ہلالِ عید ہماری ہنسی اُڑاتا ہے!

عام انتخابات کے بعد حکومت بھی بن چکی اور صدارتی انتخاب بھی ہوچکا۔ مسائل کی سیاہ رات میں گِھرے ہوئے لوگوں کو جس سَحر کا انتظار تھا اُس کے آثار اب تک ہویدا نہیں ہوئے۔ کیسے کیسے سپنے سجائے تھے مگر آنکھوں کو ملا کیا؟ وہی ویرانی اور بے یقینی۔ دِل کا عجیب عالم ہے۔ جو کچھ دیکھتا ہے اُسے ماننے کے لیے تیار نہیں مگر ماننا تو پڑے گا۔ دِل کے ساتھ بھی تو کچھ اچھا نہیں ہوا۔ ؂
دِل شاد تھا کہ پُھول کِھلیں گے بہار میں
مارا گیا غریب اِسی اعتبار میں!

اب کوئی کِس کے آگے روئے؟ جمہوریت کے نام پر ایک بار پھر آنکھوں دیکھی مَکّھی نِگلی ہے، ایک بار پھر فریب کھایا ہے۔ اور فریب بھی ایسا کہ رات کی سیاہی دُور سے دِن کے اُجالے کی سی دِکھائی دی۔ ایک بار پھر آنکھ بند کرکے فیصلے کئے گئے۔ ووٹ کے ذریعے جس نوعیت کی تبدیلی یقینی بنائی جاسکتی ہے وہ اب تک دِکھائی نہیں دی ہے۔ اور اب کیا دِکھائی دے گی کہ پانی ایک بار پھر اپنی پنسال میں آچکا ہے۔ جس طرح گاڑی کا پہیّہ گڑھے میں پھنسنے پر صرف گھومتا رہتا ہے، گاڑی کو آگے بڑھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا بالکل اُسی طرح ہماری سوچ بھی لاحاصل سی ہوگئی ہے۔

عوام نے پانچ سالہ جمہوری دور رو روکر گزارا۔ ایک موہوم سی اُمّید تھی کہ بیلٹ بکس تک جانا نصیب ہوگا تو وہاں سے کِسی بڑی تبدیلی کی راہ سُجھائی دے گی۔ مُلک میں بہت کچھ تیزی سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اِس کے لیے انقلاب چاہیے۔ عوام منتظر ہیں کہ کوئی انقلاب برپا ہو تو ’’آوے ای آوے‘‘ کا نعرہ بُلند کرتے ہوئے اُس کے پیچھے ہولیں۔ یہ سوچنے کی فُرصت کِسے ہے کہ انقلاب برپا ہوتا نہیں، برپا کیا جاتا ہے!
حالات خواہ کچھ ہوں، ہمارے ہاں جو ہوتا آیا ہے وہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ جب یہ حال ہو تو کِسی تبدیلی کی راہ کیسے نِِکلے؟ مسائل خواہ کچھ ہوں، ہم وسائل کے بارے میں سوچے بغیر اپنی اپنی من پسند روش پر گامزن رہتے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی تبدیلی آئے تو کیسے؟ خیر کی صورت نکلے تو کِس طرح؟

ملک کِتنا بدل گیا ہے۔ یہاں بدلنے کو بگڑنے سے تعبیر کیجیے۔ ہمیں اﷲ کی مہربانی سے کیسا شاندار خِطّہ عطا ہوا تھا۔ اِسے زمین کی جَنّت بنانے میں کون سا امر مانع ہوسکتا تھا؟ مگر ہم نے کیا کیا؟ پینسٹھ برس کے عرصے میں اِس پاک خِطّے کو ہم صرف کھاتے آئے ہیں۔ اور یہ بھی اﷲ کے کرم ہی کی ایک شکل ہے کہ اِتنی تندہی اور فُرصت سے کھائے جانے کے باوجود یہ خِطّہ اب تک سلامت ہے!

چند برسوں سے قدرت کا معمول یہ ہے کہ رمضان اور عید کے دنوں میں مون سون کی صورت بارانِ رحمت بھی عطا کرتی ہے مگر ہم ہیں کہ اِس رحمت کو بھی زحمت میں تبدیل کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ تین سال قبل سیلاب آیا تھا یا لایا گیا تھا۔ اُس میں ایک پورا صوبہ ڈوب گیا یا ڈبو دیا گیا۔ لاکھوں ایسے ہیں جو اب تک بحال نہیں ہو پائے ہیں۔ زندگی ایسی مشکل ہوچکی ہے کہ جس کے قدم لڑکھڑائے، سمجھ لیجیے وہ تو گِرا ہی گِرا۔ مگر اے وائے ناکامی! ہوش کے ناخن لینے کا کِسی کو ہوش نہیں۔

اب کے عید پھر بارش کے دنوں میں وارد ہوئی ہے۔ ملک کے بہت سے حصے طغیانی کی زد میں ہیں۔ دریاؤں کی تو بات ہی کیا، ندی نالے تک بپھرے ہوئے ہیں۔ کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں کا بھی بُرا حال ہے۔ اِن بڑے شہروں میں بھی کئی علاقے تالاب بن گئے۔ کروڑوں کے مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ بہتوں کے روزگار کے ذرائع تباہ ہوگئے۔ اب اُنہیں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔

یہ سب اپنی جگہ اور عید کی تیاریاں اپنی جگہ۔ اہلِ وطن نے سوچ لیا ہے کہ جو ہوتا ہے وہ ہوتا رہے، جو کرنا ہے وہ کرتے رہیں گے۔ سوچنے والوں کی پہلے بھی کمی تھی۔ اب تو خیر معاملہ قحط الرّجال کا سا ہے۔ اِس بند گلی سے نکلنے کا راستہ سُوجھتا بھی نہیں اور راستہ بنانے کی ہمت یا توفیق بھی نہیں۔

رمضان کی مبارک ساعتیں اﷲ کی طرف سے نازل کی جانے والی برکات تلاش کرنے کے لیے ہوتی ہیں مگر ہم نے اِن سعید ساعتوں کو رمضان نشریات میں برپا کئے جانے والے تماشوں کی نذر کردیا۔ علامہ اقبالؔ نے برمحل کہا ہے۔ ؂
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

کِس کِس کو روئیے اور کِس کِس کو یاد دلائیے کہ ہم کیا تھے اور کیا کرنا تھا مگر کیا ہوگئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں! زندگی کے بازار کی رونق کبھی ماند نہیں پڑتی۔ پڑنی بھی نہیں چاہیے مگر کِسی کے درد کو محسوس کرنا بھی کوئی بات ہے یا نہیں؟ اِس وقت بھی کروڑوں افراد عید کی تیاریوں میں اِس طرح گم ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ بھی پاکستان کی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی اﷲ کے عذاب ہی کی ایک شکل ہے کہ ہم ٹی وی پر کِسی تباہی اور جانی نقصان کا منظر دیکھتے ہیں اور چند لمحوں کے بعد سب کچھ ذہن سے جھٹک کر پھر معمولات میں گم ہو جاتے ہیں۔ اور معمولات کیا ہیں؟ وہی شگفتہ مزاجی، ہنسی مذاق اور ٹھٹھول۔ جس طرح کوئی دوا کثرتِ استعمال سے اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے بالکل اُسی طرح آفاتِ ناگہانی، دہشت گردی اور جانی نقصان نے بھی ہم پر اثر انداز ہونا چھوڑ دیا ہے۔ جب زمین بنجر ہو جائے تو اُس پر بہترین کھاد، اعلیٰ بیج اور عمدہ پانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

بنجر زمینوں جیسے بے فیض اور بے احساس دِلوں کو زندہ کرنا ہے۔ ایک بار پھر عید کی مبارک ساعتیں ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمیں اِن ساعتوں میں اپنے آپ سے یہ عہد کرنا ہے کہ جو کچھ وطن اور اہلِ وطن پر بیت رہی ہے اُس پر غور کریں گے، درد محسوس کری گے اور معاملات کی دُرستی میں جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ ادا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ بے حِسی کی چادر کو اُتار پھینکنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ وقت وہ نہیں کہ ہم ایک طرف بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں۔ سب کو ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونا ہے۔ بارش میں اپنا گھر سلامت ہے تو پُرسکون ہوکر بیٹھ رہنے کے بجائے اُن کی مدد کا سوچنا چاہیے جن کی دیواریں پانی میں گِھر اور گِرگئی ہیں۔ اپنی سلامتی پر اﷲ کا شکر ادا کرنا اچھی بات ہے مگر جن پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں اُن کے بارے میں سوچنا اور اُن کی مدد کرنا بھی تو اظہارِ تشکر ہی کی ایک صورت ہے!
علامہ اقبالؔ ہی نے کہا تھا۔ ع
ہلالِ عید ہماری ہنسی اُڑاتا ہے

اور سچ تو یہ ہے اب تک ہلالِ عید ہماری ہنسی اُڑا رہا ہے۔ ہم اپنے اعمال سے اُسے ہنسنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ اﷲ ہمیں توفیق دے کہ ہم اِس سِلسِلے کو اب ختم کریں اور کچھ ایسا کریں کہ ہلالِ عید ہمیں دیکھ کر ہنسی اُڑانے کے بجائے شاداں و فرحاں ہو۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483343 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More