جاتے ہوئے کہتے ہو قیا مت میں ملیں گے

 جناب امین الدین شجا ع الدین مرحوم

اس دنیامیں حیات جاوداں کسی کو میسر نہیں جو بھی آیا اس نے اپنے وقت مسمیٰ پر دائمی مفارقت دی لیکن محبین اور متوسلین بھی مشیت کے اس فیصلہ کو اظہارتشکر کے ساتھ قبول کر تے رہے پھر کسی کی کیا مجا ل کہ وہ -مشیت کے فیصلہ پر دم مارے یا لب کشا ئی کرے-۔ بظا ہر ہلکی سی اس تمہید کے بعدجو مکمل طور پر حقیقت پر مبنی ہے او ر ہم اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن اس اعتراف کے با و جود بھی کچھ لو گ ایسے ہوتے ہیں جن کے چلے جا نے سے مد تو ں ان کا خلا باقی رہتا ہے۔ وقت اور حالات کے سا تھ ان کی کمی کا احساس کر کے ان کو خراج عقیدت پیش کیا جا تا ہے ، ہمار ے شجا ع صاحب مر حوم بھی یقینی طور پر ہماری طرف سے خراج عقید ت کے مستحق ہیں کیو نکہ وہ ہما رے عہد کی ان یگانہ ہستیوں میں سے تھے جن کا شمارزمانہ کے تناسب کے اعتبارسے اتنا کم تھا کہ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور اب کمیاب ہو تے ہوتے ایسے لو گوں کی تعداد نا یا ب کے درجہ میں پہنچ گئی واقعہ یہ ہے کہ اگر ہم نے نئی نسل کے سا منے ان شخصیتوں کا صحیح تعارف نہیں کرایا تو یہ ایک بڑی نا انصافی ہو گی کیونکہ نئی نسل ان کی سیرت و کردارسے یکسر محروم ہو جائیگی ۔جسکا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ماضی حال سے جدا ہو جا ئیگا کیونکہ حا ل اور مستقبل سے آگا ہی ماضی کو جا نے بغیر ممکن نہیں ۔ جبکہ حال اور مستقبل کوجوڑ نے وا لی یہی وہ عظیم شخصتیں ہیں جن کی فکر انگیز تحر یروں اور نگاہ بلند تجربات سے ہم ا پنے حال کو ماضی کے آئینے میں نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ ما ضی میں ہو ئی غلطیوں سے عبرت بھی حا صل کر تے ہیں پھر آج جو شخصیتں ہمارے درمیان سے چلی جا تی ہیں ان کا نعم البدل تو کیابدل ہی مشکل سے ملتا ہیــــــــــــ

امین شجاع صاحب سے پہلی مر تبہ شرف نیا ز دارالعلوم ندوۃالعلماء میں حاصل ہو ااس کے بعدبرابر ان سے تعلق رہاپھر یہ تعلق خاطر ان مرحلوں تک پہنچ گیا جہا ں یہ اعتبا ر اور معتمد علیہ کی سند حاصل کر لیتا ہے ان حالات میں مسلسل دو سال تک ان کی صحبت میں رہا جس میں ان کی شخصیت کو قر یب سے دیکھنے اور استفادہ کر نے کا بھر پور مو قع ملا۔اس طویل مدت میں امین شجاع صاحب سے جو کچھ سیکھا اور حاصل کیا اور پھر اس پر مز ید ان کی خاص توجہ اور شفقت نے بار احسان اتنا کر دیاکہ وہ ہمیشہ لوح دل پر نقش بن کر رہیگا۔ اور ان کی یہ غیر معمولی شخصیت ہر ایک کے لئے اسی طرح تھی جس سے بھی ملتے بڑی خندہ پیشانی، شرافت نفسی ،تواضع و انکساری کا ایسا مظاہرہ کر تے کہ ان سے ملنے والاان کی شخصیت سے متا ثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔جبکہ ہر ایک کے سا تھ ان کا معا ملہ یہی ہو تا۔

امین شجاع صاحب نے اپنی پوری زندگی جس تنہائی اور خاموشی سے گزاری اس کے پیچھے یقینا بہت سی وجوہات رہی ہو نگی یا پھر طبعاً ہی ان کی طبیعت تنہا ئی پسند اور کم گو وقع ہوئی یا دائمی امراض کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ وہ اپنی پوری زندگی ’’ ـمجرد ؛؛ رہے بہر حال کچھ بھی ہو۔لیکن اکثر وبیشتر آ پ خاموش اور تنہا رہتے ۔اپنے دل کی کو ئی بات یا اپنا کو ئی راز وہ شاید وباید کسی سے بیان کر تے ،لیکن جب ان کی یہ تنہائی اور سکوت طویل ہوجاتا۔ توپھر وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر نے کے لئے حلقہ احباب کا سہا رالیتے جہاں پھرخوب مزہ لے لیکرگپ شپ چلتی خود بھی ہنستے اور حلقہ ٔیاراں کو بھی ہنسا تے۔ خوب خوش ہوتے اور سب کے ساتھ خوش مزاجی اور خندہ لبی سے پیش آتے لیکن چہرے پر پھر بھی نقاہت اور حسرت و اندوہ کا غلبہ صاف دکھا ئی دیتا۔

امین شجاع صاحب کی طبیعت نہا یت حق پسند اور بذلہ سنج واقع ہوئی۔جس کی وجہ سے دوران گفتگو اگرکوئی نا گواربات ان کے سامنے آجاتی یا کوئی ایسا واقعہ جو انکے مزاج اور انکی حساس طبعیت کے خلاف ہو تو ان سے بغیر کہے نہیں رہا جا تا تھاجو کچھ کہنا ہو تا ہمعصروں کی خردہ گیر ی اور طعن وتعریض کی پرواہ کیے بغیر کہہ د یتے لیکن جس سلیقہ سے کہتے اس میں پاس و لحاظ کے سا تھ ساتھ تنقید، تضحیک اور تنقیص کی حدوں کو بر قرار رکھتے ہوے ایسا سنجیدہ طنز کر تے کہ گو یا انہو نے کسی کے نشترنہیں چبھو یابلکہ وہ زخموں پراپنے ہا تھو ں سے مرہم لگا رہے ہیں جس کا احسا س صر ف مر یض ہی محسو س کرسکتا ہے یا بقول شاعر
وہ کہیں اورسنا کر ے کوئی

قدرت نے امین شجاع کے اندر بہت سی ایسی خصو صیا ت ودیعت رکھی تھیں جو انہیں اپنے معا صرسے ہمیشہ ممتاز رکھتی تھی اور ان کی اس امتیا زی شان کا ان کے ہمعصر بھی اعتراف کر تے ہیں اور ان کے تعلق سے بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے اور اس میں کو ئی مبا لغہ بھی نہیں کہ وہ دارالعلوم ندوۃالعلماء کی اس سلسلہ کی کڑی ہیں جن ہوں نے عربی اور اردو زبان و ادب کے میدان میں ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اور خاص طور پرعالم اسلام میں اپنی صلا حیتوں کا لوہا منوایا اور پھر اس کے توسط سے عزت اور شہرت کے وہ منازل طے کئے کہ دارالعلوم ندوۃالعلما ء ا ورمعما ر ندوہ کی معا صر دنیا میں ایک ایسی شناخت اور پہنچان ہوئی جس کی کو ئی نظیر نہیں-

امین شجاع صاحب نے اپنی حیات مستعار کا اکثر حصہ صحافت میں لگا یا اور اس پو ری مدت میں ان کے قلم سے جو کچھ نکلاوہ ادب اور صحافت کے حسین امتزاج کے ساتھ ساتھ قومی اورملی مسائل کے حوالے سے بھی نقش بدیع ہو تا آپ کی تحریروں میں جہاں ایک طرف استدلال کی قوت، دنیا کے بدلتے ہو ے حالات پر گہری نظر،اور اس کے ساتھ ساتھ فکر وتخیل اسقدر بلندکہ بقول علامہ اقبالؒ ’’تو شا ہیں ہے پرواز ہے کام تیرا‘‘ کا مصداق غرض وہ تمام خوبیاں اور جھلک ا ٓپ کی تحریروں میں دکھائی دیتی ہیں جو ایک کہنہ مشق صحافی اور صاحب طرز ایب میں دکھا ئی دیتی ہیں۔ اور یقیناتھے بھی آپ ایک کامیاب صحافی اور ادیب۔ اور صحافت اور ادب کی تا ریخ میں ہمیشہ آپ کو ایک کامیاب صحافی اور ادیب کے طور پر یاد رکھا جا ئیگا اور اسی طرح ایک کامیاب صحافی کے لئے جن تخلیقی اور ارتقائی اصولوں کی اشد ضرورت ہو تی ہے اس کے حوالے سے بھی آپ کا نام زندہ رہیگا کیو نکہ کبھی آپ نے ان چیزوں سے جو صحافت اورادب میں تخلیقی صلاحیتوں کو متا ئثر اور صحافت کے وقار کو مجروح اور داغدار کر تی ہیں(تملق پسندی جرأت اورہمت کی کمی وغیرہ) سمجھو تا نہیں کیا-

پھر ان مذکورہ تمام نازک مر حلوں سے گزر کر آپ نے صحا فت میں وہ چیزیں ابداع کی ہیں جو معا صر صحا فت میں ایک امتیا زی شان رکھتی ہیں اور کچھ گراں بہا تخلیقات جو کتابی شکل میں منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ جن میں نقوش فکر و عمل،روبرو، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم،وغیرہ ان کی عظیم شخصیت کی گوا ہی ا ور ہما رے دعو ے کی تصد یق کر تی رہیں گی اور آپ تاریخ میں آرائش صفحات پر صدیوں آبروئے صحافت بن کر آنے والی نسلوں کی فکری وادبی آبیا ری کر تے رہیں گے -

کچھ لو گوں کا محض تنگ نظری اور نیم معلومات کی بنیاد پرامین شجاع صا حب کے تعلق سے یہ خیا ل ہے کہ اہل ندوہ نے امین شجاع کے ساتھ سلو ک کے حوالے سے کوتاہی اور ان دیکھی کا مظاہرہ کیایہ محض ایک مفرو ضہ ہے جس کا سچا ئی اور حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں پہلی بات وہ لوگ جن کا خیال یہ ہے شاید انہیں اہل ندوہ کی غیر معمو لی وسعت فکر اور یگانگت کا سہی اندازہ نہیں دوسری بات امین شجاع صاحب کا بچپن اور جوانی دارالعلوم ندوۃالعلماء میں ہی گزرا پہلے وہ ایک طالب علم کی حیثیت سے دارالعلوم ندوۃالعلماء میں علمی تشنگی بجھاتے رہے پھر وہیں وہ اہل ندوہ کی بے پناہ محبتوں اور شفقتو ں سے مدرس ہوے پھر انہی کے طفیل وہ دارالعلوم ندوۃ العلما ء کا شا ہکا ر علمی،ادبی اور صالح فکری روایتوں کا ترجمان تعمیرحیات کے مدیر ہوے ا ور اسکے ساتھ سا تھ ایک منجھے ہوے صحافی کیلئے جن تخلیقی اور ارتقائی صلا حیتوں کی ضرورت ہو تی ہے وہ بیک وقت آپ کو میسر رہی تو کیا اس میں اہل ندوہ کی غیر معمو لی توجہ ، عزت او ر حو صلہ افزائی کا کو ئی کردار نہیں وہ اگرآسمان سخن پر آفتاب اور مہتاب بن کرچمکے تو اس میں ان کی محنت اورلگن کے ساتھ سا تھ ندوہ اور اہل ندوہ ضرور شامل ر ہیں گے-

دوسری اہم خصو صیت امین شجاع کے اندر یہ تھی کہ وہ جس طرح صحافت میں یگا نہ تھے اسی طرح وہ فن خطابت میں بھی اپنی مثال آپ تھے ان کا تقریری اسلوب اور گلوگیر آوازاور حسرت و اندوہ سے بھرا ہوا لہجہ جس میں نہ ان کی آواز اونچی اورنہ دھیمی بس ہلکے سے طنز کے ساتھ سامعین کے کانوں سے ٹکراتی تو ہر ایک آنکھ نیم آبدیدہ ہو جاتی اور ایسا محسوس ہو نے لگتا کہ تقریر نہیں بلکہ وہ عمر رفتہ کی غموں کی کہانی سنا رہے ہیں اور آج بر سوں کے رکے ہوے آنسوں ابل پڑینگے پھر دوستوں کی طنز وتعریض کی پرواہ کئے بغیر اپنا لمبا سکوت توڑتے ہوے ہل کی سی تنقید کے ساتھ ا ن کی یہ جگر دوز آوازلطیف احسا سات کے ساتھ جس میں درد کا دھواں آنسووں کو زبر دستی آنکھوں تک کھنیچ لاتا اورسا معین پر رقت کی کیفیت طاری ہوجاتی پھر ٹوٹے ہوے احساس کے ساتھ وہ اپنی بات کو اس انداز سے اختتام کرتے بقول شاعر
شکوہ کرنے کی خو نہ تھی اپنی
پر طبیعت ہی کچھ بھر آئی آج

القصہ امین شجاع صا حب کی زندگی میں ان کا واسطہ باد صبا سے کم اور بد سموم سے زیادہ پڑالیکن یہ مرد آہن اورگو ہر ے بے بہا تمام حالات کا مقابلہ حسن خو بی اور جواں مردی سے کرتے ہوے زندگی کی پچاس بہا ریں دیکھ کر اس خاکی دنیاکو اپنے وجود سے ہمیشہ کے لئے محروم کر گیااور اس دنیا کی طرف چلا گیاجہاں دنیا کے جھمیلے اور رات دن کی تھکادینے والی مصروفیات ،حاکم اور محکوم کا فرق، دوستوں اور احباب کی ناز برداری ،اپنے معاصر کی نکتہ چینی، حلقہ یاراں کی سر گو شیاں اور شکا یتں ،ذمہ داروں کے تیئں ذمہ د اریوں کے تعلق سے جواب دہی احساس پھر مزید اس پر ان کی چشم و ابرو کے کچھ بد مزگی پیدا کر نے والے اشارے،،عزیز واقارب اور بھائی بہنوں کی ناز آفر یں اب سب کچھ ختم کر کے رحمت اور ربوبیت والے کے دربار میں جہاں صرف ایک حاکم کی حاکمیت ہو گی جہاں ہر معاملہ عدل و انصاف کے ساتھ ہو گا اب وہاں آپ آسودہ خاک ہو چکے ہیں اﷲ مغفرت فر مائے اور ان کی قبر کو عنبریں کرے بحرحال امین شجاع صاحب کی موت صحافت اور زبان وبیان کی بے لوث خدمت کے تعلق سے ایک عظیم سانحہ ہے جس کو یقیناً عظیم سانحہ کی طر ح محسوس بھی کیاگیاہم تمام اہل ندوہ سے اور خاص طور ذ مہ دار حضرات سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ امین شجاع صاحب کی شخصیت پر تعمیر حیات کی خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا جائے جو ان کی شخصیت کو سہی خراج عقیدت ہو گا، نظیر اکبرآبادی کے اس شعر کے ساتھ
ہم کیوں نہ اپنے آپ رولیویں جیتے جی
اے دوست کون پھر کرے ما تم فقیر کا
Fateh Muhammad
About the Author: Fateh Muhammad Read More Articles by Fateh Muhammad : 30 Articles with 29738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.