از قلم:حافظ وقاری مولانا محمد
شاکر علی نوری صاحب(امیر سنی دعوت اسلامی)
اسے اﷲ کی مصلحت کہیے یاعصری ماحول کاجبرکہ آج دین اسلام سے واقفیت کا شوق
بڑھتا ہی جارہا ہے اور دین کے نام پر خدمات انجام دینے والی تحریکوں اور
افراد کی بھی کمی نہیں رہی ہے لیکن دعوت کا کام کیسے شروع کیا جائے، کس سے
شروع کیا جائے اورا س کے لیے کیسانقشہ مرتب کیاجائے ۔ اس سلسلے میں نہ
ہمارے پاس مؤثرطریقۂ کارہے اورنہ مضبوط لائحۂ عمل۔الاماشاء اﷲ ۔نتیجہ یہ ہے
کہ ہماری دعوت غیر مؤثر بھی ہے اورمحدود بھی۔
رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی ہر نہج پر ہماری رہنمائی کرتی
ہے۔ذراغورکریں کہ رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت کے انقلاب
آفریں ہونے کی وجہ کیا ہے؟۔ دراصل رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی
دعوت کے اولین مخاطب معاشرے کے با اثر لوگ تھے جن کے دعوت قبول کرلینے کے
بعد زیرِ اثر لوگوں کادعوت قبول کرلینا آسان ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم
ہے کہ معاشرے کے سر بر آوردہ افراد تک داعی کو پہنچنے میں دشواری ہوتی ہے
اور وہاں تک پہنچنے میں داعی کبھی احساس کمتری کا شکار بھی ہوتا ہے لیکن
حقیقت یہ ہے کہ ان سے صرف رضاے الٰہی ورضاے ر سول کے لیے اس نیت سے ملاقات
کی جائے کہ ان کی وجہ سے ایک بڑے طبقے میں انقلاب پیدا ہوگا تو اﷲ عزوجل اس
اخلاص کی بنیاد پرہماری مدد فرمائے گااوراس کے بڑے دوررس نتائج مرتب ہوں
گے۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہم معاشرے کے با اثر لوگوں کو صرف چندے
کے لیے یاد کرتے ہیں اور ان تک دین پہنچانے کے کام سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔
ا س کے برعکس فرقہائے باطلہ کااگرجائزہ لیاجائے تویہ محسوس ہوتاہے کہ وہاں
معاشرے کے با اثر لوگ ہرطرح کی قربانیاں پیش کرتے ہیں ۔وہ صرف مال کی
قربانی پیش نہیں کرتے بلکہ اپنے نظریات کے فروغ کے لیے تن من دھن ہرطرح سے
کوشاں رہتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں سواے مال کی قربانی کے دوسری قربانیو ں
کالوگ تصورہی نہیں کرتے ۔ ایسی صورت میں ظاہرہے کہ جوفوائد و ثمرات انہیں
حاصل ہوں گے ہمیں نہیں ہوں گے۔
ہماری دعوت کا کام صرف عوام الناس میں ہورہا ہے۔ یقینا عوام الناس میں کام
ہونا چاہیے لیکن یہ بھی یادرکھناچاہیے کہ معاشرے کا بننا یا بگڑنا معاشرے
کے سر بر آوردہ افراد کے کردار پر منحصر ہے۔الناس علیٰ دین ملوکھم ۔ اس کو
آپ حضرت امام عالی مقام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی قربانیوں سے سمجھ سکتے
ہیں۔امام نے دیکھا کہ یزید فاسق و فاجر ہے اگر اس کی بیعت قبول کرلی گئی تو
پورا معاشرہ فاسق وفاجر بن جائے گا لہٰذا جان دے دی مگراس کی بیعت کا انکار
کیا۔ حالاں کہ اس وقت معاشرے میں فسق وفجور میں گرفتار لوگوں کی کمی نہیں
تھی اس کی واحدوجہ یہی تھی کہ یزید جیسے با اثر کا اس جرم میں گرفتار ہونا
زیر اثر لوگوں کے لیے وجہ جواز تھا۔ امام عالی مقام نے اپنے ا س عمل سے
قیامت تک پیداہونے والے انسانوں کے لیے یہ درس دیا کہ اگر سر بر آوردہ
افراد درست ہوں تو ماتحت لوگ بھی درست ہوں گے اور اگر وہ بگڑے ہوئے رہے تو
معاشرہ بھی فسق وفجور کا گہوارہ بن جائے گا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر دو
طبقے کے لیے دعوت واصلاح کاکام کریں بلکہ سب سے زیادہ کوشش اس بات کی کی
جائے کہ سربرآوردہ اورنمائندہ لوگوں تک اپناپیغام پہنچائیں نتیجتاً ان کے
زیراثررہنے والے لوگ بھی ہمارا پیغام قبول کرلیں گے ۔با اثر لوگوں سے صرف
مال نہ لیں بلکہ ان کو دین اس طرح پلادیں کہ وہ اپنا سب کچھ دین پر لٹانے
کے ساتھ ساتھ اپنے ماتحتوں کوبھی دین کا عامل بنادیں۔
بااثراورنمائندہ لوگوں کودین سے قریب کرنے کے لیے کیا کیا جاناچاہیے اس
سلسلے میں ہم سب کومل بیٹھ کرغورکرناہے ۔ ظاہرہے کہ ایسے لوگ ہمارے مروجہ
جلسوں میں توشرکت کرنے سے رہے ۔اس کی وجوہات جگ ظاہرہیں۔ایسے لوگوں کے لیے
ان کی شایان شان پروگرامزمنعقدکیے جائیں جووقت پرشروع ہوں اوروقت پرختم ہوں
۔ ان کے لیے ایسے مبلغین اوراسکالرس کوتیارکیاجائے جوانہیں عصری اسلوب میں
دین سمجھائیں ۔ ان کی اصلاح وتربیت کے لیے اوران کے ذہنی خلجان کودورکرنے
کے لیے جدیدذرائع اورعصری اسلوب میں لٹریچرتیارکرکے ان تک پہنچایاجائے ۔
اگریہ ہوگیاتوان شاء اﷲ بہت بڑاانقلاب پیداہوسکتاہے اورپھرہمیں دعوت وتبلیغ
کے لیے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیوں کہ عوام الناس
خودبخوددین کے پیغامات کے اسیرہوجائیں گے ۔ |