غزوہ احد اور تعلیم امت

اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ماہ شوال میں غزوۂ احد وقوع میں آیا۔جب قریش بدر میں شکست فاش کھا کر مکہ میں آئے تو ابو سفیان کے قافلے کا تمام مال دارالندوہ میں رکھا ہوا پایا ۔ عبد اﷲ بن ابی ربیعہ اور عکرمہ بن ابی جہل اور صفوان بن امیہ وغیرہ روسائے قریش جن کے باپ بھائی اور بیٹے جنگ بدر میں قتل ہوئے تھے ۔ابو سفیان اور دیگر شرکاء کے پاس آکر کہنے لگے کہ اپنے مال کے نفع سے مدد کرو تاکہ ہم ایک لشکر تیار کریں اور (حضرت)محمد ﷺ سے بدلہ لیں ۔سب نے بخوشی منظور کیا ۔چنانچہ تمام مال فروخت کر دیا گیا ۔ اور حسب قرار داداور اس المال مالکوں کو دیا گیا اور نفع تجہیز لشکر میں کام آیا ۔ اسی بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔’’جو لوگ کافر ہیں خرچ کرتے ہیں اپنے مال تاکہ روکیں اﷲ کی راہ سے سوا بھی اور خرچ کرینگے پھر آخر ہو گا ان پر پچھتاؤ پھر آخر مغلوب ہوں گے اور جو کافر ہیں دوزخ کو ہانکے جائیں گے ۔‘‘(سورۃ الانفال)

قریش نے بڑی سر گرمی سے تیاری کی اور قبائل عرب کو بھی دعوت جنگ دی ۔ مردوں کے ساتھ عورتوں کی ایک جماعت بھی شامل ہوئی تاکہ ان کو مقتولین بدر کی یاد دلاکر لڑائی پر اُبھارتی رہیں ۔ چنانچہ ابو سفیان کی زوجہ ہند بنت عتبہ ، عکرمہ بن ابو جہل کی زوجہ ام حکیم بنت حارث بن ہشام ،حارث بن ہشام بن مغیرہ کی زوجہ فاطمہ بنت ولید بن مغیرہ ،صفوان بن امیہ کی زوجہ برزہ بنت مسعود ثقفیہ ،عمر و بن عاص کی زوجہ ربط بنت شیبہ سہمیہ، طلحہ ججی کی زوجہ سلافہ بنت سعد۔ اپنے اپنے شوہروں سمیت نکلیں اسی طرح خناس بنت مالک اپنے بیٹے ابو عزیز بن عمیر کے ساتھ نکلی ۔کل تعداد تین ہزار تھی جن میں سات سو زرہ پوش تھے۔ ان کے ساتھ دو سو گھوڑے تین ہزار اونٹ اور پندرہ عورتیں تھیں ۔جبیربن مطعم نے اپنے حبشی غلام وحشی کو بھی یہ کہہ کر بھیج دیا کہ اگر تم محمد (ﷺ) کے چچا حمزہ کو میرے چچا طعیمہ بن عدی کے بدلے قتل کرو تو میں تم کو آزاد کردوں گا۔

یہ لشکر قریش ابو سفیان کی سرکردگی میں مدینہ کی طرف روانہ ہوا اور مدینہ کے مقابل احد کی طرف بطن وادی میں اترا ۔حضرت عباس بن عبد المطلب نے جوابھی تک مکہ میں تھے بذریعہ خط حضرت نبی اکرم ﷺ کو قریش کی تیاری کی خبر دی ۔حضور اکرم ﷺ نے حضرت انس دمونس پسران فضالہ بن عدی انصاری کو بطور جاسوس بھیجا ۔وہ خبر لائے اور کہنے لگے کہ مشرکین نے اپنے اونٹ اور گھوڑے عریض میں چھوڑ دئیے ہیں جنہوں نے چراگاہ میں سبزی کا نام و نشان نہیں چھوڑا ۔پھر حضور اکرم ﷺ نے حضرت حباب بن منظر کو بھی بغرض تجسس بھیجا۔ وہ لشکر کی تعداد وغیرہ کی خبرلائے ۔ جمعہ کی رات (14شوال) کو حضرت سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر اور سعد بن عبادہ ایک جماعت کے ساتھ مسلح ہو کر حضور اکر م ﷺ کے دولت خانے پر پہرہ دیتے رہے اور شہر پر بھی پہرہ لگا رہا ۔ اسی رات حضور اکرم ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ گویا آپ مضبوط زرہ پہنے ہوئے ہیں ۔آپ کی تلوار ذوالفقار ایک طرف سے ٹوٹ گئی ہے ایک گائے نظر پڑی جو ذبح کی جا رہی ہے اور آپ کے پیچھے ایک مینڈھا سوار ہے ۔ صبح کو آپ نے یہ تعبیر بیان فرمائی کہ مضبوط زرہ مدینہ ہے ۔تلوار (طبقات بن سعد ،بخاری شریف میں ہے کہ تلوار کا اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا جس کی تعبیر اصحاب کرام کی شکستگی و ہزیمت تھی ۔)کی شکستگی ذات شریف پر مصیبت ہے ۔گائے آپ کے وہ اصحاب ہیں جو شہید ہوں گے اور مینڈھا کبش(طلحہ بن ابی طلحہ کو کیش الکتیبہ کہا کرتے تھے)الکتیبہ ہے ۔جسے اﷲ تعالیٰ قتل کرے گا۔ اس خواب کے سبب سے حضور انور ﷺ کی رائے تھی کہ لڑائی کے لئے مدینہ سے باہر نہ نکلیں ۔عبد اﷲ بن ابی کی بھی یہ رائے تھی ۔حضور اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب سے مشور کیا تو اکابر مہاجرین و انصار بھی آپ سے متفق ہو گئے مگر وہ نوجوان جو جنگ بدر میں شامل نہ تھے ۔آپ سے درخواست کرنے لگے کہ مدینہ سے نکل کر لڑنا چاہیے ۔ان کے اصرار پر آپ نکلنے کی طرف مائل ہوئے ۔نماز جمعہ کے بعد آپ نے وعظ فرمایا ۔اہل مدینہ و اہل عوالی جمع ہو گئے ۔آپ دولتخانہ میں تشریف لے گئے اور دوہری زرہ پہن کر نکلے ۔یہ دیکھ کر وہ نوجوان کہنے لگے کہ ہمیں زیبا نہیں کہ آپ کی رائے کے خلاف کریں ۔اس پر آپ نے فرمایا کہ پیغمبر خدا کو شایاں نہیں کہ جب وہ زرہ پہن لے تو اسے اتار دے ۔یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اس کے اور دشمن کے درمیان فیصلہ کر دے ۔اب جو میں حکم دوں وہی کرو۔ اور خدا کا نام لے کر چلو۔ اگر تم صبر کرو گے تو فتح تمہاری ہو گی ۔ پھر آپ نے تین جھنڈے تیار کئے ۔اوس کا جھنڈا حضرت اسید بن حضیر کو اور خزرج کا جھنڈا حضرت خباب بن منذر کو اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی ابن ابی طالب کو عطا فرمایا ۔اس طرح آپ ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ نکلے جن میں سے ایک سو (100)نے دوہری زرہ پہنی ہوئی تھی ۔ حضرت سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ زرہ پہنے ہوئے آپ کے آگے چل رہے تھے ۔جب آپ ثنیۃ الوداع کے قریب پہنچے تو ایک فوج نظر آئی آپ کے دریافت فرمانے پر صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ یہود میں سے ابن ابی کے حلیف ہیں جو آپ کی مدد کو آئے ہیں ۔آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ لوٹ جائیں کیونکہ ہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے مدد نہیں لیتے ۔ جب آ پ موضع شیخان میں اترے تو عرض لشکر کے بعد آپ نے بعض صحابہ کرام کو بوجہ صغر سنی واپس کر دیا چنانچہ اسامہ بن زید ۔ابن عمر ،زید بن ثابت ،براء بن عازب، عمرو بن حزم ،اسید بن ظہیر انصاری ،ابو سعید خدری ،عرابہ بن اوس، زید بن ارقم ،سعد بن عقب، سعد بن حبتہ ،زید بن جاریہ انصاری اور جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہم واپس ہوئے ۔حضرت سمرہ بن جندب اور رافع بن خدیج تو پندرہ پندرہ سال کے تھے پہلے روک دیئے گئے ۔پھر عرض کیا گیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ رافع اچھا نیزہ انداز ہے اس لئے وہ بھی رکھ لئے گئے ۔ پھر سمرہ کی نسبت کہا گیا کہ وہ کشتی میں رافع کو بچھاڑ دیتے ہیں ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دونوں کشتی لڑیں ۔چنانچہ سمرہ نے رافع کو بچھاڑ دیا ۔اس طرح حضرت سمرہ بھی رکھ لئے گئے ۔ رات یہیں بسر ہوئی ۔ دوسرے روز باغ شوط میں جو مدینہ اور احد کے درمیان ہے فجر کے وقت پہنچے اور نماز با جماعت ادا کی گئی ۔اسی جگہ ابن ابی اپنے تین سو آدمی لے کر لشکر اسلام سے علیحدہ ہو گیا اور یہ کہہ کر مدینہ کو چلا آیا کہ حضرت نے ان کا کہا مانا میرا کہا نہ ماناپھر ہم کس لئے یہاں جان دیں۔ جب یہ منافقین واپس ہوئے تو صحابہ کرام کے ایک گروہ نے کہا کہ ہم ان سے قتال کرتے ہیں اور دوسرے گروہ نے کہا کہ ہم قتال نہیں کرتے کیونکہ یہ مسلمان ہیں ۔اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:ترجمہ ’’پس کیا ہے واسطے تمہارے بیچ منافقوں کے دو فرقے ہو رہے ہو ۔ اور اﷲ نے الٹا کیا ان کو بسبب اس چیز کے کہ کمایا انہوں نے ۔ کیا ارادہ کرتے ہو تم یہ کہ راہ پر لاؤ جس کو گمراہ کیا ! اﷲ نے ؟ اور جس کو گمراہ کرے اﷲ پس ہر گز نہ پائے گا تو واسطے اس کے راہ ۔‘‘(سورۃ النساء ،پارہ 4)

ابن ابی کا قول سن کر خزرج میں سے بنو سلمہ اور اوس میں سے بنو حارثہ نے دل میں لوَٹنے کی ٹھہرائی ۔مگر اﷲ تعالیٰ نے ان کو بچالیا ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے :جب قصد کیا دو فریقوں نے تم میں سے یہ کہ نا مردی کریں اور دوستدار تھا ان کا اﷲ اور اوپر اﷲ کے پس چاہئے کہ توکل کریں ایمان والے۔(سورۃ آل عمران )

اب حضو راکرم ﷺ کے ساتھ سو آدمی اور دو گھوڑے رہ گئے ۔ آپ نے ابو خیثمہ انصاری کو بطور بدرقہ ساتھ لیا ۔تاکہ نزدیک کے راستے سے لے چلے۔اس طرح حضور ﷺ حرہ بنی حارثہ اور ان کے اموال کے پاس سے گزرتے ہوئے مربع بن قیظی منافق کے باغ کے پاس پہنچے وہ نابینا تھا ۔ اس نے جب لشکر اسلام کی آہٹ سنی تو ان پر خاک پھینکنے لگا اور حضور اکرم ﷺ سے کہنے لگا کہ اگر تو اﷲ کا رسول ہے تو میں تجھے اپنے باغ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا ۔ یہ سن کر صحابہ کرام اسے قتل کرنے دوڑے ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ۔کہ اسے قتل نہ کرو یہ آنکھ کا اندھا دل کا بھی اندھا ہے ۔مگر حضور اکرم ﷺ کے منع کرنے سے پہلے ہی سعد بن زید اشہلی نے اس پر کمان ماری اور سر توڑ دیا ۔یہاں سے روانہ ہو کر لشکرِ اسلام نصف شوال یوم شنبہ کو کوہِ احد کی شعب (درّہ) میں کرانہ وادی میں پہاڑ کی طرف اترا ۔حضور اکرم ﷺ نے صف آرائی کے لئے پہاڑ کو پس پشت اور کوہ عینَین کو جووادیٔ قنات میں ہے اپنی بائیں طرف رکھا ۔کوہ عینیں میں ایک شگاف یا درہ تھا ۔جس میں سے دشمن عقب سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکتا تھا ۔ اس لئے آپ نے اس درے پر اپنے 50پیدل تیر انداز مقرر کئے اور حضرت عبد اﷲ بن جبیر کو ان کا سردار بنایا اور یوں ہدایت کی ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہم کو اچک لئے گئے ہیں ۔تو اپنی جگہ کو نہ چھوڑ و یہاں تک کہ میں تمہارے پاس کسی کو بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دی ہے اور مار کر پامال کر دیا ہے تو بھی ایسا نہ کرنا۔‘‘(صحیح بخاری کتاب الجہاد )

مشرکین بھی جو عینین میں وادیٔ قنات کے مدینہ کی طرف کے کنارے پر شورستان میں اترے ہوئے تھے صفیں آراستہ کیں ۔چنانچہ انہوں نے سواروں کے میمنہ پر خالد بن ولید کو میسرہ پر عکرمہ بن ابی جہل کو ۔ پیدلوں پر صفوان بن امیہ کو اور تیر اندازوں پر جو تعداد میں ایک سو تھے ،عبد اﷲ بن ابی ربیعہ کو مقرر کیا اور جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ کو دیا ۔جب حضور اکرم ﷺ نے دیکھا کہ مشرکین کا جھنڈا بنو عبد الدار کے پاس ہے ۔تو آپ نے لشکر اسلام کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف بن عبد الدار کو دیا اور میمنہ پر حضرت زبیر بن عوام اور میسرہ پر حضرت منذر بن عامر کو مقرر فرمایا ۔

مشرکین میں سب سے پہلے جو لڑائی کے لئے نکلا وہ ابو عامر انصاری اوسی تھا اس کو راہب کہا کرتے تھے مگر رسول اﷲ ﷺ نے اس کا نام فاسق رکھا۔ زمانۂ جاہلیت میں وہ قبیلہ اوس کا سردار تھا ۔جب حضور اکرم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے تو وہ آپ کی مخالفت کرنے لگا اور مدینہ سے نکل کر مکہ میں چلا آیا۔ اُس نے قریش کو آپ سے لڑنے پر آمادہ کیا اور کہا کہ میری قوم جب مجھے دیکھے گی ۔ تو میرے ساتھ ہو جائے گی اس لئے اس نے پکار کر کہا ’’اے گروہِ اوس! میں ابو عامر ہوں‘‘ اوس نے جواب دیا ’’اے فاسق !تیری مراد پوری نہ ہو ۔‘‘ فاسق کا نام سن کر کہنے لگا کہ میری قوم میرے بعد بگڑ گئی ہے ۔اس کے ساتھ غلامانِ قریش کی ایک جماعت تھی ۔ وہ مسلمانوں پر تیر پھینکنے لگے ۔مسلمان بھی ان پر سنگباری کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ ابو عامر اور اس کے ساتھی بھاگ گئے ۔

مشرکین کا علم بردار طلحہ صف سے نکل کر پکارا۔’’مسلمانو! تم سمجھتے ہو کہ ہم میں سے جو تمہارے ہاتھوں مر جاتا ہے وہ جلد دوزخ پر پہنچ جاتا ہے اور تم میں جو ہمارے ہاتھوں مرجاتا ہے وہ جلد بہشت میں پہنچ جاتا ہے ۔کیا تم میں کوئی ہے جس کو میں جلد بہشت میں پہنچادوں۔یاوہ مجھے جلد دوزخ میں پہنچا دے۔‘‘ حضرت علی بن ابی طالب نکلے اور طلحہ کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ کھوپڑی پھاڑ دی اور وہ گر پڑا ۔ حضور اکرم ﷺ کبش الکتیبہ کے مارے جانے پر خوش ہوئے آپ نے تکبیر کہی ۔ مسلمانوں نے بھی آپ کی اقتداء کی ۔ طلحہ کے بعد اس کے بھائی عثمان بن ابی طلحہ نے جھنڈا ہاتھ میں لیا ۔اس کے پیچھے عورتیں اشعار پڑھتی آتی تھیں اور وہ ان کے آگے یہ رجز پڑھتا تھا۔ ’’بیشک علم برداروں پر واجب ہے کہ نیزہ خون سے سرخ ہو جائے یا ٹوٹ جائے۔‘‘

حضرت حمزہ بن عبد المطلب مقابلے کے لئے نکلے اور عثمان کے دوشانوں کے درمیان اس زور سے تلوار ماری کہ ایک بازو اور شانے کو کاٹ کر سرین تک جا پہنچی ۔ حضرت حمزہ واپس آئے اور زبان پر یہ الفاظ تھے ۔’’میں ساقی حجاج (عبد المطلب ) کا بیٹا ہوں اب میدان کا رزار گرم ہوا ۔ حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک میں ایک تلوار تھی ۔آپ نے فرمایا ۔ کون ہے جو اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کرے ۔یہ سن کر کئی شخص آپ کی طرف بڑھے ۔مگر آپ ﷺ نے وہ تلوار کسی کو نہ دی ۔ابو دجانہ (سماک بن خرشہ انصاری ) نے اٹھ کر عرض کیا ۔یا رسول اﷲ (ﷺ)! اس کا حق کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کا حق یہ ہے کہ تو اس کو دشمن پر مارے ،یہاں تک کہ ٹیڑی ہو جائے ۔ابو دجانہ نے عرض کیا ۔یا رسول اﷲ (ﷺ)! میں اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں ۔حضور اکرم ﷺ نے ابو دجانہ کو عنایت فرمائی ۔ ابو دجانہ مشہور پہلوان تھے اور لڑائی میں اکڑ کر چلا کرتے تھے ۔ جب سرخ رومال سر پر باندھ لیتے تو لوگ سمجھ جاتے تھے کہ لڑیں گے ۔ انہوں نے تلوار لے کر حسب عادت سر پر سرخ رومال باندھا اور اکڑتے تنتے نکلے ۔یہ دیکھ کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’یہ چال خدا کو ناپسند ہے ‘‘ حضرت ابو دجانہ صفوں کو چیرتے اور لاشوں پر لاشے گراتے دامن کوہ میں مشرکین کی عورتوں تک جا پہنچے ۔جو بغرض ترغیب دف پر اشعار گار ہی تھیں۔

حضرت ابو دجانہ نے تلوار اٹھائی کہ ہند بنت عتبہ کے سرپر ماریں ۔پھر بدیں خیال رکھ گئے کہ یہ سزا وار نہیں ۔کہ رسول اﷲ ﷺ کی تلوار ایک عورت پر ماری جائے ۔

حضرت ابو دجانہ کی طرح حضرت حمزہ و حضرت علی وغیرہ بھی دشمنوں میں جا گھسے اور صفوں کی صفیں صاف کر دیں ۔حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کو آخر کار وحشی نے جو بعد میں ایمان لائے شہید کر دیا۔ وحشی اپنا قصہ یوں بیان کرتے ہیں ۔’’حمزہ نے طعیمہ بن عدی بن الخیا ر کو بدر میں قتل کر دیا تھا ۔اس لئے میرے آقا جبیر بن مطعم نے کہا ۔ اگر تو حمزہ کو میرے چچا کے بدلے قتل کر دے تو آزاد ہو جائے گا۔‘‘ جب سال عینین میں (عینین احد کے مقابل ایک پہاڑ ہے اور دونوں کے درمیان ایک وادی ہے ) لوگ نکلے ۔تو میں لوگوں کے ساتھ لڑائی کے لئے نکلا ۔جب لڑائی کے لئے صف بستہ ہوئے تو سباع بن عبد العزیٰ نکلا اور کہا کیا کوئی مباز رہے ؟ یہ سن کر حمزہ بن عبد المطلب اس کی طرف نکلے اور یوں خطاب کیا۔ اے سباع! اے عورتوں کے ختنہ کرنے والی ام نمار کے بیٹے! کیا تو خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کرتا ہے ؟ یہ کہہ کر حمزہ نے اس پر حملہ کیا ۔پس وہ گل گزشتہ کی طرح ہو گیا ۔ میں ایک پتھر کے نیچے حمزہ کی تاک میں تھا ۔جب حمزہ مجھ سے نزدیک ہوا۔میں نے اپنا حربہ اس پر مارا اور اس کی ناف و عانہ کے درمیان لگا۔یہاں تک کہ اس کے دورانوں میں سے نکل گیا اور یہ اس کا آخر امر تھا ۔ جب لوگ واپس آئے میں ان کے ساتھ واپس آیا اور مکہ میں ٹھہرا یہا ں تک کہ اس میں اسلام پھیل گیا ۔ پھر (فتح کے بعد ) طائف کی طرف بھاگ گیا ۔جب اہل طائف نے رسول اﷲ ﷺ کی طرف اپنے قاصد بھیجے تو مجھ سے کہا گیا کہ حضور اکرم ﷺ قاصدوں کو تکلیف نہیں دیتے ۔اس لئے میں قاصدوں کے ساتھ نکلا اور رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔جب آپ نے مجھے دیکھا تو پوچھا کیا تو وحشی ہے ؟ میں نے کہا ہاں! آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تو نے حمزہ کو قتل کیا ؟ میں نے کہا۔ایسا ہی وقوع میں آیا ہے ۔جیسا کہ آپ کو خبر پہنچی ہے ۔آپ نے فرمایا ۔تو میرے سامنے نہ آیا کر پس میں چلا گیا ۔جب رسول اﷲ ﷺ کا وصال ہوا تو مسیلمہ کذاب ظاہر ہوا ۔ میں نے کہا کہ میں مسیلمہ کی طرف ضرور نکلوں گا۔ شاید میں اسے مار ڈالوں اور اس طرح سے قتل حمزہ کی مکافات کر دوں ۔اس لئے میں لوگوں کے ساتھ نکلا ۔مسیلمہ کا حال ہوا جو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک شخص سے دیوار کے درمیان کھڑا ہوا۔گویا کہ وہ ایک ژولیدہ موخا کستری اونٹ ہے ۔میں نے اس پر اپنا حربہ مارا جو اس کے دوپستان کے درمیان لگا۔ یہاں تک کہ اس کے دونوں شانوں کے درمیان سے پار ہو گیا۔ انصار میں سے ایک شخص اس کی طرف کودا اور اس کے سر پر تلوار ماری پر ایک لونڈی نے گھر کی چھت پر (نوحہ کرتے ہوئے ) کہا ۔وائے امیر المؤمنین (مسیلمہ کذاب کو امیر المومنین اس لئے کہا کہ اس پر ایمان لانے والوں کو امور کار مرجع دہی تھا ۔اس سے تلقیب مقصود نہ تھی۔)اسے ایک حبشی غلام وحشی نے قتل کر دیا ۔(صحیح بخاری ۔باب قتل حمزہ)

حضرت حنظلہ بن ابی عامر انصاری اوسی نے مشرکین کے سپہ سالار ابو سفیان پر حملہ کیا اور قریب تھا کہ ابو سفیان کو قتل کر دیتے ۔مگر شداد بن الاسود نے ان کے وار کو روک لیا اور اپنی تلوار سے حضرت حنظلہ کو شہید کر دیا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے حنظلہ کو غسل دے رہے ہیں۔ ان کی بیوی سے ان کا حال دریافت کرو۔ بیوی نے کہا کہ شب احد کو ان کی شادی ہوئی تھی۔ صبح کو اٹھے تو غسل کی حاجت تھی۔ غسل کیلئے آدھا سردھویا تھاکہ دعوتِ جنگ کی آواز کان میں پڑی ۔فوراً اسی حالت میں وہ شریک جنگ ہو گئے ۔یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسی سبب سے اسے فرشتے غسل دے رہے ہیں ۔اسی وجہ سے حضرت حنظلہ کو غسیل الملائکہ کہتے ہیں۔(سیرت ابن ہشام)

بہادرانِ اسلام نے خوب داد شجاعت دی ۔ مشرکین کے پاؤں اکھڑ گئے ۔ عثمان بن ابی طلحہ کے بعد ان کے علمبردار ابو سعید بن ابی طلحہ ۔مسافح بن طلحہ۔حارث بن طلحہ ۔کلاب بن طلحہ ۔جلاس بن طلحہ ۔ارطات بن شرجیل شریح بن قارظ اور ابو زید بن عمرو بن مناف یکے بعد دیگر ے قتل ہو گئے ۔ان کا جھنڈا زمین پر پڑا رہ گیا ۔ کوئی اس کے نزدیک نہ آتا تھا ۔عمر بن علقمہ حارثیہ نے اٹھالیا ۔جس سے ایک حبشی غلام صواب نامی نے لے لیا۔ قریش اس کے گرد جمع ہو گئے ۔ لڑتے لڑتے صواب کے دونوں بازو کٹ گئے ۔وہ سینے کے بل زمین پر گڑپڑا۔اور جھنڈے کو سینے اور گردن کے درمیان دبا لیا۔ اس حالت میں یہ کہتا ہوا مارا گیا کہ ’’میں نے اپنا فرض ادا کر دیا‘‘(سیرت ابن ہشام )

صواب کے بعد کسی کو جھنڈا اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی ۔مشرکین کو شکست ہوئی ۔وہ عورتیں جو دف بجاتی تھیں ۔اب کپڑے چڑھائے برہنہ ساق پہاڑ پر بھاگی جا رہی تھیں ۔مسلمان قتل و غارت میں مشغول تھے ۔یہ دیکھ کر عینین پر تیر اندازوں نے آپس میں کہا ۔’’غنیمت !غنیمت!تمہارے اصحاب غالب آ گئے ہیں۔اب تم کیا دیکھتے ہو۔ ‘‘حضرت عبد اﷲ بن جبیر نے انہیں رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد یاد دلایا۔ مگر بدیں خیال کہ مشرکین اب واپس نہیں آسکتے ۔اپنی جگہ چھوڑ کر لوٹنے میں مشغول ہو گئے اور صرف چند آدمی حضرت عبد اﷲ کے ساتھ رہ گئے ۔خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابی جہل نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر حضرت عبد اﷲ اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کیا اور سب کو شہید کر دیا ۔پھر درۂ کوہ میں سے آکر عقب سے لشکر اسلام پر ٹوٹ پڑے اور ان کی صفوں کو درہم برھم کر دیا ۔ابلیس لعین نے پکار کر کہا ۔ ان محمدا قد قتل۔’’محمد قتل ہو چکے‘‘مسلمان سرا سیمہ بھاگنے لگے اور ان کے تین فرقے ہو گئے ۔ فرقہ قلیل بھاگ کر مدینہ کے قریب پہنچ گئے اور اختتام جنگ تک واپس نہیں آئے ۔ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے: ’’تحقیق جو لوگ کہ پیٹھ موڑ گئے تم میں سے اس دن کہ ملیں دو جماعتیں ۔سوائے اس کے نہیں کہ ڈکا دیا ان کو شیطان نے کچھ ان کے گناہوں کی شامت سے اور تحقیق معاف کیا اﷲ نے ان سے بیشک اﷲ بخشنے والا بردبار ہے ۔‘‘(سورہ آل عمران)

دوسرا فرقہ یعنی اکثر صحابہ کرام یہ سن کر کہ رسول اﷲ ﷺ قتل ہو گئے حیران ہو گئے ۔ان میں سے جہاں کوئی تھاو ہیں رہ گیا ۔او راپنی جان بچاتارہا یا جنگ کرتا رہا ۔تیسرا فرقہ جو بارہ یا کچھ اوپر صحابہ تھے ۔رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ ثابت رہا ۔ فتح کے بعد مسلمانوں کو جو شکست ہوئی ۔اس کی وجہ حضور اکرم ﷺ کی ارشاد کی خلاف ورزی تھی ۔جیسا کہ آیات ذیل سے ثابت ہے ۔’’اور البتہ تحقیق سچا کیا ہے تم سے اﷲ نے وعدہ اپنا جس وقت کاٹتے تھے تم ان کو اس کے حکم سے ۔یہاں تک کہ جب نامردی کی تم نے اور جھگڑا کیا تم نے اپنے کام میں اور نا فرمانی کی تم نے بعد اس کے کہ دکھلایا تم کو جو چاہتے تھے ۔ تم بعض تم میں سے وہ تھا کہ ارادہ کرتا تھا دنیا کا اور بعض تم میں سے وہ تھا کہ ارادہ کرتا تھا آخرت کا ۔ پھر پھیر دیا تم کو ان سے تاکہ آز ماوے تم کو اور البتہ تحقیق معاف کیا تم سے اور اﷲ صاحب فضل ہے ایمان والوں پر جس وقت چڑھے جاتے تھے ۔تم شہر کو اور پیچھے نہ دیکھتے تھے کسی کو اور رسول پکارتا تھا تم کو پچھاڑی میں پس دو بارہ دیا تم کو غم ساتھ غم کے تاکہ تم غم نہ کھاؤ اس چیز کا جو چوک گئی تم سے اور جو نہ پہنچی تم کو اور اﷲ کو خبر ہے اس چیز کی کہ کرتے ہو تم۔‘‘(آل عمران)

خالد بن ولید کے حملے پر مسلمانوں میں جو لُوٹنے میں مشغو ل تھے ایسی ابتری و سراسیمگی پھیلی کہ اپنے بیگانے میں تمیز نہ رہی ۔چنانچہ حضرت حذیفہ کے والد حضرت یمان کو مسلمانوں ہی نے شہید کر دیا ۔

حضور اکرم ﷺ کی شہادت کی آواز نے بڑے بڑے بہادروں کو بد حواس کر رکھا تھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میرے چچا حضرت انس بن نضر جنگ بدر میں حاضر نہ تھے ۔وہ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے ۔یا رسول اﷲ ﷺ میں پہلے قتال میں کہ آپ نے مشرکین سے کیا ہے ۔حاضر نہ تھا میں اگر خدا مجھے مشرکین کے قتال میں حاضر کرے تو دیکھئے گا کہ میں کیا کرتا ہوں ۔جب احد کا دن آیا اور مسلمانوں نے شکست کھائی تو کہا ۔یا اﷲ میں عذر چاہتا ہوں تیرے آگے اس سے جو ان لوگوں نے کیا۔

یعنی اصحاب کرام نے ۔اور بیزار ہوں تیرے آگے اس سے جوان لوگوں نے کیا ۔ یعنی مشرکوں نے پھر لڑائی کے لئے آئے ۔حضرت سعد بن معاذ ان کو ملے ۔ابن نضر نے کہا سعد! میں بہشت چاہتا ہوں اور نضر کے رب کی قسم کہ میں احد کی طرف سے اس کی خوشبو پاتا ہوں ۔سعد نے کہا ۔یا رسول اﷲ ﷺ میں نہ کر سکا جو ابن نضر نے کیا ۔انس بن مالک کا قول ہے کہ ’’ہم نے اب نضر پر 80 سے کچھ اوپر تلوار اور نیزہ و تیر کے زخم پائے اور وہ شہید تھے۔‘‘مشرکین نے ان کو مُثلہ کر دیا تھا ۔ان کو فقط ان کی بہن نے انگلیوں کے پوروں سے پہچانا ۔ راوی کا بیان ہے کہ ہم گمان کرتے تھے کہ آیت ذیل میں ابن نضر اور اس کی مثل دوسروں کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔’’مسلمانوں میں سے وہ مرد ہیں کہ سچ کر دکھایا انہوں نے اس چیز کو کہ عہد باندھا تھا اﷲ سے اس پر ۔پس بعض ان میں سے وہ ہے کہ پورا کر چکا کام اپنا اور بعض ان میں سے وہ ہیں کہ انتظار کرتا ہے اور نہیں بدل ڈالا انہوں نے کچھ بدل ڈالنا۔‘‘(سورۃ الاحزاب)

ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن نضر نے راستے میں مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کو دیکھا جس میں حضرت عمر فاروق و طلحہ بن عبید اﷲ بھی تھے ۔وہ مایوس ہو کر بیٹھ رہے تھے ۔ ابن نضر نے ان سے پوچھا کہ کیوں بیٹھ رہے ہو ! انہوں نے جواب دیا کہ رسول اﷲ ﷺ شہادت پا چکے ہیں۔ ابن نضر نے کہا کہ حضو رﷺ کے بعد تم زندہ رہ کر کیا کرو گے ۔ تم بھی اسی طرح دین پر شہید ہو جاؤ ۔ پھر ابن نضر نے جنگ کی اور شہید ہو گئے ۔(سیرت ابن ہشام)

حضرت ابن نضر کی طرح ثابت بن وحداح آئے اور انصار سے یوں خطاب کیا ۔ ’’اے گروہِ انصار ۔اگر حضرت محمد ﷺ شہید ہو چکے ۔تو اﷲ تو زندہ ہے مرتا نہیں ۔تم اپنے دین کے لئے لڑو۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے چند انصار کے ساتھ خالد بن ولید کی فوج پر حملہ کیا ۔مگر خالد بن ولید نے ان کو شہید کر دیا ۔(اصابہ )

حضور اکرم ﷺ کے قتل کی افواہ اور مسلمانوں کی نظروں سے غائب ہونے کے بعد سب سے پہلے حضرت کعب بن مالک انصاری نے حضور اکرم ﷺ کو پہچانا سر مبارک پر مغفر تھا جس کے نیچے سے آپ ﷺ کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ حضرت کعب نے زور سے پکارکر کہا ۔’’مسلمانو! رسول اﷲ ﷺ یہ ہیں۔‘‘ یہ سن کر ایک جماعت حاضر خدمت ہوئی اور آپ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق، عمر فاروق ،علی المرتضیٰ ،طلحہ بن عبید اﷲ ،زبیر بن العوام اور حارث بن صمہ وغیرہ کے ساتھ شعب کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ اپنے باقی اصحاب کا حال دیکھیں۔ اب کفار نے بھی سب طرف سے ہٹ کر اسی رخ پر زور دیا ۔وہ بار بار ہجوم کر کے حملہ آور ہوتے تھے ۔ایک دفعہ ہجوم ہوا۔ تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :’’کون مجھ پر جان دیتا ہے ۔‘‘ حضرت زیاد بن سکن پانچ یا سات انصاری ساتھ لے کر حاضر ہوئے جنہوں نے یکے بعد دیگر ے جانبازی سے لڑ کر جانیں فدا کر دیں ۔ عتبہ بن ابی وقاص نے پتھر مار کر حضور اکرم ﷺ کا دانت مبارک (رُبا عیہ یُمنیٰ سُفلیٰ)شہید کر دیا ۔(ابن جوزی نے اور خطیب نے تاریخ میں محمد بن یوسف حافظ قریابی سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا کہ مجھ پر خبر پہنچی ہے کہ جس نے رسول اﷲ ﷺ کا رۃباعیہ توڑا تھا اس کے گھر میں جو بچہ پیدا ہوتا اس کا رُباعیہ نہ اگتا ۔زقانی علی المواہب )اور نیچے کا ہونٹ زخمی کر دیا ۔

حضرت علی المرتضیٰ نے حضور ﷺکا ہاتھ مبارک پکڑا اور حضرت طلحہ بن عبید اﷲ نے آپ کو اٹھایا ۔یہاں تک کہ آپ سیدھے کھڑے ہو گئے ۔حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے اپنے دانتوں سے خود کا ایک حلقہ نکالا ۔تو ان کا ایک سامنے کا دانت گر پڑا ۔دوسرا حلقہ نکالا تو دوسرا نکل گیا۔ حضرت ابو سعید خدری کے والد مالک بن منان نے حضور ﷺکا خون چوس کر پی لیا ۔حضور اکرم ﷺخود بھی کپڑے سے اپنے چہرے کا خون پونچھ رہے تھے کہ مباد ازمین پر گڑ پڑے تو عذاب نازل ہو اور یہ فرمارہے تھے ۔ ’’اے اﷲ ! میری قوم کو بخش دے ۔کیونکہ وہ نہیں جانتے ‘‘

اس موقع پر بعض اصحاب نے جانبازی کی خوب داد دی ۔چنانچہ حضرت طلحہ بن عبید اﷲ نے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔اس کثرت سے رسول اﷲ ﷺ پر سے تیر روکے کہ ہاتھ بیکار ہو گیا ۔حضرت ابو دجانہ حضور اکرم ﷺ کے آگے ڈھال بنے کھڑے تھے ۔ان کی پشت پر تیر لگ رہے تھے ۔ مگر اپنے آقا رسول اﷲ ﷺ پر جھکے ہوئے تھے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص بھی حضور اکرم ﷺ کی مدافعت میں تیر چلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے آپ پر میرے ماں باپ قربان۔ حضور اکرم ﷺ خودان کو اپنے ترکش میں سے تیر دیتے تھے اور فرماتے تھے ۔’’پھینکتے جاؤ‘‘حضرت ابو طلحہ انصاری کمال تیر انداز تھے ۔انہوں نے اس قدر تیر برسائے کہ دوتین کمانیں ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے ہاتھ میں رہ گئیں ۔وہ حضور انورﷺ پر چمڑے کی ڈھال کی اوٹ بنائے کھڑے تھے ۔حضور ﷺکبھی گردن اٹھا کر دشمنوں کی طرف دیکھتے تو ابو طلحہ عرض کرتے ۔’’آپ پر میرے ماں باپ قربان ! گردن اٹھا کر نہ دیکھئے ۔ایسا نہ ہو کہ کوئی تیر لگ جائے ۔یہ میرا سینہ آپ کے سینے کے لئے ڈھال ہے ۔‘‘ حضرت شماس بن عثمان قرشی مخزومی تلوار کے ساتھ رسول اﷲ ﷺ سے مدافعت کر رہے تھے ۔دائیں بائیں جس طرف سے وار ہوتا تھا ۔وہ ڈھال کی طرح آپ کو بچا رہے تھے یہاں تک کہ شہید ہو گئے ۔ابھی رمقِ حیات باقی تھا کہ ان کو اٹھا کر مدینے میں حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہما کے پاس لے گئے ۔وہاں ایک دن رات زندہ رہ کر وفات پائی ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اس دن ڈھال کے سوا مجھے کوئی ایسی چیز نہ سوجھی کہ جس سے شماس کو رشبیہ دوں ۔ اسی طرح سہل بن حنیف انصاری اوسی تیروں کے ساتھ مدافعت کر رہے تھے اور حضور اکرم ﷺ فرما رہے تھے ’’سہل کو تیر دو‘‘ حضرت قتادہ بن نعمان انصاری حضور اقدس ﷺ کے چہرے مبارک کو بچانے کے لئے اپنا چہرہ سامنے کئے ہوئے تھے ۔آخر کار ایک تیر ان کی آنکھ میں ایسا لگا کہ ڈیلا رخسار پر آ گرا ۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس کی جگہ پر رکھ دیا اور یوں دعا فرمائی:’’ خدایا ! تو قتادہ کو بچا ۔جیسا کہ اس نے تیرے نبی علیہ السلام کے چہرے کو بچایا ہے ۔‘‘پس وہ آنکھ دوسری آنکھ سے بھی تیز اور خوبصورت ہو گئی ۔

اثنائے جنگ میں مشرکین کی عورتیں شہدائے عظام کو مُثلہ کرنے میں مشغول تھیں ۔عتبہ کی بیٹی ہند نے اپنے پاؤں کے کڑے ۔ بالیاں اور ہار حضرت امیر حمزہ کے قاتل وحشی کو دے دیئے اور خود شہداء کے کانوں اور ناکوں سے اپنے واسطے کڑے بالیاں اور ہار بنائے اور حضرت حمزہ کے جگر کو پھاڑ کر چبایا ۔نگل نہ سکی تو پھینک دیا۔(سیرت ابن ہشام)

حضرت مصعب بن عمیر علمبردار لشکر اسلام نے بھی آقائے دو جہاں ﷺ پر جان فدا کر دی ۔جب ابن قمیہ لعین حضور اکرم ﷺ کے قتل کے ارادے سے حملہ آور ہوا تو حضرت مصعب نے مدافعت کی ۔مگر شہید ہو گئے ۔حضرت محمد بن شرجیل عبدری روایت کرتے ہیں کہ حضرت مصعب کا داہنا ہاتھ کٹ گیا ۔تو انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور وہ کہہ رہے تھے ۔ وما محمد الا رسول (الایہ)پھر بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو جھک کر جھنڈے کو دونوں بازوؤں کے ساتھ سینہ سے لگا لیا اور آیۂ مذکور زبان پر تھی ۔راوی کا قول ہے کہ یہ آیت بعد میں نازل ہوئی ۔مگر اس دن اﷲ تعالیٰ نے بجواب قول قائل قد قتل محمد۔ ان کی زبان پر جاری کرد ی تھی ۔حضرت مصعب کے بعد اسلامی جھنڈا حضرت علی المرتضیٰ کو دیا گیا ۔

جب رسول اﷲ ﷺ شعب پر چڑھے ۔تو اُبی بن خلف سامنے آکر کہنے لگا۔’’اے محمد ! اگر تم بچ گئے تو میں نہ بچوں گا۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا ۔اگر اجازت ہو تو ہم میں سے ایک اس کا فیصلہ کر دے ۔حضور اکرم ﷺ نے اجازت نہ دی۔ اور خود حضرت حارث بن صمہ سے نیزہ لے کر اس کی گردن پر مارا ۔جس سے فقط خراش آئی اور لہو نہ نکلا ۔ اُبی مذکور مکہ میں حضورﷺ سے کہا کرتا تھا کہ میرے پاس ایک گھوڑا ہے جس میں ہر روز آٹھ یا دس سیر بختہ ذرہ (جوار) کھلاتا ہوں ۔ اس پر سوار ہو کر آپ کو قتل کروں گا۔ آپ ﷺ فرماتے بلکہ میں ان شاء اﷲ تم کو قتل کروں گا۔ جب وہ قریش میں واپس گیا تو کہنے لگا ۔ اﷲ کی قسم مجھے محمدﷺ نے قتل کر دیا ۔ وہ کہنے لگے تو بے دل ہو گیا ہے ۔ اس خراش کا کچھ ڈر نہیں ۔ اس نے کہا کہ مکہ میں مجھ سے محمدﷺ نے کہا تھا کہ میں تجھے قتل کروں گا۔ سو اﷲ کی قسم اگر وہ مجھ پر صرف تھوک دے تو میں مر جاؤں گا۔ چنانچہ قریش اس دشمن خدا کو مکہ کی طرف لے جا رہے تھے کہ راستے میں مقام سرف میں مر گیا ۔(سیرت ابن ہشام)

جب رسول اﷲ ﷺ شعب کے دہانے پر پہنچے ۔تو حضرت علی مرتضیٰ مہر اس (کُنڈ) سے اپنی ڈھال پانی سے بھر لائے ۔تاکہ حضور پئیں ۔ مگر آپ ﷺ نے اس میں بُو پائی اور نہ پیا ۔حضرت علی نے اس سے حضور اکرم ﷺ کے چہرے سے خون دھویا اور سرِ مبارک پر گرایا ۔ اس وقت حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔
اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ دَمّٰی وَجْہَ نَبِیِّہٖ۔

مشرکین اب تک تعاقب میں تھے ۔چنانچہ جب آپ اصحاب مذکورۂ بالا کے ساتھ شعب میں تھے تو ان کے سواروں کا ایک دستہ بسر کر دگی خالد بن ولید پہاڑ پر چڑھا ۔آپ نے دعا فرمائی کہ خدایا ! یہ ہم پر غالب نہ آئیں ۔ پس حضرت عمر فاروق اور مہاجرین کی ایک جماعت نے قتال کیا ۔ یہاں تک کہ ان کوپہاڑ سے اتار دیا ۔یہاں رسول اﷲ ﷺ ایک چٹان پر چڑھنے لگے تو نا توانی اور دہری زرہ کے سبب سے نہ چڑھ سکے ۔یہ دیکھ کر حضرت طلحہ آپ کے نیچے بیٹھ گئے اور آپ ان کی پشت پر سے چڑھ گئے ۔اس وقت حضور اکرم ﷺ نے فرمایااوجب طلحہ۔(یعنی حضرت طلحہ نے وہ کام کیا کہ جس سے وہ بہشت کے مستحق ہو گئے ۔) اس روز زخموں کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ نے نماز ظہر بیٹھ کر ادا کی اور مقتدیوں نے بھی بیٹھ کر پڑھی ۔

جب ابو سفیان نے میدان سے واپس ہونے کا ارادہ کیا ۔تو سامنے کی ایک پہاڑی پر چڑھ کر پکارا کیا تم میں محمد (ﷺ)ہیں؟حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کا جواب نہ دو۔ وہ پھر پکارا کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے ؟ آپ نے فرمایا ۔اس کا جواب نہ دو۔ اس نے پھر پکار کر کہا کیا تم میں ابن خطاب ہے ؟جب جواب نہ ملا تو کہنے لگا کہ یہ سب مارے گئے ۔کیونکہ اگر زندہ ہوتے تو ضرور جواب دیتے ۔ حضرت عمر سے رہا نہ گیا بول اٹھے۔’’او دشمن خدا !تو نے جھوٹ کہا ۔وہ سب زندہ ہیں ۔اﷲ نے تیرے واسطے وہ باقی رکھا ہے ۔جو تجھے غمگین کرے گا۔ (فتح کے دن) ابو سفیان بولا ۔اے ہبل تو اونچارہ۔

صحابہ کرام نے حسب ارشاد حضور جواب دیا ۔ اللّٰہ اعلی و اجل۔اﷲ اونچا اور بڑا ہے ۔

ابو سفیان نے کہا لنا العزی و لا عزی لکم۔ہمارے پاس عزیٰ ہے اور تمہارے پاس عزیٰ نہیں۔

صحابہ کرام نے حسب ارشاد نبوی جواب دیا۔اللّٰہ مولانا و لا مولیٰ لکم۔اﷲ ہمارا ناصر و مدد گار ہے اور تمہارا کوئی ناصر نہیں۔

ابو سفیان نے کہا ۔آج کا دن بدر کے دن کا جواب ہے ۔لڑائی میں کبھی جیت کبھی ہار ہوتی ہے ۔تم اپنی قوم میں ناک کان کٹے پاؤ گے ۔میں نے اپنی فوج کو یہ حکم نہیں دیا ۔مگر اس پر کچھ رنج بھی نہیں ہوا۔(صحیح بخاری ۔ غزوۂ احد)

اس کے بعد ابو سفیان یہ کہہ کر واپس ہوا کہ ہمارا اور تمہارا مقابلہ آئندہ سال موسم بدر میں ہو گا۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عمر سے فرما دیا کہ کہہ دیجئے ہاں بدر ہمارا اور تمہارا موعد ہے ۔اس طرح جب مشرکین مکہ کولوٹے تو صحابہ کرام کو خدشہ ہوا کہ مبادا وہ مدینہ کا قصد کریں ۔اس لئے حضور انور ﷺ نے علی المرتضیٰ کو دریافت حال کیلئے بھیجا اور فرما دیا کہ اگر وہ اونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑوں کو پہلو میں خالی لئے جا رہے ہوں تو سمجھنا کہ وہ مکہ کو جاتے ہیں اگر اس کابر عکس کریں تو مدینہ کا قصد رکھتے ہیں ۔حضرت علی المرتضیٰ خبر لائے کہ وہ اونٹوں پر سوار گھوڑوں کو خالی لے جا رہے ہیں اور مکہ کی طرف متوجہ ہیں ۔سنلقی فی قلوب الذین کفرو الرعب ۔(آل عمران)۔مشرکین کے اسی فرار کی طرف اشارہ ہے جیسے کہ پہلے آچکا ہے ۔

خواتین اسلام نے بھی اس غزوہ میں حصہ لیا ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ اور ام سلیم (والدہ انس) پائنچے چڑھائے ہوئے کہ جس سے ان کے پاؤں کی جھانجھیں نظر آتی تھیں ۔مشکیں بھر بھر کر لاتی تھیں اور مسلمانوں کو پانی پلاتی تھیں ۔جب مشکیں خالی ہوجاتیں تو پھر بھر لاتیں اور پلاتیں ۔ حضرت ام سلیط (والدہ حضرت ابو سعید خدری) بھی یہ خدمت بجا لا رہی تھیں ۔حضرت ام ایمن (رسول اﷲ ﷺ کی دایہ) اور حمنہ بنت جحش (ام المومنین زینب کی بہن) پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں ۔ حضرت ام عمارہ ،نسیبہ بنت کعب انصار(زوجہ زید بن عاصم انصاری مازنی) اپنے شوہر اور دونوں بیٹوں کے ساتھ مشک لے کر نکلیں ۔جب رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ صرف چند جانباز رہ گئے ۔تو یہ حضور اکرم ﷺ کے پاس پہنچیں اور تیر اور تلوار سے کافروں کو روکتی رہیں۔ جب ابن قُمیہ لعین حضور اکرم ﷺ کی طرف بڑھا ۔تو حضرت مصعب بن عمیر اور چند اور مسلمان مقا بل ہوئے ۔ان میں ام عمارہ بھی تھیں ۔ابن قمیہ نے ان کے کندھے پر ایسی ضرب لگائی کہ غار پڑگیا۔ ام عمارہ نے بھی کئی وار کئے مگر وہ دشمن خدا دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا ۔اس لئے کارگر نہ ہوئے ۔ حضرت صفیہ (حضرت امیر حمزہ کی بہن)مسلمانوں کی شکست پر احد میں نیزہ ہاتھ میں لئے آئیں اور بھاگنے والوں کے منہ پر مار کر کہتی تھیں کہ تم رسول اﷲ ﷺ کو چھوڑ کر بھاگتے ہو پھر بھائی کی لاش دیکھ کر بڑے استقلال سے انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا اور دعائے مغفرت کی۔

جب مشرکین میدان کا رزار سے چلے گئے تو مدینہ کی عورتیں صحابہ کی مدد کو نکلیں ۔ان میں حضرت فاطمۃ الزہراہ بھی تھیں ۔جب حضرت فاطمہ نے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا تو خوشی کے مارے حضور ﷺکے گلے لپٹ گئیں اور آپ کے زخموں کو دھونے لگیں ۔حضرت علی المرتضیٰ ڈھال سے پانی گرارہے تھے ۔ جب فاطمہ نے دیکھا کہ پانی سے خون زیادہ نکل رہا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑا چلا کر لگا دیا جس سے خون بند ہو گیا ۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اشدد غضب اللّٰہ علی نوم دمرا وجہ رسولہ ۔ پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا ۔اللھم اغفرلی لقومی فانھم لا یعلمون ۔اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے محمد بن مسلمہ کو حضرت سعد بن ربع کا حال معلوم کرنے کیلئے بھیجا ۔حضرت محمد بن مسلمہ نے حضرت سعد کو مقتولین میں زخمی پایا۔ (ان پر تیر ،تلوار اور نیزے کے ستر زخم تھے ۔ ) ان میں فقط رمق حیات باقی تھا۔حضرت محمد بن مسلمہ نے کہا کہ مجھے رسول اﷲ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ میں دیکھوں کہ تم زندوں میں ہو یا مردوں میں ۔حضرت سعد نے دھیمی آواز سے جواب دیا ’’میں مُردوں میں ہوں ۔رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں میرا سلام پہنچانا۔ اور عرض کرنا کہ سعد بن ربیع آپ سے گذارش کرتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے اچھی سے اچھی جزا دے جو اس نے کسی نبی کو ان کی امت کی طرف سے دی ہے اور اپنی قوم کو میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ اگر کوئی (دشمن )تمہارے پیغمبر تک (بارادۂ قتل ) پہنچ جائے اور تم میں سے ایک بھی زندہ ہو تو خدا کی بارگاہ میں تمہاراکوئی عذر نہ ہو گا۔ حضرت سعد یہ کہہ کر واصل حق ہو گئے ۔حضرت محمد بن مسلمہ نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت مین صورت حال عرض کر دی۔حضور اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:’’ اﷲ اس پر رحم کرے اس نے حیات و موت میں خدا و رسول خدا کی خیر خواہی کی ۔‘‘(استیعاب و مواہب)

اس غزوہ میں مسلمانوں میں سے ستر یا کچھ کم و بیش شہید ہوئے ۔ابن نجار نے ان سب کے نام دئیے ہیں ۔جن میں سے چار مہاجرین میں سے اور باقی چھیاسٹھ انصار میں سے ہیں ۔

اختتام جنگ پر حضور اکرم ﷺ شہدائے کرام کی لاشوں پر تشریف لے گئے ۔حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کی لاش مبارک کو دیکھ کر فرمایا کہ ’’ایسا دردناک منظر میری نظر سے کبھی نہیں گزرا۔ حضرت حمزہ ساتوں آسمانوں میں شیر خدا اور شیر رسول لکھے گئے ۔‘‘پھر تمام لاشوں پر نظر ڈالتے ہوئے فرمایا۔(صحیح بخاری ۔غزوۂ احد)
’’میں قیامت کے دن ان کا شفیع ہوں‘‘

بعد ازاں حکم دیا کہ ان کو دفن کر دیا جائے ۔کپڑے کی قلت کا یہ عالم تھا کہ عموماً دو دو تین تین ملا کر ایک ہی کپڑے میں ایک ہی قبر میں دفن کر دئیے گئے جس کو قرآن زیادہ یاد ہوتا اس کو مقدم کیا جاتااور ان شہداء پر اس وقت نماز جنازہ نہ پڑھی گئی بلکہ بے غسل اسی طرح خون میں لتھڑے ہوئے دفن کر دئے گئے ۔

سید الشہداء امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کو ایک چادر میں دفن کیا گیا ۔مگر چادر کو تاہ تھی ۔اگر منہ ڈھانپتے تو قدم ننگے رہتے ۔قدموں کو چھپاتے تو منہ ننگار ہتا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ منہ کوڈھانپ دو اور قدموں پر حرمل ڈال دو ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔(طبقات ابن سعد)

حضرت مصعب بن عمیر جب شہید ہوئے تو ان کے پاس صرف ایک کملی تھی ۔اس سے سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے رہتے اور پاؤں چھپاتے تو سر ننگا رہتا ۔حضور اکرم ﷺ کے ارشاد سے سر کملی سے ڈھانپ دیا گیا اور پاؤں ازخر گھاس سے چھپادئیے گئے ۔

حضرت وہب بن قابوس مزنی اور ان کا بھتیجا حارث بن عتبہ بن قابوس بکریاں چراتے مدینہ میں آئے ۔ جب معلوم ہوا کہ رسول اﷲ ﷺ غزوہ احد پر تشریف لے گئے ہیں تو اسلام لا کر حاضر خدمت اقدس ہوئے ۔خالد و عکرمہ کے حملے کے وقت حضرت وہب بڑی بہادری سے لڑے۔ مشرکین کا ایک دستہ آگے بڑھا ۔تو آپ نے تیروں سے ہٹا دیا ۔دوسرا آیا تو اسے تلوار سے بھگا دیا ۔ تیسرا آیا تو تلوار سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے ۔ان کا بھتیجا بھی اسی طرح لڑ کر شہید ہوا۔ مشرکین نے حضرت وہب کو بری طرح سے مثلہ کر دیا تھا ۔رسول اﷲ ﷺ اگر چہ زخموں سے نڈھال تھے مگر دونوں لاشوں پر کھڑے رہے اور حضرت وہب رضی اﷲ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :’’اﷲ تجھ سے راضی ہو میں تو تجھ سے راضی ہوں‘‘

حضرت وہب کو لحد میں رکھا گیا۔ تو حضور اقدس ﷺ نے ان کا سران ہی کی چادر سے چھپادیا ۔مگر وہ چادر ان کی نصف ساق تک پہنچی ۔اس لئے حضور ﷺ کے ارشاد سے پاؤں پر حرمل ڈال دی گئی ۔حضرت عمر فاروق اور حضرت سعد بن ابی وقاص تمنا کیا کرتے تھے کہ کاش ہم خدا تعالیٰ سے مزنی کے حال میں ملیں(طبقات ابن سعد)

حضرت عبد اﷲ بن عمر و بن خرام کا جنازہ اٹھایا گیا تو حضور اکرم ﷺ نے ایک رونے والی عورت کی آواز سنی اور دریافت فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ عرض کیا گیا کہ مقتول کی بہن یا پھوپھی ہے ۔فرمایا کہ یہ کیوں روتی ہے یا فرمایا کہ نہ روئے ۔کیونکہ جنازہ اٹھنے تک فرشتے اسے اپنے بازوؤں سے سایہ کرتے رہتے ہیں۔(بخاری)

ترمذی (ابواب تفسیر القرآن) میں حضرت جابر بن عبد اﷲ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ مجھ سے ملے ۔فرمایا کہ تو غمگین کیوں ہے ؟میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اﷲ (ﷺ)! میرا باپ احد کے دن شہید ہو گیا اور قرض و عیال چھوڑ گیا ۔آپ نے فرمایا کیا میں تجھے بشارت نہ دوں کہ خدا تیرے باپ سے کس طرح ملا ہے ؟ اﷲ تعالیٰ نے کبھی شہداء احد میں سے کسی سے بے پردہ کلام نہیں کیا ۔ مگر تیرے باپ سے روبرو کلام کیا ۔ اور کہا مجھ سے مانگ کہ تجھے عطا کروں۔ تیرے باپ نے کہا ۔اے پروردگار ۔تو مجھے حیات دنیوی عطا کرتا کہ میں دوبارہ تیری راہ میں شہید ہو جاؤں۔رب عزوجل نے کہا کہ میری طرف سے وعدہ ہو چکا ہے کہ وہ (مر کر) دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے پس یہ آیت نازل ہوئی ۔ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبی اللّٰہ امواتا ۔حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن حزام بھی ایک کملی میں دفن ہوئے تھے ۔پاؤں حرمل سے چھپادیئے گئے تھے۔

حضرت عبد اﷲ بن جبیر تیر اندازوں کے امیر تھے ۔جب ان کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے تو مشرکین نے ان پر حملہ کیا ۔ وہ سب شہید ہو گئے مگر اپنی جگہ کو نہ چھوڑا ۔حضرت عبد اﷲ پہلے دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے ۔جب تیر ختم ہو گئے تو نیزہ سے کام لینے لگے ۔ جب نیزہ بھی ٹوٹ گیا تو تلوار سے لڑتے رہے ۔یہاں تک کہ شہید ہو گئے ۔ کفار نے آپ کو بری طرح سے مثلہ کر دیا تھا ۔آپ کے بھائی حضرت خوات بن جبیر نے کمانوں سے گڑھا کھود کر آپ کو دفن کر دیا۔(طبقات ابن سعد)

حضرت عمر و بن جموع لنگڑے تھے ۔ان سے کہا گیا کہ آپ معذور ہیں آپ پر جہاد فرض نہیں مگر وہ مسلح ہو کر نکلے ۔اور کہنے لگے کہ مجھے امید ہے کہ میں اسی طرح بہشت میں ٹہلا کروں گا۔ پھر قبلہ روہو کریوں دعا کی ۔’’خدا یا مجھے شہادت نصیب کر اور اپنے اہل کی طرف محروم واپس نہ لا۔‘‘ چنانچہ احد میں شہید ہو گئے۔ (استیعاب ابن عبد البر)

اثنائے جنگ میں ایک مسلمان کھڑا ہوا کھجوریں کھارہا تھا ۔اس نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا کہ اگر میں مارا گیا تو کہا ہوں گا؟ آپ نے فرمایا۔’’بہشت میں ‘‘یہ سن کر اس نے کھجوریں ہاتھ سے پھینک دیں اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔(بخاری ۔غزوۂ اُحد)

شہدائے کرام کی تدفین کے بعد رسول اﷲ ﷺ مدینہ کو واپس آئے ۔راستے میں جو عورتیں اپنے اہل و اقارب کا حال دریافت کرتی تھیں ۔حضور بتاتے جاتے تھے ۔ آپ بنو دینار کی ایک عورت کے برابر سے گزرے جس کا شوہر اور بھائی اور باپ احد میں شہید ہو گئے تھے ۔لوگوں نے اسے تینوں کی شہادت کی خبر دی ۔تو اس نے کچھ پروانہ کی اور پوچھا کہ رسول اﷲ ﷺ کیسے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ بخیر ہیں ۔کہنے لگی کہ مجھے دکھا دو تاکہ میں آنکھوں سے دیکھ لوں ۔ چنانچہ اس وقت حضور اکرم ﷺ کی طرف اشارہ کر دیا گیا ۔ اُس نے جب حجور انور بابی ہو وامی کو دیکھا تو پکار اٹھی۔’’آپ کے ہوتے ہوئے ہر ایک مصیبت ہیچ ہے ۔‘‘(سیرت ابن ہشام )

یہ سن کر حضرت سعد بن معاذ ان عورتوں کے پاس گئے اور کہا کہ رسول اﷲ ﷺ کے درِ دولت پر جا کر افسوس کرو ۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم بھی شامل گریہ ہو گئیں ۔حضور اکرم ﷺ سو گئے اور ہم رو رہی تھیں ۔آپ نے جاگ کر نماز عشاء پڑھی اور سو گئے ۔پھر جو آنکھ کھلی اور رونے کی آواز سنی تو فرمایا کیا تم اب تک رو رہی ہو ۔یہ فرما کر آپ نے رونے والیوں کو رخصت کیا اور ان کے لئے اور ان کے ازواج و اولاد کے لئے دعائے خیر فرمائی ۔جب صبح ہوئی تو آپ نے نوحہ سے منع فرمادیا ۔(طبقات ابن سعد)

اس واقعہ سے آٹھ برس کے بعد ایک روز حضور اکرم ﷺ اس طرف کو نکلے اور شہدائے احد پر نماز جنازہ پڑھی ۔اس کے بعد آپ نے منبر پر رونق افروز ہو کر یہ خطبہ دیا ۔ ’’بیشک میں تمہارے واسطے فرط(پیشترد) ہوں اﷲ کی قسم میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں ۔بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں یا زمین کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں خدا کی قسم مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد مشرک بن جاؤ گے لیکن یہ ڈر ہے کہ تم دنیا میں پھنس جاؤ ۔‘‘
Peer Owaisi Tabassum
About the Author: Peer Owaisi Tabassum Read More Articles by Peer Owaisi Tabassum: 198 Articles with 658619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.