آج پاکستان میں لاکھوں
نہیں کروڑوں غریب،یتیم ،معصوم بچے سکول جانے اور کھیلنے گودنے کی عمر میں
انتہائی سخت قسم کی مزدوری کرتے ہیں ۔6سے14سال کے یہ معصوم پھول ہوٹلوں ،ورکشاپوں
،شاپنگ پلازوں ،امرا کے گھروں ،سڑکوں ،زیرتعمیر عمارتوں پر مزدوری کرتے ہیں
اور کئی لاکھ بچے بھیک بھی مانگتے ہیں ۔حکمرانوں کے بلند و بانگ دعوے ،
بڑکیں اور بہت سی این جی اوز جو بچوں کے حقوق کی دعویدار ہیں نیند کی گولی
کھاکر گہری نیند سوجاتے ہیں جبکہ یہ مزدور بچے کسی پارک یافٹ پاتھ پر بغیر
نیند کی گولی کھائے مردوں کی طرح سوجاتے ہیں ۔سمجھ نہیں آرہی کہ نو منتخب
گونر پنجاب جناب چودھری سرور کے بیان کو تازہ ہوا کا جھونکا قرار دوں یا
ماضی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تازہ ہوا کا دھوکہ ہی سمجھو؟گونر پنجاب
کا یہ کہنا کہ تعلیمی ایمرجنسی لگانے کے حق میں ہوں،اُن کے مطابق پاکستان
میں اس وقت 70لاکھ ایسے بچے ہیں جن کی عمر سکول جانے کی ہے لیکن سکول تک
انکی رسائی ممکن نہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو ہم نے سکولوں تک لانا
ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ ہرسال دس لاکھ ایسے بچوں تک تعلیم کی فراہمی
یقینی بنائیں،نومنتخب گونر نے کہا کہ وہ اس مقصد کے لئے اپنے غیرملکی
رابطوں کوبھی استعمال کریں گے۔اتنا اہم موضوع زیر غور لانے پر بڑی مہربانی
گونر صاحب اﷲ تعالیٰ آپ کو مزید ہمت دے تاکہ آپ اُن ستر لاکھ بچوں تک تعلیم
کی فراہمی کے خیالات کو عملی جامہ پہنا سکیں ۔لیکن معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ
ایک سال میں دس لاکھ بچوں تک تعلیم کی فراہمی ممکن بنانے کے حساب سے ستر
لاکھ بچوں کو تعلیم فراہم کرنے میں سات سال لگ جائیں گے جبکہ آپ پانچ سال
کے لئے گونر منتخب ہوئے ہیں ۔کیا سات سالوں میں مزید سترلاکھ یا اُس سے بھی
زیادہ بچے پیدا نہ ہوجائیں گے؟خیر گونر پنجاب بہتر سمجھتے ہوں گے کہ غریب
لوگوں کے بچوں کو کب اور کتنی حد تک تعلیم حاصل کرنی چاہئے ۔راقم تو یہ
جانتا ہے کہ پاکستان میں لاکھوں نہیں کروڑوں بچے اسکول جانے کی عمر میں
محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے غریب اور بیمار والدین اور بہن بھائیوں کا
پیٹ پالتے ہیں ۔ایسے بچے اس قدر بد نصیب ہیں کہ مزدوری زیادہ کرنے کے
باوجود اُجرت کم لینے پر مجبور ہیں ۔شیش محلوں میں بسنے والی مخلوق کیا
جانے کہ غریب والدین اپنے معصوم پھولوں کوکس اذیت سے گزر کر
ہوٹلوں،ورکشاپوں یا کارخانوں میں مزدوری کرنے بھیجتے ہیں ۔وہ کون سے بد
نصیب والدین ہوں گے جو اپنے بچوں کوسکول جانے کی عمر میں سخت ترین مزدوری
کروانے کی خواہش کریں؟یقینا غریب سے غریب والدین بھی اپنے بچوں کو تعلم
دلوانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں اس کے لئے چاہے اُنہیں خود بھوکہ کیوں نہ
رہنا پڑے ۔قارئین محترم ذرہ غوروفکر کریں کس مجبوری کے عالم میں والدین
اپنے معصوم بچوں کو مزدوری پر بھیجتے ہوں گے ۔ان بد نصیب بچوں کوکام کے
ساتھ ساتھ سخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں ،سکولوں میں تو جسمانی سزاؤں کی
ممانت ہے لیکن مزدوری کرنے والے بچوں کے لئے اس طرح کی کوئی قانون سازی
نہیں کی گئی ۔میں اکثر اپنے ہمسایہ میں پنکچر کی دکان پر 10سالہ دانش کو
دیر تک مرغا بنا دیکھتا ہوں تو اُس کے استاد سے درخواست کرتا ہوں کہ جناب
بچے کو مرغا کیوں بنایا ہے آج اس نے کیا غلطی کی ہے؟دانش کے اُستاد کا
ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے امتیاز بھائی یہ دیر سے آیا ہے یہ سزا اسے وقت
پر دکان پر لانے کے لئے دیتا ہوں ۔یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتاہوں کہ دانش
پنکچر کی دکان پر اُجرت کے لئے کام نہیں کرتا بلکہ بغیر اُجرت کام سیکھنے
آتا ہے ۔مزدور بچوں پر جنسی تشدد کے علاوہ بھی ہر طرح کے مظالم ڈھائے جاتے
ہیں ۔سکول جانے والے بچوں کی صحت و صفائی کا خیال بھی رکھا جاتا ہے جبکہ
مزدور بچوں کاصحت و صفائی کی سہولتوں کے ساتھ دور کا بھی کوئی واستہ
نہیں۔یہ بیچارے بیماری کے عالم میں بھی کام کرتے ہیں اور اکثرعلاج نہ ہونے
کی وجہ سے معذورہوجاتے ہیں یاپھرموت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے
کہ آج کے جدید دور میں غریب کو انسان ہونے یاجینے کا کوئی حق نہیں
رہا۔مزدور بچے کیڑوں مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان
کاروشن مستقبل پر کوئی حق نہیں۔اسلام ہمیں غریبوں ،مسکینوں اور حقداروں
کاخیال رکھنے کادرس دیتا ہے حاص طور پرخوشی کی مواقع پر یتیم ،غریب بچوں کو
اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا درس دیتاہے ۔عید کا موقع ہے ہمیں اپنی حیثیت
کے مطابق اپنے ارد گرد بسنے والے غریب ،یتیم بچوں کو عید کی خوشیوں میں
اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔اگر قیمتی چیزیں خرید کر نہیں دے
سکتے تو کوئی بات نہیں کوئی سستی چیزاور تھوڑا سا وقت تحفے میں دے کر ان
معصوموں کو اپنی خوشیوں میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے ۔اﷲ تعالیٰ تو
ہمیں دوسروں کے لئے بھی وہی چیز پسند کرنے کا حکم فرماتا ہے جو ہمیں اپنے
لئے پسند ہو لیکن ہمارے لئے آسانیاں پیداکرنے کے لئے بہت سی چھوٹیں بھی
دیتا ہے اس لئے اگرآپ عید پر اپنے بچے کے لئے ایک ہزار روپے کے کپڑے خریدتے
ہیں تو کوشش کریں آٹھ سو روپے کے اپنے بچے اور دوسو روپے کے کپڑے کسی غریب
،یتیم بچے کے لئے خرید کر اُسے بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرلیں ہوسکتا ہے
اس عمل سے ہماری آخرت سنور جائے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عید کے دن نبی کریم
ؐمسجد جارہے تھے کہ راستے میں کچھ ایسے بچوں کوکھیلتے دیکھا جنہوں نے اچھے
کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔بچوں سے سلام دعاکے بعدآپؐآگے تشریف لے گئے تووہاں ایک
بچے کواُداس بیٹھے دیکھا۔آپؐ نے اس کے قریب جا کرپوچھا تم کیوں اُداس اور
پریشان ہو؟اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔اے اﷲ کے رسول ؐمیں یتیم ہوں میراباپ
نہیں ہے،جومیرے لئے نئے کپڑے خریدتا،میری ماں نہیں ہے جو مجھے نہلاکر نئے
کپڑے پہنادیتی اس لئے میں یہاں اکیلا اداس بیٹھا ہوں۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
اسے لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے فرمایا
’’اس بچے کو نہلا دو‘‘اتنے میں آپؐ نے اپنی مبارک چادر کے دو ٹکڑے کردیے ۔چادر
کا ایک ٹکڑا شلوار کی طرح باندھ دیا اور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ
دیاگیا۔بچہ جب نہلاکر نئے کپڑے پہن کر تیار ہوگیا تو آپؐ نے بچے سے فرمایا
آج تو پیدل چل کر مسجد نہیں جائے گابلکہ میرے کندھوں پرسوار ہوکر جائے
گا،آپؐ نے یتیم بچے کو اپنے کندھوں پر سوار کرلیا اور مسجد کی طرٖف روانہ
ہوگئے راستے میں وہ مقام آیا جہاں بچے نئے کپڑے پہنے کھیل رہے تھے جب اُن
بچوں نے دیکھا وہ یتیم بچہ جو اکیلا اُداس بیٹھا تھا رحمت دوعالم حضرت محمدؐ
کی کندھوں سوار ہے تو کچھ کے دلوں میں خیال گزرا کہ کاش وہ بھی یتیم ہوتے
تو آج نبی کریمؐ کے کندھوں کی سواری کرتے ۔یہاں تک کہ سرکار دوعالمؐ نے اُس
بچے کو اپنے ساتھ ممبر پر بٹھایا اور فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے
گااور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پیرے گا،اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں
گے اﷲ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔ہمیں بھی
نبی کریمؐ کی پیروی کرتے ہوئے عید کے موقع پر اپنے ارد گرد بسنے والے
غریب،یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے اور
ہمیں کل روز قیامت آپؐ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے آخر میں راقم کی طرف سے
تمام اہل وطن کو دلی عید مبارک |