو باز رکھا جا سکتا ہے۔
……وہ تجارتی گروہ جن کا کاروبار رمضان اور عیدین کے مواقع پر بہت چمکتا ہے ، جو بجائے خود غلط نہیں،اس بات کاخیال رکھا جائے کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر یہ گروہ اثر انداز نہ ہو سکیں۔البتہ ان تجارتی گروہوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی رہنمائی کی جانی چاہئے کہ وہ کیسے اپنے آپ کو ان فیصلوں کے بارآور ہونے میں اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں اور کیسے انہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ بھی مزید تجاویزملت کے وہ خیرخواہ قلم کار، جنہیں ملت کے ان حساس مسائل کا احساس ہے، غوروفکر کے ذریعہ پیش کر سکتے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ ملت کے ذمہ دارحضرات زندگی کے ہر معاملے میں ملک گیر اتحاد و اتفاق کی ایسی ہی حکمت عملی کا مظاہرہ کریں گے۔دنیا کی نظریں اب ہم پراور ہمارے دین پر مرکوز ہو چکی ہیں۔ایک پل کا توقف بھی اگر ہم سے سرزد ہو جائے تو تاریخ کے صفحات ہم پر ماتم کریں گے۔
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83346 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.