قارئین فلاح و کامیابی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو
اپنے تمام معالات میں اﷲ اور رسول ﷺ کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے اور
انہی کی اطاعت کرتے ہیں اور خشیت ِ الٰہی اور تقویٰ سے متصف ہیں۔ نہ کہ
دوسرے لوگوں کی طرح جو اِن تما م صفات سے محروم ہیں۔
اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ: بِلا شک و شبہ ہم نے روشن اور واضح آیتیں اتاردی ہیں ، اﷲ
تعالیٰ جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ (سورہ النور آیت نمبر ۴۶)
اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرمارہے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کے بیان
میں کوتاہی نہیں کی۔اور جسے ہدایت نصیب ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ اسے نظرِ صحیح
اور قلبِ صادق عطا فرمادیتا ہے۔جس سے اس کے لیے ہدایت کا راستہ کھل جاتا ہے۔
صراطِ مستقیم سے مراد یہی ہدایت کا راستہ ہے جس میں کوئی کجی نہیں ۔ اسے
اختیار کر کے انسان اپنی منزل مقصود جنت تک پہنچ سکتا ہے۔
اسی سورہ میں اﷲ تعالیٰ آگے فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ: اور کہتے ہیں کہ ہم اﷲ تعالیٰ اور رسول پر ایمان لائے اور
فرماں بردار ہوئے ، پھر ان میں سے ایک فرقہ اس کے بعدبھی پھر جاتا ہے۔ یہ
ایمان والے نہیں ہیں۔ (سورہ النور آیت نمبر ۴۷)
یہ بات منافقین کے لیے کہی جارہی ہے جو زبان سے اسلام کا اظہار کرتے ہیں
لیکن دلوں میں کفر وعناد اختیار کیے رکھتے ہیں یعنی عقیدصحیح سے محروم ہیں
۔ اس لیے زبان سے اظہار ِ ایمان کے باوجود اﷲ نے ان کے ایمان کی نفی کی۔
اسی سورہ میں اﷲ تعالیٰ آگے مزید فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ: جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اﷲ اور اس کا رسول ان
کے جھگڑے چکادے تو بھی انکی ایک جماعت منہ موڑنے والی بن جاتی ہے۔(سورہ
النور آیت نمبر ۴۸)
منافقین اﷲ کے رسول ﷺ کے پاس جانے سے اس لیے کتراتے تھے کیونکہ انہیں یقین
ہوتا تھا کہ عدالتِ نبوی ﷺ سے جو فیصلہ صادر ہوگا وہ صرف و صرف حق و سچ پر
مبنی ہوگا اور کسی قسم کی رو رعایت نہیں ہوگی ۔اور وہاں کسی بھی ذاتی خواہش
کی کوئی حیثیت نہ رکھی جائے گی ۔اس لیے منافقین وہاں اپنا مقدمہ اور فیصلے
لے جانے سے گریز کرتے تھے۔
اسی موضوع پر اﷲ تعالیٰ آگے فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ: کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے ۔؟ یا یہ شک و شبہ میں پڑے
ہوئے ہیں ؟ یا انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول ان کی حق
تلفی نہ کریں ؟بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی بڑے ظالم ہیں۔(سورہ النور آیت
نمبر ۵۰)
جب فیصلہ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس سے اعراض و
گریز کی وجہ بیان فرمارہے ہیں ۔کہ یا تو ان کے دلوں میں کفرو نفاق کا روگ
ہے یا انہیں نبوتِ محمدی ﷺ میں شک ہے یا انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان
پر اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ظلم کریگا۔حالانکہ اِن کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان
ہی نہیں۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ تو خود ہی ظالم ہیں۔امام شوکانی
فرماتے ہیں کہ جب قضا و فیصلے کے لیے ایسے حاکم و قاضی کی طرف بلایا جائے
جو عادل اور قرآن و سنت کا علمبردار ہواور اس سے کسی صورت روگردانی نہ کرتا
ہو تو اس کے پاس جانا ضروری ہے ۔ البتہ اگر قاضی کتاب و سنت کے علم اور ان
کے دلائل سے نا واقف ہوتو اس کے پاس اپنے فیصلے لے جانا درست نہیں ۔
اسی موضوع پر اﷲ تعالیٰ آگے فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ: ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا
ہے کہ اﷲ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا
اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔
جو بھی اﷲ تعالیٰ کی ، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں ، خوفِ الٰہی رکھیں
اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں ، وہی نجات پانے والے ہیں۔(سورہ النور آیت
نمبر ۵۲:۵۱)
یہ آیات اہلِ کفر و نفاق کے مقابلے میں اہلِ ایمان کے کردار و عمل کا بیان
ہے ۔ یعنی فلاح و کامیابی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اپنے تمام معاملات
میں اﷲ اور رسول ﷺ کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کر تے اور انہی کی اطاعت
کرتے ہیں اور خشیت الٰہی اور تقویٰ سے متصف ہیں نہ کہ دوسرے لوگ جو ان صفات
سے محروم ہیں۔
اگلی آیت میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم مانو، رسول اﷲ کی اطاعت کرو،
پھر بھی اگر تم نے رو گردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر
لازم کردیا گیا ہے۔اور تم پر اس کی جوبداہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے۔ ہدایت
تو تمھیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو (گے)سنو رسول کے ذمے تو صرف
صاف طور پر پہنچا دینا ہے۔ (سورہ النور آیت نمبر ۵۴)
یعنی تبلغ ود عوت جو اﷲ کے رسول ﷺ بتا رہے ہیں ان کی دعوت کو قبول کر کے اﷲ
اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور صرف ان کی اطاعت کرناہے، اور نبی ﷺ صراطِ
مستقیم کی طرف دعوت دیتے ہیں۔اب کوئی اس کی دعوت کو مانے یا نہ مانے جس طرح
ایک جگہ اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ترجمہ: اے پیغمبر ! تیرا کام صرف (ہمارے
احکام ) پہنچا دینا ہے( کوئی مانتا ہے یا نہیں) یہ حساب ہماری ذمہ داری ہے۔
اگلی آیت میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
القرآن ترجمہ: تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے
ہیں اﷲ تعالیٰ وعدہ فرماچکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے
کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لیے ان
کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جمادے گا جسے ان کے لیے وہ پسند
فرماچکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا ۔ وہ
میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی
لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقینا فاسق ہیں۔
قارئین ایمان کی اصل، عمل صالح کے ساتھ مشروط ہے۔اور اسی شرط پر اﷲ تعالیٰ
نے مسلمانوں کو زمیں میں غلبہ عطا فرمایا اپنے پسندیدہ دین ِ اسلام کو عروج
دیا اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا۔ پہلے مسلمان کفار ِ عرب سے
ڈرتے تھے پھر ایمان کی شرط عمل صالح کی بنیاد پر اﷲ رب العزت نے مسلمانوں
کو کفارِ عرب پر غالب کر دیا ۔نبیﷺ نے جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں وہ سب
پوری ہوئیں۔ مثلاً آپﷺ نے فرمایا تھا کہ حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی
چلے گی اور بیت اﷲ کا آکر طواف کرے گی اسے کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہوگا ۔
کسریٰ کے خزانے تمھارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا
۔(حدیث: صحیح بخاری کتاب المناقب)
نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا ہے
۔ پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے ، عنقریب میری امت کا دائرہ
اقتدار وہاں تک پہنچے گا جہاں تک میرے لیے زمین سکیڑ دی گئی ۔ (حدیث: صحیح
مسلم کتاب الفتن و اٗشرائط الساعہ)
قارئین دنیا نے دیکھا حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی اور
فارس و شام اور مصر افریقہ اور دیگر دور دراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفرو
شرک کی جگہ توحید و سنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں ۔ اور اسلامی تہذیب و
تمدن کا علم ہر طرف لہرایا گیا ۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا ایمان و عمل
صالح سے ۔ جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب
ہوئے تو اﷲ نے ان کی عزت کو ذلت میں ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں
اور ان کے امن واستحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔قارئین مسلمان کے
ایمان و عمل صالح اور توحید سے محرومی مراد اس کفر کے ہیں جس کے بعد ایک
انسان اﷲ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفرو فسق کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔
لہذا کامیاب صرف وہی لوگ ہیں جو اپنے تمام معاملات میں اﷲ اور رسول اﷲ کے
احکامات پر عمل پیرا ہیں اور انکے ہر فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے اور
انہی کی اطاعت کر تے ہیں۔ |