حضرت کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی د رد ناک کہانی(جان دو عالم)

حضرت کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی د رد ناک کہانی: تین صحابہ حضرت کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اﷲ عنہم بغیر کسی قوی عذر کے سستی کے باعث جنگ تبوک میں شریک نہ ہو سکے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ اپنی سر گزشت بڑی تفصیل کے ساتھ خود ہی بیان فرماتے ہیں کہ میں جنگ تبوک سے پہلے کسی لڑائی میں بھی اتنا مالدار نہیں تھا جتنا تبوک کے وقت تھا اس وقت میرے پاس خود ذاتی دو اونٹنیاں تھیں اس سے پہلے کبھی میرے پاس دو اونٹنیاں نہ ہوئی تھیں ۔ جنگ تبوک کے موقع پر چونکہ سفر دور کا تھا اور گرمی بھی شدید تھی اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے صاف اعلان فرمایا تھا کہ لوگ تیاری کرلیں چنانچہ مسلمانوں کی اتنی بڑی جماعت حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکے ساتھ ہوگئی کہ رجسٹر میں ان کا نام بھی لکھنا دشوار تھا اور مجمع کی کثرت کی وجہ سے کوئی شخص اگر چھپنا چاہتا کہ میں نہ جاؤں اور پتا نہ چلے تو ہو سکتا تھا۔ میں بھی سامان سفر کی تیاری کا ارادہ صبح ہی کرتا مگر شام ہوجاتی اور کسی قسم کی تیاری کی نوبت نہ آتی۔ میں اپنے دل میں خیال کرتا کہ مجھے وسعت حاصل ہے پختہ ارادہ کروں گا تیاری فوراًہوجائے گی۔

اسی طرح دن گزرتے گئے حتی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم روانہ بھی ہوگئے اور مسلمان آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے مگر میرا سامان سفر تیار نہ ہو ا۔ پھر مجھے یہ خیال رہا کہ ایک دو روز میں تیار ہو کر لشکر سے جاملوں گا۔ اس طرح آج کل پرٹالتا رہا حتی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اور مسلمان تبوک کو روانہ ہوگئے۔ اس وقت میں نے کوشش بھی کی مگرسامان نہ ہوسکا۔ اب جب مدینہ منورہ میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں تو صرف وہی لوگ ملتے ہیں جن کے اوپر نفاق کابدنماداغ لگا ہو ا تھا یا معذور تھے۔ ادھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے تبوک پہنچ کردریافت فرمایا کہ کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نظر نہیں پڑتے کیا بات ہوئی؟ ایک صاحب نے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم! اس کو مال و جمال کے فخر نے روکا، حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ غلط کہا ہم جہاں تک سمجھتے ہیں وہ بھلے آدمی ہیں، مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے بالکل سکوت فرمایا اور کچھ ارشادنہ فرمایاحتی کہ چند روز میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکی واپسی کی خبر سنی تو مجھے رنج و غم ہوا اور فکر پیدا ہوئی۔ دل میں جھوٹے جھوٹے عذر آتے تھے کہ اس وقت کسی فرضی عذر سے جان بچا لوں پھر کسی وقت معافی کی درخواست کرلوں گا اور اس بارے میں اپنے گھر انے کے ہر سمجھدار سے مشورہ کرتا رہا مگر جب مجھے معلوم ہو اکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم تشریف لے ہی آئے تو میرے دل نے فیصلہ کیا کہ بغیر سچ کے کوئی چیز نجات نہ دیگی اور میں نے سچ سچ عرض کرنے کی ٹھان لی۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی عادت تھی کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو اوّل مسجد میں تشریف لیجاتے او ر دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھتے اور وہاں تھوڑی دیر تشریف رکھتے کہ لوگوں سے ملاقات فرمائیں۔ چنانچہ حسب معمول حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم تشریف لائے تو مسجد میں تشریف لے گئے اور وہاں تشریف فرمارہے اور منافق لوگ جھوٹے جھوٹے عذر کرتے اور قسمیں کھاتے رہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ان کے ظاہری حال کو قبول فرماتے رہے کہ اتنے میں میں بھی حاضر ہوا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کوسلام کیا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے ناراضگی کے انداز میں تبسم فرمایا اور اعراض فرمایا میں نے عرض کیا۔ یانبی اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ! آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے اعراض کیوں فرمالیا ۔ خداعزوجل کی قسم! میں نہ تو منافق ہوں نہ مجھے ایمان میں کچھ تردد ہے ۔ارشاد فرمایا:کہ یہاں آ۔ میں قریب ہوکر بیٹھ گیا ،حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے فرمایا: تجھے کس چیز نے روکا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اگر میں کسی دنیا دار کے پاس اس وقت ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ میں اس کے غصے سے کوئی نہ کوئی بات بنا کر خلاصی پالیتا کہ مجھے بات کرنے کا سلیقہ اﷲ عزوجل نے عطا فرمایا ہے۔لیکن یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ! آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے متعلق مجھے علم ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکے سامنے جھوٹ نہیں چل سکتا۔اور اگر میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمسے سچی بات عرض کروں جس سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلممجھ سے ناراض ہو جائیں تو مجھے امید ہے کہ خداعزوجل کی ذات پاک آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے عتاب کو زائل کردے گی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم میں سچ ہی عرض کرتا ہوں کہ واﷲ عزوجل! مجھے کوئی عذر نہ تھا اور جیسا فارغ اور وسعت والا میں اس زمانہ میں تھا کسی زمانہ میں بھی اس سے پہلے نہ ہوا تھا۔ حضو ر صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا :اس نے سچ کہا۔ پھر فرمایا کہ اچھا اٹھ جاؤ تمھارا فیصلہ اﷲ تعالیٰ خود فرمائے گا۔ میں وہاں سے اٹھا تو میری قوم کے بہت سے لوگوں نے مجھ سے کہا : بخدا ہم نہیں جانتے کہ تونے اس سے پہلے کوئی گنا ہ کیا ہو۔ اگر تو کوئی عذر کرکے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے استغفار کی درخواست کرتا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا استغفار تیرے لئے کافی تھا۔

میں نے ان سے پوچھا کہ کوئی اور بھی ایسا شخص ہے جس کے ساتھ یہ معاملہ ہوا ہو۔ لوگوں نے بتایا کہ دو شخصوں کے ساتھ اور بھی یہی معاملہ ہوا کہ انھوں نے بھی یہی گفتگو کی جو تونے کی اور یہی جواب ان کوبھی ملا ہے جوتجھ کو ملا ایک ہلال بن امیہ دوسرے مرارہ بن ربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہما میں نے دیکھا کہ دو صالح شخص جو دونوں بدری ہیں وہ بھی میرے شریک حال ہیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے ہم تینوں سے بولنے کی بھی ممانعت فرمادی کہ کوئی شخص ہم سے کلام نہ کرے۔ اب اس ارشاد کی صحا بہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین نے تعمیل اس طرح کرکے دکھادی کہ کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی ممانعت پر لوگوں نے ہم سے بولنا چھوڑدیا اور ہم سے اجتناب کیا۔ گویا دنیا ہی بدل گئی حتی کہ زمین باوجود اپنی وسعت کے ہمیں تنگ معلوم ہونے لگی سارے لوگ اجنبی معلوم ہونے لگے درودیوار بے گانے ہوگئے مجھے سب سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ اگر میں اس حال میں مرگیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم جنازہ کی نماز بھی نہ پڑھیں گے اور خدا نخواستہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکا وصال شریف ہوگیا تو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسا ہی رہوں گا نہ مجھ سے کوئی کلام کرے گا نہ میری نماز جنازہ پڑھے گا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ارشاد کے خلاف کون کرسکتا ہے ۔

غرض ہم تینوں نے پچاس دن اس حال میں گزارے ۔ میرے دونوں رفقاء شروع ہی سے گھروں میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے۔ میں سب میں قوی تھا ، چلتا پھرتا، بازار میں جاتا ،نماز میں شریک ہوتا ،مگر مجھ سے کوئی بات نہ کرتا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی مجلس میں حاضر ہو کر سلام کرتا۔ اور بہت غور سے خیال کرتا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے لب مبارک جواب کے لئے ہلے یا نہیں؟ نماز کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے قریب ہی کھڑے ہو کر نماز پوری کرتا اور آنکھ چراکر دیکھتا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلممجھے دیکھتے بھی ہیں یا نہیں۔ جب میں مشغول ہوتا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم مجھے دیکھتے اور جب میں ادھر متوجہ ہوتا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم مجھ سے رخ انور پھیر لیتے اور میری جانب سے اعراض فرمالیتے۔

غرض یہی حالات گزرتے رہے اور مسلمانوں کا بات چیت بند کردینا مجھ پر بہت ہی بھاری ہوگیا تو میں ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی دیوار پر چڑھا وہ میرے رشتہ کے چچازاد بھائی تھے اور مجھ سے تعلقات بھی بہت ہی زیادہ تھے میں نے اوپر چڑھ کر سلام کیا۔ توانھوں نے بھی سلام کا جواب نہ دیا میں نے ان کو قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمہیں معلو م نہیں کہ مجھے اﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے محبت ہے انھوں نے اس کا جواب نہ دیا۔ میں نے دوبار ہ قسم دی اور دریافت کیا وہ پھر بھی چپ ہی رہے میں نے تیسری بار قسم دے کر پوچھا تو انھوں نے صرف اتنا کہا ۔ اﷲ عزوجل جانے اور اس کا رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم یہ کلمہ سنکر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور میں وہاں سے لوٹ آیا۔

اسی دوران میں ایک مرتبہ مدینہ کے بازار میں جارہا تھا کہ ایک قبطی کوجو نصرانی تھا اور شام سے مدینہ منورہ اپنا غلہ فروخت کرنے آیا تھا یہ کہتے ہوئے سناکہ کوئی کعب بن مالک( رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) کاپتا بتائیے ۔ لوگوں نے اس کو میری طرف اشارہ کرکے بتایا۔ وہ نصرانی میرے پاس آیا اور غسان کے کافر بادشاہ کا خط مجھے لاکردیا اس میں لکھا ہوا تھا، ’’ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے تجھ پر ظلم کر رکھا ہے تجھے اﷲ عزوجل ذلت کی جگہ نہ رکھے اور ضائع نہ کرے تم ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہاری مد د کریں گے۔‘‘حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں یہ خط پڑھ کر انا للّٰہِ پڑھا کہ میری حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کافر بھی مجھ میں طمع کرنے لگے ہیں اور مجھے اسلام تک سے ہٹانے کی تدبیریں ہونے لگی ہیں۔ یہ ایک مصیبت اور آئی اور اس خط کو میں نے ایک تنور میں پھینک دیااور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے جا کر عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ! اب تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکے اعراض کی وجہ سے کافر بھی مجھ میں طمع کرنے لگے۔

اس حالت میں ہم پر چالیس روز گزرے تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کاقاصد میرے پاس حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکا یہ ارشادِ والالیکر آیا کہ اپنی زوجہ کو بھی چھوڑ دو میں نے دریافت کیا کہ کیا منشا ہے اسکو طلاق دیدوں؟کہا نہیں بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کرلو اور میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی ان ہی قاصد کی معرفت یہی حکم پہنچا میں نے اپنی زوجہ سے کہہ دیا کہ تو اپنے میکے میں چلی جا جب تک اﷲ تعالیٰ اس امر کا فیصلہ نہ فرمائے ،وہیں رہنا۔ ہلال بن امیہ کی زوجہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا :یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ! ہلال بالکل بوڑھے شخص ہیں کوئی خبر گیری کرنے والا نہ ہو گا تو ہلاک ہوجائیں گے ،اگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اجازت دیں تو میں کچھ کام کاج ان کا کردیا کروں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا اچھا اس بات کی تجھے اجازت ہے مگر قربت نہ ہو انھوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ! اس بات کی طرف تو ان کومیلان بھی نہیں جس روز سے یہ واقعہ پیش آیا ہے آج تک ان کا وقت روتے ہی گزر رہا ہے ۔

حضرت کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حال میں دس روز اور گزرے کہ ہم سے بات چیت میل جول چھوٹے ہوئے پورے پچاس دن ہوگئے۔ پچاسویں دن صبح کی نماز اپنے گھر کی چھت پر پڑھ کر میں نہایت غمگین بیٹھا ہو اتھا کہ زمین مجھ پر بالکل تنگ تھی اور زندگی دو بھر ہورہی تھی کہ سلع پہاڑ کی چوٹی پر ایک زور سے چلانے والے نے آواز دی کہ کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خوـشخبری ہو تم کو میں اتنا ہی سنکر سجدہ میں گر گیا اور خوشی کے مارے رونے لگا اور سمجھا کہ تنگی دور ہوگئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے صبح کی نماز کے بعد ہماری معافی کا اعلان فرمایا جس پر ایک شخص نے پہاڑ پر چڑھ کر زور سے آواز دی جو سب سے پہلے پہنچ گئی، اسکے بعد ایک صاحب گھوڑے پر سوار بھاگے ہوئے آئے، میں نے اپنے پہننے کے کپڑے اس بشارت دینے والے کی نذر کئے اور پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ا س طرح میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی خوشخبری لیکر لوگ گئے۔ میں جب مسجد نبوی میں گیا تو لوگ خدمت اقدس میں حاضر تھے ۔ مبارکباد دینے کے لئے دوڑے اور سب سے پہلے ابوطلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بڑھ کر مبارکباددی اور مصافحہ کیا جوہمیشہ ہی یادگار رہے گا۔ میں نے حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ میں جا کر سلام کیا تو چہرہ انور کھل رہاتھا او ر خوشی کے انوارچہرہ مبارک سے ظاہر ہورہے تھے ۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا چہر ہ مبارک خوشی کے وقت چاند کی طرح چمکنے لگتا تھا ۔

میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم! میری توبہ کی تکمیل یہ ہے کہ میری جتنی جائداد ہے و ہ سب اﷲ عزوجل کے راستے میں صدقہ ہے ( اس لئے کہ یہ امارت و ثروت ہی اس مصیبت کا سبب بنی تھی ) حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا کہ اس میں تنگی ہوگی کچھ حصہ اپنے پاس بھی رہنے دو میں نے عرض کیا بہتر ہے کچھ حصہ میرے پاس بھی رہنے دیا جائے مجھے سچ ہی نے نجات دی ا س لئے میں نے عہد کیا ہمیشہ سچ ہی بولوں گا۔
(صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث کعب بن مالک.....الخ، الحدیث: ۴۴۱۸،ج۳،ص۱۴۵)
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے

Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349276 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.