سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے کمسن جانباز(جانِ دو عالم)

سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے کمسن جانباز : غابہ مدینہ طیبہ سے چا ر پانچ میل پر ایک آبادی ہے وہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے کچھ اونٹ چرا کرتے تھے۔ کافروں کے ایک مجمع کے ساتھ عبدالرحمن فزاری نے ان کو لوٹ لیا ،جو صاحب چراتے ان کو قتل کردیا اور اونٹوں کو لیکر چل دئیے۔ یہ لٹیرے گھوڑے پر سوار تھے اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے اتفاقاً حضرت سلمہ بن اکوع رضی اﷲ عنہ صبح کے وقت پیدل تیر کمان لئے ہوئے غابہ کی طرف چلے جارہے تھے کہ اچانک ان لٹیروں پر نظر پڑی۔ بچے تھے وہ دوڑتے بہت تھے کہتے ہیں کہ ان کی دوڑ ضرب المثل اور مشہور تھی یہ اپنی دوڑ میں گھوڑے کو پکڑ لیتے تھے اور گھوڑا ان کو پکڑ نہیں سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تیری اندازی میں بہت مشہور تھے۔

حضر ت سلمہ بن اکوع رضی اﷲ عنہ نے مدینہ منورہ کی طرف منھ کر کے ایک پہاڑی پرچڑھ کر لُو ٹ کا اعلان کیا اور خود ا ن لٹیروں کے پیچھے دوڑے تیر کمان ساتھ ہی تھی یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچ گئے اور تیر مارنے شروع کئے اور اس پھرتی سے دما دم تیر برسائے کہ وہ لوگ بڑا مجمع سمجھے اور چونکہ خود تنہا تھے اور پیدل بھی تھے اس لئے جب کوئی گھوڑا لوٹا کر پیچھا کرتا تو کسی درخت کی آڑ میں چھپ جاتے اور آڑ میں سے اس گھوڑے کو تیر مارتے جس سے وہ زخمی ہوجاتا اور وہ اس خیال سے واپس جاتا کہ گھوڑا گر گیا تو میں پکڑا جاؤں گا۔

حضرت سلمہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ غرض وہ بھاگتے رہے اور میں پیچھا کرتا رہا حتی کہ جتنے اونٹ انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے لوٹے تھے وہ میرے پیچھے ہوگئے اور تیس برچھے اور تیس چادریں وہ اپنی چھوڑ گئے اتنے میں عیینہ بن حصن کی ایک جماعت مد د کے طور پر ان کے پاس پہنچ گئی۔ اور ان لٹیروں کو قوت حاصل ہوگئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ میں اکیلا ہوں۔ ان کے کئی آدمیوں نے مل کر میرا پیچھا کیا میں ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہ بھی چڑھ گئے۔ جب میرے قریب ہوگئے تو میں نے کہا کہ ذرا ٹھہرو! پہلے میری ایک با ت سنو ! تم مجھے جانتے بھی ہو کہ میں کون ہوں انھوں نے کہا کہ بتاؤ تم کون ہو میں نے کہا کہ میں ابن الاکوع ہوں اس ذات پاک کی قسم! جس نے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو عزت دی تم میں سے کوئی مجھے پکڑنا چاہے تو نہیں پکڑ سکتا اور میں تم میں سے جسکو پکڑنا چاہوں وہ مجھ سے ہر گز نہیں چھوٹ سکتا۔ ان کے متعلق چونکہ عام طور سے یہ شہرت تھی کہ بہت زیادہ دوڑتے ہیں حتی کہ عربی گھوڑا بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہ دعوی کچھ عجیب نہیں تھا۔

سلمہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس طرح ان سے بات چیت کرتا رہا اور میرا مقصود یہ تھاکہ ان لوگوں کے پاس تومد د پہنچ گئی ہے مسلمانوں کی طرف سے میری مدد بھی آجائے کہ میں بھی مدینہ میں اعلان کرکے آیا تھا۔ غرض ان سے اسی طرح میں بات کرتا رہا اور درختوں کے درمیان سے مدینہ منورہ کی طرف غور سے دیکھتا تھا کہ مجھے ایک جماعت گھوڑے سواروں کی دوڑ کر آتی ہوئی نظر آئی ان میں سب سے آگے اخرم اسدی تھے انھوں نے آتے ہی عبدالرحمن فزاری پر حملہ کیا اور عبدالرحمن بھی ان پر متوجہ ہوا۔ انھوں نے عبدالرحمن کے گھوڑے پر حملہ کیا اور پاؤں کاٹ دیئے جس سے وہ گھوڑا گرا اور عبدالرحمن نے گرتے ہوئے ان پر حملہ کردیاجس سے وہ شہید ہوگئے اور عبدالرحمن ان کے گھوڑے پر سوار ہوگیا ان کے پیچھے ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہتھے انہوں نے حملہ شروع کردیا۔ عبدالرحمن نے فوراً ابوقتادہ رضی اﷲ عنہ کے گھوڑے کے پاؤں پر حملہ کیا جس سے وہ گرے اور گرتے ہوئے انھوں نے عبدالرحمن پرحملہ کیا جس سے وہ قتل ہوگیا اور ابوقتادہ رضی اﷲ عنہ فوراََ اس گھوڑے پرسوار ہوگئے جو پہلے اخرم اسدی کا تھا اور اب اس پر عبدالرحمن سوارہو چکا تھا ۔
(صحیح مسلم، کتاب الجھادوالسیر،باب غزوۃ ذی قروغیرہما،الحدیث:۱۸۰۷، ص۱۰۰۰)

مجاہدانہ جواب: قریش مکہ نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لئے جب جنگ بدر کی بنیاد ڈالی تو حضور سرورعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے ارشاد فرمایا کہ دشمن لڑنے پر آمادہ ہے۔ بتاؤ تمھاری کیا رائے ہے؟ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہممیں سے مہاجرین نے جواب دیا۔ یا رسول اﷲ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم وہی کریں جس بات کا خدا عزوجل نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو حکم دیا ہے۔ ہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ ہیں۔ خدا عزوجل کی قسم !ہم ایسا نہ کہیں گے جیسا کہ بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبرحضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا۔
فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَo (پ۶،المائدۃ:۲۴)

•ترجمہ کنزالایمان :توآپ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑوہم یہاں بیٹھے ہیں۔
یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم !ہم حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے نام پر قربان ہوجانے کو تیار ہیں۔ انصار نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ! ہم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم پر ایمان لے آئے ہیں ۔ اس خدا عزوجل کی قسم جس نے آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ہمیں دریامیں کودجانے کا اشارہ فرمائیں گے توہم اس میں کودجائیں گے۔ یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم! آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ہم سے مشورہ کیوں طلب فرماتے ہیں ہم بے وفائی کرنے والے نہیں ہیں۔
تعالَی اﷲ یہ شیوہ ہی نہیں ہے باوفاؤں کا
[پیا ہے دودھ ہم لوگو ں نے غیرت والی ماؤں کا
Iنبی کا حکم ہو توکو دجائیں ہم سمندرمیں
جہاں کو محو کر دیں نعرہ اﷲ اکبر میں
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا یہ مجاہد انہ جواب پا کر بہت خوش ہوئے۔
(مدارج النبوت، قسم سوم، ذکر سال دوم از ہجرت مذکورجنگ بدر، ج۲، ص۸۳)
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے

Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349301 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.