أَعُوذُ باللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيـمِ بِسْمِ
اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيـمِ
پناہ مانگتا ہوں میں الله کی شیطان مردود سے، شروع الله کا نام لیکر جو بڑا
مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
سب تعریفیں الله ہی کیلئے جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔
1. دین کی تکمیل ھوگئی، اب نہ تو کوئی نبی آئیگا اور نہ ھی وحی کا نزول
ھوگا۔احکامِ الٰہی اور سنتِ رسول ﷺ کے علاوہ ھر عمل بدعت میں شمار ھوگا۔
بدعت کا مطلب دینِ اسلام میں خودساختہ اضافہ ھے اور یہ شرک کے قریب تر ھے۔
حجتہ الوداع کے موقع پر رسول الله ﷺ نے فرمایا!
اے لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت وناموس اسی طرح ایک دوسرے
پر حرام ہے جس طرح یہ دن (یوم قربانی) یہ مہینہ (ذی الحجہ) اور یہ شہر (مکہ
مکرمہ) تم سب کے لیے قابلِ حرمت ہے اور اسی نکتہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے
فرمایا: اے لوگو! آخر تمہیں بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونا ہے،
وہاں تمہارے اعمال کی باز پرس ہوگی، خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ
ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو۔
اے لوگو! تم سب کا خدا بھی ایک ہی ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہے، لہٰذا
کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر، کسی کالے کو گورے پر کوئی
پیدائشی برتری اور فضیلت نہیں ہوگی، ہاں! افضل وہ ہے جو پرہیزگار ہو، ہر
مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان ایک کنبہ اور خاندان کے
مانند ہیں۔
اے لوگو! میں تم میں وہ چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی کے
ساتھ تھامے رکھا، تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ چیز ہے اللہ کی کتاب۔
اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ میرے بعد کوئی نئی امت ہے، پس
تم سب اللہ کی عبادت کرنا، نماز پنج گانہ کی پابندی کرنا، رمضان کے روزے
رکھنا، خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکوٰة دینا، اللہ کے گھر کا حج کرنا اور
اللہ کی جنت میں جگہ حاصل کرنا۔
لوگو! اپنے نسب کو میرے پاس مت لانا، بلکہ اپنے اعمال کو میرے پاس لیکر
آنا۔
آخر میں سرورِ کائنات رسول الله ﷺ نے ارشادفرمایا:
وَاَنْتُمْ تُسْألُون عَنِّی فَمَا أنْتُم قَائِلُون
ایک دن اللہ تعالیٰ تم لوگوں سے میرے متعلق گواہی طلب کریں گے، تم اس وقت
کیا جواب دوگے؟
اس پر مجمع عام سے پرجوش صدائیں بلند ہوئیں۔
انَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ، وَاَدَّیْتَ، وَنَصَحْتَ اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے
سب احکام پہنچادئیے، آپ نے فرضِ رسالت ادا کردیا، آپ نے کھرے کھوٹے کو الگ
کردیا۔
اس وقت حضور سرور عالم ﷺ کی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھی، ایک دفعہ
آسمان کی طرف انگلی اٹھاتے تھے اور دوسری دفعہ مجمع کی طرف اشارہ کرتے تھے
اور کہتے جاتے تھے "اللّٰھُمَّ أشْھَدْ، اللّٰھُمَّ أشْھَدْ، اللّٰھُمَّ
أشْھَدْ" اے اللہ خلق خدا کی گواہی سن لے، اے اللہ خلق خدا کا اعتراف سن
لے، اے اللہ گواہ ہوجا۔
یہاں رسول الله ﷺ کے خطبہ سے یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ نے الله کے ہر
فرمان کو لوگوں تک پہنچا دیا۔ جسکی گواہی وہاں موجود تمام لوگوں نے دی۔ آپ
ﷺ کا گواہی طلب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اب نبوت پائہ تکمیل کو پہنچ گئی تھی
اور آپ ﷺ کے وصال کا وقت قریب آگیا تھا۔
خطبہٴ حج سے فارغ ہوئے، تو جبرائیل امین وہیں تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت
کا تاج شہنشاہی لے آئے اور یہ آیت نازل ہوئی۔
اَلْیَومَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی
وَرَضِیْتُ لَکُم الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴿الامعائدہ۔3﴾
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، اور تم پر اپنی نعمت مکمل
کردی اور دین اسلام پر اپنی رضامندی کی مہر لگادی۔
یہودیوں نے حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر قرآن کی ایک آیت
ہماری کتاب میں ہوتی تو ہم اس کا دن ضرورمناتے۔ حضرت عمُر رضی الله تعالیٰ
عنہ نے پوچھا کہ وہ کونسی آیت ہے تو یہودیوں نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔
اَلْیَومَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ
الله تعالیٰ نے اِس آیت کے ذریعے مسلمانوں پر واضع کردیا کہ نبئ کریم ﷺ کی
نبوت اور قرآن دونوں کی تکمیل ہو چکی۔ اب نہ تو کوئی نبی ہی آئیگا اور نہ
احکامِ خداوندی، جب نبی کا کام مکمل ہوگیا تو کتابِ الله یعنی قُران بھی
مکمل ہوگیا۔نبوّت اور وحی کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السّلام سے شروع ہوا
تھا، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر آکر آج ختم ہوگیا۔اس آیت میں یہ واضع کر دیا
گیا ہے کہ اب دینِ اسلام مکمل ہو چکا ہے اور اِس میں مزید کسی اضافے کی
کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پیغام رسانی یعنی وحی کا سلسلہ جو رسولِ پاک ﷺ کے
ذریعے جاری تھا ختم کردیا گیا۔اب کتابِ الله قُرآنِ پاک اور حدیثِ رسول ہی
ہمارے لئے راہِ ہدایت ہے۔ ہر وہ قول و فعل جو اس کے بعد وجود میں آیا۔ سب
بدعت یعنی دینِ اسلام میں خود ساختہ اضافہ ہے۔
شرک سے مراد اللہ تعالیٰ کےساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے چاہے یہ عبادت میں
ہو، ربوبیت میں ہو یا اسماء و صفات میں۔
2.الله تعالیٰ کے بعد رسول الله ﷺ کا مقام ھے۔ حُکمِ خداوندی کیمطابق رسول
الله ﷺ ھم انسانوں کیلئے
نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتے، مگر ان کی سنت پر عمل کرنے سے ھر
کوئی قربِ الٰہی اور جنت کا حقدار ھوگا۔
دورانِ حج جمرہ پر پتھر پھینکتےہوئے رسول الله ﷺ نے فرمایا!
اے لوگو! مذہب میں حد سے مت گزر جانا بلکہ اعتدال میں رہنا، تم سے پہلی
امتیں اسی سے برباد ہوئی تھیں۔
سورہٴ الجن کی آیات 21 تا 24 میں الله تعالیٰ نے فرمایا!
اے نبی ﷺ! کہدوکہ میں تو اپنے پروردگار ہی کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو
اُسکا شریک نہیں بناتا۔
یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہارے لئے کسی نقصان یا نفع کا کچھ اختیار نہیں
رکھتا۔
یہ بھی کہہ دو کہ الله کے عذاب سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اُس
کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں پاؤں گا۔
ہاں ! الله کے احکام اور پیغاموں کو پہنچانا میرے ذمے ہے۔جو شخص الله
اوراُس کے پیغمبر کی نافرمانی کریگا تو ایسے لوگوں کیلئے جہنم کی آگ ہے جس
میں وہ ہمیشہ جلیں گے۔
3.الله تعالیٰ نے رسول الله ﷺ کو حقِ شفاعت دیا ھے۔آپ ﷺ کی سفارش مسلمانوں
کیلئے راہِ نجات ھو گی۔
لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ
عَھۡدًا ﴿ۘمریم۔87﴾
تو لوگ کسی کیلئےشفاعت کا اختیار نہیں رکھیں گے مگر جس نے رحمٰن سےوعدہ لے
لیا ہو۔
4.بیشک الله ھی تمام اختیارات کا مالک ھے۔
وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ﴿المومن ۔60﴾ اور
تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دُعا کرو میں تمہاری دعا قبول
کروں گا۔
وَ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِهٖ مَا یَمۡلِکُوۡنَ مِنۡ قِطۡمِیۡرٍ
﴿ؕفاطر۔13﴾ اور جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے
ریشے جتنا بھی اختیار نہیں رکھتے۔
یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰهِ ۚ وَ اللّٰهُ
ھُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ ﴿فاطر ۔15﴾لوگو! تم سب الله کے در کے محتاج ہو
اور الله تو بے نیاز اور لائقِ حمدوثنا ہے۔
5.درود کا مطلب رحمت، سلامتی اور برکت ھے۔درود رسول الله ﷺ تک تب ھی پہنچتا
ھے ، جب ھم انکے بتائے ھوئے طریقے سے بھیجیں۔ اسکے علاوہ اختیار شدہ
ھرطریقہ بے ادبی میں شمار ھوتا ھے۔
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ
یٰۤاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡهِ وَ سَلِّمُوۡا
تَسۡلِیۡمًا ﴿الااحزاب۔56﴾
الله اور اُس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے مومنو! تم بھی ان پر
درودوسلام بھیجا کرو۔
ہم اپنی نماز میں درودِ ابراہیمی پڑھتے ہیں تو ہماری نماز مکمل ہوتی ہے۔اگر
نماز میں سورہٴ فاتحہ اور درودِ ابراہیمی میں سے کوئی بھی ایک نہ پڑھا جائے
تو نماز نہیں ہوتی۔اِس سے یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ درودِ ابراہیمی سے
زیادہ کسی درود کی فضیلت نہیں ہے۔درودِ ابراہیمی کا ترجمہ یہ ہے!
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا
صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ
حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اے الله ! رحمت نازل فرما محمد ﷺ اور ان کی آل پر، جیسے کہ تو نے رحمت نازل
فرمائی ابراہیم علیہ السّلام اور ان کی آل پر، بیشک تو تعریف کا سزاوار اور
بڑی بزرگی والا ہے۔
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا
بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ
حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اے الله ! برکت نازل فرما محمد ﷺ اور ان کی آل پر، جیسے کہ تو نے برکت نازل
فرمائی ابراہیم علیہ السّلام اور ان کی آل پر، بیشک تو تعریف کا سزاوار اور
بڑی بزرگی والا ہے۔
ہر کوئی درودوسلام بھیجنے سے عاجز ہے، جب تک وہ الله تعالیٰ کو وسیلہ نہ
بنائے۔الله تعالیٰ کے توسط سے بھیجا جانے والا درود وسلام ہر مسلمان کیلئے
افادیت رکھتا ہے اور الله تعالیٰ کے توسط کے بغیر بھیجا جانیوالا درودوسلام
شانِ رسالت میں بےادبی ہے۔ اور رسول الله ﷺ کی بےادبی کرنیوالا دائرہٴ
اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
ھُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُهٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ
الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ کَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا
﴿الااحزاب۔43﴾
الله اور اُس کے فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں، تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال
کر روشنی کیطرف لیجائے۔ اور الله مومنو ں پر مہربان ہے۔
جب ہم لوگ الله کے توسط سے رسول الله ﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو!
1.الله تعالیٰ اُس درود کو کئی گنا بڑھا کر آپﷺ کو پیش کرتے ہیں
2.ہمیں اُس کی برکات و ثواب سے نوازا جاتا ہے۔
3.جواباً الله اور فرشتے ہم پر درود بھیجتے ہیں۔
6.الله تعالیٰ کے علاوہ کسی سے(رسول الله ﷺ) مانگنا شرک ھے اور شرک کی سزا
جھنم کی آگ ھے۔
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿الفاتحہ۔4﴾
اے الله! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔
قُلۡ لَّاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ عِنۡدِیۡ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ
الۡغَیۡبَ وَ لَاۤ اَقُوۡلُ لَکُمۡ اِنِّیۡ مَلَکٌ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا
مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ؕ﴿ الانعام ۔ 50﴾
کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس الله کے خزانے ہیں اور نہ
میں یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اور نہ تم سے کہتا ہوں کہ
میں فرشتہ ہوں ، میں تو صرف اُس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے الله کی طرف سے
آتا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّةِ الۡمَتِیۡنُ ﴿الذاریات۔ 58﴾
الله ہی تو سب کو رزق دینے والا،زور آور اور مضبوط ہے۔
قُلۡ مَا کُنۡتُ بِدۡعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَاۤ اَدۡرِیۡ مَا یُفۡعَلُ
بِیۡ وَ لَا بِکُمۡ ؕ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ وَ مَاۤ
اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۹﴾
کہہ دو کہ میں کوئی انوکھا پیغمبر نہیں ہوں،اور میں نہیں جانتا کہ میرے
ساتھ کیا سلوک کیا جائیگا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائیگا۔میں تو اُسی کی
پیروی کرتا ہوں جو وحی مجھ پر آتی ہے اور میرا کام تو اعلانیہ خبردار کر
دینا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِهٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ
ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ﴿ النساٴ ۔ 116﴾
الله اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اُسکا شریک بنایا جائے۔اور اس کے
سوا اور گناہ جس کو چاہے گا بخش دیگا۔
7.رسول الله ﷺ وفات پاچکے ھیں۔
اِنِّيْ فَرَطٌ لَّكُمْ فرمایا ! میں اب تم لوگوں کا پیشوا ہوں یعنی کہ میں
تم لوگوں سے پہلے ہی وفات پا کر جا رہا ہوں تا کہ وہاں جا کر تم لوگوں کے
لئے حوض کوثر وغیرہ کا انتظام کروں۔( بخاری کتاب الحوض جلد دوم)
اپنے مرض وفات میں آپ ﷺنے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور چپکے
چپکے ان سے کچھ فرمایا تو وہ رو پڑیں۔ پھر بلایا اور چپکے چپکے کچھ فرمایا
تو وہ ہنس پڑیں جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے اس کے بارے میں
حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آہستہ آہستہ مجھ سے یہ فرمایا کہ میں اسی
بیماری میں وفات پا جاؤں گا تو میں رو پڑی۔ پھر چپکے چپکے مجھ سے فرمایا کہ
میرے بعد میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم وفات پا کر میرے پیچھے آؤ گی
تو میں ہنس پڑی۔(بخاری شریف باب مرض النبی ج2 ص638)
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو
کر ” سُنح ”(مسجد نبوی سے ایک میل دور جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی الله
تعالیٰ عنہ کا گھر تھا۔) سے آئے اور کسی سے کوئی بات نہ کہی نہ سنی۔ سیدھے
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرے میں چلے گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کے رخ انور سے چادر ہٹا کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر جھکے
اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان نہایت گرم جوشی کے ساتھ ایک بوسہ دیا اور
کہا کہ آپ اپنی حیات اور وفات دونوں حالتوں میں پاکیزہ رہے۔ میرے ماں باپ
آپ پر فدا ہوں ہرگز خداوند تعالیٰ آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں فرمائے گا۔
آپ کی جو موت لکھی ہوئی تھی آپ اس موت کے ساتھ وفات پا چکے۔ اسکے بعد حضرت
ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت حضرت عمر رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
فرمایا کہ اے عمر ! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیٹھنے سے
انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انہیں چھوڑ دیا اور
خود لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے خطبہ دینا شروع کر دیا کہ
اما بعد ! جو شخص تم میں سے محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد ﷺ
کا وصال ہو گیا اور جو شخص تم میں سے خدا عزوجل کی پرستش کرتا تھا تو وہ
جان لے کہ خدا زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر
صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سورۂ آل عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُ ؕ
اَفَاْئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ
مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡهِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیۡئًا ؕ وَ
سَیَجۡزِی اللّٰهُ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿العمران ۔ 144﴾
اور محمد (ﷺ) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے تو کیا اگر وہ
انتقال فرما جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو
الٹے پاؤں پھرے گا اﷲ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اﷲ شکر ادا کرنے
والوں کو ثواب دے گا۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی تو معلوم ہوتا تھا کہ گویا کوئی اس آیت کو
جانتا ہی نہ تھا۔ ان سے سن کر ہر شخص اسی آیت کو پڑھنے لگا۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کی زبان سے سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت سنی تو مجھے معلوم ہو
گیا کہ واقعی رسول الله صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔
8.ادب و تعظیم اور مرتبہ
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
سب تعریفیں الله ہی کیلئےہیں جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔
حجتہ الوداع کے خطبہ میں آپ ﷺ نے فرمایا!
اے لوگو! مذہب میں حد سے مت گزر جانا بلکہ اعتدال میں رہنا، تم سے پہلی
امتیں اسی سے برباد ہوئی تھیں۔
آپ ﷺ نےفرمایا:جس محفل میں الله کا ذکر اور مجھ پر درود نہ بھیجا جائے، وہ
الله کی رحمتوں سے محروم رہتے ہیں۔ اور عقیدت میں میرے رتبے کو مت بڑھاؤ،
میں تو صرف الله کا بندہ اور الله کا رسول ہوں۔
رسول الله ﷺ جب مسجد یا محفل میں تشریف لاتے تو صحابہٴ کرام رضی الله
تعالیٰ عنہم تعظیماً کھڑے ہوجاتے، یہ فعل آپکو ناگوار گزرتا تھا۔
حضرت آدم علیہ السّلام کے آگے فرشتوں کا سجدہ ریز ہونا اور معراج کے موقع
پررسول الله ﷺ کے احترام میں فرشتوں کا تعظیماً کھڑے ہونا اس وجہ سے تھا کہ
ہردو مواقع پر حضرت آدم علیہ السّلام اور رسول الله ﷺ مجسم حاضر تھے۔تعظیم
تو یہ ہے کہ ہم باطن میں سنتِ رسول الله ﷺ پر کتنے عمل پیرا ہیں۔ذرا گریبان
میں جھانکیے۔
9.اپنے گناہ پر نادم ھونے اور معافی مانگنے والے کو الله تعالیٰ معاف فرما
دیتا ھے۔ اور اُس کیلئے اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ھے۔
وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَهٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ
اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿ النساٴ ۔ 110﴾
اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے، یا اپنے حق میں ظلم کر لے، پھر الله
سےبخشش مانگے تو الله کو بڑا بخشنے والااور بڑا مہربان پائے گا۔
اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ بَیَّنُوۡا فَاُولٰٓئِکَ
اَتُوۡبُ عَلَیۡھِمۡ ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿البقرہ۔160﴾
ہاں جو توبہ کرتے ہیں اور اپنی حالت درست کر لیتے ہیں اور احکامِ الٰہی کو
صاف صاف بیان کر دیتے ہیں تو میں ان کے قصور معاف کر دیتا ہوں اور میں بڑا
معاف کرنیوالا اور مہربان ہوں۔
10.آخری بات
اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰھُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ؕ
اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِهٖ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِهٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ
الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿البقرة۔ 121﴾
جن لوگوں کو ہم نے کتاب عنایت کی ہےوہ اس کو اس طرح پڑھتے ہیں، جیسا کہ اسے
پڑھنے کا حق ہے، یہی لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کو نہیں مانتے ،
وہی لوگ خسارہ پانیوالے ہیں۔
اے الله!تو ہمارے اعمال میں کوتاہیوں کو دور فرما۔ہمیں صراطِ مستقیم سے
بھٹکنے سے بچالے۔ہمیں اُس راستے پر چلا کہ جس پر چل کر ہم تیرے انعام کے
حقدار ٹھہریں۔ اے الله تو ہمیں ہر اُس راستے پر چلنے سے بچا کہ جس پر چل کر
ہم گمراہیوں اور تیرے غضب کا نشانہ بنیں۔ اے الله! توہماری دونوں زندگیوں
میں آسانیاں پیدا فرما، تو ہمیں ہدایت دے اور اور ہماری راہنمائی فرما اور
ہمارا شمار اپنے نیک بندوں میں کرنا۔بیشک تو ہی انصاف کے دن کا مالک ہے۔
آمین ثُم آمین
اَلَا لِلّٰهِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ
دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِیَآءَ ۘ مَا نَعۡبُدُهُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی
اللّٰهِ زُلۡفٰی ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحۡکُمُ بَیۡنَھُمۡ فِیۡ مَا ھُمۡ فِیۡہِ
یَخۡتَلِفُوۡنَ ۬ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَھۡدِیۡ مَنۡ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ
﴿الزمر۔3﴾
ہاں بندگی تو خالص الله ہی کی ہے۔اور جس نے اس کے سوا اور ولی بنا لئے، وہ
کہتے ہیں کہ ہم ان کو صرف اِس لئے پوجتے ہیں کہ وہ ہمیں الله کے قریب
کردیں، تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں، الله ان میں اس بات کا فیصلہ
کر دیگا۔بیشک الله جھوٹوں اور ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ |