آج کل اگر ملک کے حالات پر نظر ڈالیں تو دل کانپ جاتا
ہے کہ آخر یہ سلسلہ کہیں جا کر رکے گا بھی یا نہیں اور آخر کب تک ہم لوگ
قتل کیے جائیںگے ۔ ہر دھماکے کے بعد ہمارے حکمران ایک بیان جاری کر دیتے
ہیں کہ ’’اِن بزدلانہ کا روائیوں سے ہمارے حوصلے پست نہیں کیے جا سکتے‘‘ یا
’’عوام دہشت گردی کا مقابلہ بہادری سے کر رہے ہیں ‘‘ ۔ یہ سب کچھ بجا ہے
لیکن بلند حوصلگی، فخر یا بہادری سے زیادہ بڑھ کر یہ سب کچھ مجبوری کے تحت
ہے۔ حکمران اپنے دورِ حکمرانی اور ممبری میں تو سیکیورٹی کے عظیم الشان
انتظامات کے جلو میں نکلتے ہیں اور یہ سب کچھ نہ ہو تو ملک کو اس کی حالت
پر چھوڑ کر دبئی، انگلینڈ یا یورپ نکل جاتے ہیں اور محفوظ ہو جاتے ہیں بلکہ
وہی سے سیاست اور حکومت چلاتے ہیں لیکن بچارے عوام کہاں جائیں انہیں تو اسی
ملک میں جینا اور مرنا ہے اور اِن کے حکمران تو بہت ہیں، فکر کرنے والے
نہیں ہاں اپنی کمزوری اور نا اہلی دوسروں کے سر ڈالنے کا رواج بڑھتا ہی جا
رہا ہے۔ پہلے یہ الزام تراشیاں مختلف اخبارات کے ذریعے ہوتی تھیں اور اب تو
میڈیا چینلز پر کچھ ایسی بحث ہوتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے کی بات سنتے ہی
نہیں تو سمجھیں گے کیا، بات شخصیات سے آگے نکل کر اداروں تک پہنچ چکی ہے
اور آج کل تو یہ الزام زور پکڑ چکا ہے کہ ملک میں ہونے والا ہر واقعہ خفیہ
اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نا اہلی کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ لاپتہ
افراد انہی کے پاس ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں جیل انہی کی نا اہلی کی
وجہ سے توڑے گئے ، کوئٹہ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی انہی کی غفلت کا نتیجہ
ہے غرض کچھ بھی ہو جائے اس الزام کا رخ ان اِداروں اور ایجنسیوں کی طرف موڑ
دیا جاتا ہے اور طرہ یہ کہ اِن کے حق میں بات کرنے والوں کو آئی ایس آئی
اور فوج کا ایجنٹ قرار دے کر قابل نفرت قرار دیا جاتا ہے جبکہ سی آئی اے
اور را کے ایجنڈے پر کام کرنے والے بڑے سکون سے مصروف عمل رہتے ہیںاور
دوسری طرف دہشت گرد اپنی کاروائیوں اور قوم کے قتل عام میں مصروف ہیں۔
چھوٹے شہروں میں تو دہشت گردی کسی کھاتے میں نہیں لائی جاتی نہ وہاں جانوں
کے ضیاع کی اہمیت ہے ہاں جب ملک کے کسی بڑے شہر میں کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے
تو حکومت کی واحد ذمہ داری یہ جملہ کہہ کر ادا کردی جاتی ہے کہ ’’سیکیورٹی
سخت کر دی گئی ہے‘‘۔ ڈی آئی خان جیل توڑے جانے کے بعد حکومت کو جیلوں کا
خیال آیا اور دوسری جگہوں سے سیکیورٹی ہٹا کر جیلوں کی سیکیورٹی سخت کر دی
گئی ہے اور دیگر اہم تنصیبات دہشت گردی کے لیے خالی چھوڑ دی گئی ہے اس
منصوبہ بندی کے ساتھ پھر الزام خفیہ اداروں ، فوج اور پولیس پر لگا دیا
جاتا ہے ۔ اگر امن و امان سے لے کر قدرتی آفات زدگان کی مدد تک اور دہشت
گردوں سے جنگ سے لے کر اپنے اصل کام یعنی سرحدوں کی حفاظت تک اور اِن سب کی
منصوبہ بندی تک ہر کام ان اداروں کی ذمہ داری ہے تو پھر کیوں نہ حکومت خفیہ
اداروں، فوج اور پولیس کے حوالے کر دی جائے۔ بیشک کہ مندرجہ بالا کام اِن
اداروں کے ہی ہیں لیکن اِن کی وسیع تر منصوبہ بندی حکومت اور ریاست کا کام
ہے، ان حکمرانوں کا کام ہے جو ہر روز قتل ہوتے ان عوام کے ووٹوں سے حکومت
کے مزے لوٹ رہے ہیں اور ہر دھماکے اور دہشت گردی کے بعد عوام کی لاشوں پر
کھڑے ہوکر کہتے ہیں کہ ہم ہر قسم کی دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ۔
کیا اِن حالات کا مقابلہ مزید کیا جا سکے گا ۔اب تو عوام کہنے لگے ہیں کہ
اگر ہم اپنی یا پرائی ،مسلط کردہ یا اپنی مرضی سے جنگ لڑہی رہے ہیں تو پھر
’’اعلان جنگ‘‘ کر ہی دیا جائے اگر چہ حکومت منہ زبانی تو یہ کہتی ہے لیکن
پولیس یا فوج کو ’’اعلان جنگ ‘‘ کے اختیارات دینے سے گریزاں رہی ہے۔ چند
علاقوں میں محدود پیمانے پر فوج کو اختیارات دئیے گئے ہیں لیکن دہشت گرد تو
پورے ملک میں سرگرم عمل ہیں اور عملی طور پر’’ اعلان جنگ ‘‘کے بغیران کا
مقابلہ ممکن نہیں، نہ ہی اِن اداروں کو وہ ہتھیاریا ٹیکنالوجی دی جاتی ہے
جو دہشت گردوںکے پاس موجود ہے۔ کوئٹہ پولیس لائنز کے افسوس ناک ترین واقعے
کے بعد بلوچستان پولیس کو جدید رائفلز دی گئیں کیا اس چیز کا احساس پہلے
نہیں کیا جانا چاہیئے تھا ۔ بالکل یہی رویہ دفاعی بجٹ کے اوپر تنقید کرتے
ہوئے روا رکھا جاتا ہے اور اس طرح بحث کی جاتی ہے جیسے کسی دشمن ملک کا بجٹ
ہو۔ اور پھر توقعات یوں رکھی جاتی ہیں کہ ملک کا نظم و نسق جہاں بھی بگڑے،
تو بگڑے ہوئے حالات سنوارنے کے لیے فوج کے حوالے کر دئیے جائیں۔
حکومتوں کو اپنی ذمہ داریوں کو خود پورا کرنا ہوگا تبھی ملک کے حالات
سدھریں گے اور وزیر داخلہ سے لے کر میڈیا اینکرز نے ہر غلط کام کا الزام جو
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دینا شروع کیا ہوا ہے اُسے ختم کرنا ہوگا
بلکہ درحقیقت اِن اداروں کو خصوصی اختیارات دینا ہوںگے کیونکہ سچ یہ ہے کہ
ہم حالت جنگ میں ہیں اور یہاں دشمن کسی بھی روپ میں موجود ہو سکتا ہے اور
یا حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی ورنہ قوم نے دیکھ لیا ہے
کہ بھارت سے دوستی کی غیر معمولی اور غیر ضروری خواہش بلکہ درخواستوں کے
باوجود وہاں سے جو جواب آیا ہے وہ سرحدی جھڑپوں میں نہ صرف اضافہ ہے بلکہ
دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن اور دوستی بس پر حملوں کی صورت میں ہے۔ اگر
اتنا ہی زور ملکی حالات کی بہتری پر دیا جاتا تو حکومت کے چھیاسٹھ دنوں میں
دہشت گردی کے ساٹھ چھوٹے بڑے واقعات نہ ہو چکے ہوتے، جن میں تین سو جانوں
کا ضیاع ہو چکا ہے اور ان میں سے اکثر کی ذمہ داری ایجنسیوں پر ڈال دی گئی
ہے اور حکومت کوبَری کر دیا گیاہے۔ اسی غیر ذمہ دارانہ رویے کا ہی شاخسانہ
ہے کہ اِن واقعات میں ہر روز اضافہ ہی ہوا اور قوم کو ایک طرح سے دہشت
گردوں کے حوالے کر دیا گیا۔ حکومت کو یا تو ان اداروں کو خصوصی اختیارات
دینا ہونگے اور یا خود ذمہ داری قبول کرنا ہوگی ۔عوام کی لاشوں پر کھڑے
ہوکر دہشت گردی سے نمٹنے کے عزم کے اظہار سے ہم دشمن کو مات کر سکتے ہیں نہ
خود کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ |