آپ کی عملی زندگی اور مذہبی جدوجہد پاکستانی خواتین کیلئے مشعل راہ کی
حیثیت رکھتی ہے
جمعیت علماءپاکستان شعبہ خواتین کی صدر، سابق ممبر قومی اسمبلی اور اسلامی
نظریاتی کونسل کی رکن، عظیم مذہبی سکالر ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی7اگست
2013ءبمطابق 28 رمضان المبارک کو76 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر
گئی،ڈاکٹر فریدہ احمد طویل عرصے سے علیل اور ایک مقامی اسپتال میں زیر علاج
تھیں، بدھ کو علی الصباح اُن کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اوروہ اپنے خالق حقیقی
سے جاملیں،اُن کے سوگواروں میں شریک حیات و ماہر معاشیات پروفیسرمحمد احمد
صدیقی ، دو صاحبزادے ڈاکٹر طلحہ صدیقی اورڈاکٹر جنید صدیقی کے علاوہ ایک
صاحبزادی سمعیہ صدیقی شامل ہیں۔
ڈاکٹر فریدہ28 جون1935ءکو بھارت کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئیں، انھوں نے
1958 میں پوسٹ گریجویٹ کیا،آپ اعلیٰ فاضل بریلوی حضرت شاہ احمد رضا بریلوی
کے خلیفہ خاص مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبد العلیم صدیقی کی بیٹی اور قائد
ملت اسلامیہ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی ہمشیرہ تھیں، انہوں نے
ایم اے کرنے کے بعد اپنے والد کی خواہش پر عالمہ کا کورس مکمل کیا اور بعد
میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ، آپ نے متعدد کتابیں بھی تصنیف کیں،آپ ویمن
اسلامک مشن کی سربراہ کے علاوہ مختلف اسلامی اور تعلیمی اداروں سے وابستگی
کے ساتھ جامعہ کراچی سنڈیکیٹ کی رکن بھی تھیں،آپ کی نماز جنازہ جمعرات
8اگست کوبعد نماز ظہر حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں جمعیت
علمائے پاکستان کی سپریم کونسل کے رکن حضرت علامہ مفتی مولانا جمیل احمد
نعیمی صاحب کی اقتداءمیں ادا کی گئی،جس میں چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی
مفتی منیب الرحمن اورعلامہ جمیل احمد نعیمی سمت شہر کی مشہور و معروف سماجی
و سیاسی شخصیات کے علاوہ عوام کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی بعد میں انہیں
ڈیفنس گزری کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے
قائم کردہ ادارے ورلڈ اسلامک مشن کے زیر انتظام کراچی میں ایک ویمن اسلامک
مشنری یونیورسٹی کی چانسلر بھی تھیں، جہاں خواتین کو جدید عصری علوم کے
ساتھ ساتھ دینی علوم بھی پڑھاے جاتے ہیں،ڈاکٹر فریدہ احمد نے پہلی کلاس سے
لے کر پانچویں کلاس تک نصاب تعلیم بھی تیار کیا تھا جو متعد د سکولوں میں
پڑھایا جاتا ہے۔آپ نے براعظم یورپ اور افریقہ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کا
تبلیغی دورہ بھی کیا،آپ 1970 ءمیں عملی سیاست میں شامل ہوئیں اور تاحیات
ملک میں نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے متحرک رہیں اوراس سلسلے میں
آپ نے خواتین میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے لئے ملک بھر کے مختلف علاقوں
میں خواتین کے ہزاروں اجتماعات سے خطاب بھی کیا،ڈاکٹر فریدہ احمدصدیقی نے
تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسل اور تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
کے دوران بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا۔
ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی 2002 کے انتخابات میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے
خواتین کی مخصوص نشست پر ممبر قومی اسمبلی بنی اور اسمبلی میں انہوں نے
نومبر 2006ء میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ حقوق نسواں بل کی شدید مخالفت
کرتے ہوئے اسے” فحاشی پھیلاؤ بل “قرار دیا اور احتجاجاً سب سے پہلے اسمبلی
کی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ” تحفظ حقوق نسواں بل غیر آئینی
اور قرآن و سنت کے منافی ہے اور آئین کے مطابق اسمبلی قرآن و سنت کے منافی
قانون سازی نہیں کر سکتی۔“انہوں اسلامی تعلیمات کے منافی اِس بل کے خلاف
متعدد کتابچے بھی تحریر کرکے شائع کرائے۔
ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی نے بھرپور عملی زندگی گزاری، جس کے دوران انھوں نے
مختلف ممالک کے دورے کیے اور رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئیں، اسلامک
یونیورسٹی انٹرنیشنل کی چانسلر ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی2002 کے عام انتخابات
میں مجلس عمل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں،آپ اسلامی نظریاتی
کونسل کی رکن بھی تھیں اور ویمن اسلامک مشن نامی تنظیم کی روح رواں تھیں،
آپ سندھ زکوٰة کونسل کے ساتھ جنرل مشرف کے دور میں حدود آرڈیننس کے تنازع
کے حل کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کی رکن بھی رہیں،ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی
فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتی تھیں اور ہر سال درجنوں اجتماعی
شادیوں کا اہتمام کرتی تھیں،آپ نے کشمیر میں زلزلے اور سیلاب کے دوران
متاثرین کی امداد میں اہم کردار ادا کیا ، ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی انتہائی
متقی،مہمان نواز اور با اخلاق خاتون تھیں اور فارغ اوقات میں قرآن پاک کی
تلاوت کے علاوہ دینی کتابوں کا مطالعہ پسند کرتی تھیں۔
کہتے ہیں کہ ایک کامیاب مرد کی فتوحات کے پیچھے ایک خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے
،یہ خاتون کبھی بیوی کی شکل میں ہوتی ہے اور کبھی ہمشیرہ کی صورت میں۔ اس
کی ایک بڑی مثال بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ کے ساتھ
ہر قدم پر ان کی عظیم ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی ہے ،جن کے بھرپور تعاون
سے قائداعظم علیہ الرحمہ پاکستان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ دوسری بڑی اور
ناقابل فراموش مثال عزت مآب محترمہ ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی کی ہے جن کی
ثابت قدمی نے مولانا شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کی لیڈر شپ کو چار چاند
لگادیئے، 1977ءکی تحریک نظام مصطفی کے دوران جب اس وقت کی حکومت نے تحریک
کے ہیرو اور قائد مولانا شاہ احمد نورانی علیہ الرحمہ کو ان کی عوامی
مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر جیل میں بند کردیا تو یہ ڈاکٹر فریدہ ہی تھیں جو
جون، جولائی کی شدید گرمی میں قومی اتحاد کے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے اسلام
دشمن عالمی سامراج اور نظام مصطفی کے دشمنوں کو للکارتی رہیں، انہوں نے
نشتر پارک کراچی کے لاکھوں افراد کے جلسہ میں تاریخی جملہ کہا کہ” حکمرانو!
ڈرو اُس وقت سے جب میر ابھائی جیل سے باہر آیا تو انقلاب آجائے گا۔“ یہی
ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی تھیں جنھوں نے پاکستانی خواتین کی رہنمائی کرتے
ہوئے تعلیم، انسان دوستی اور سماجی خدمت کے شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام
دیں،بے شک ڈاکٹر فریدہ احمد صدیقی کی عملی زندگی اور مذہبی جدوجہد پاکستانی
خواتین کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور آپ کی دینی اور قومی خدمات
ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، ڈاکٹر فریدہ کی وفات سے ملک ایک مدبر خاتون اور
مخلص دینی سکالر سے محروم ہو گیا ہے۔ |