آؤ قدم بڑھائیں۔۔۔!

 ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والا کامران اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا اور انٹر کا اسٹودنٹ ہے۔وہ جب بھی ٹریفک جام دیکھتا ہے تو اسے وحشت ہونے لگتی ہے،اس کا دم گھٹنے لگتا ہے اور اس کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔اس کی یہ کیفیت کسی عارضے کے سبب نہیں بلکہ اس المیے کے باعث ہے،جس میں کچھ عرصہ قبل وہ اپنے والد کے لئے ”Oنیگٹو“ بلڈ کی تلاش میں مارامارا پھر رہا تھا،جو اس وقت ایک حادثے کے نتیجے میں زیادہ خون بہہ جانے کے باعث ایک نجی اسپتال کے آپریشن روم میں انتہائی نازک حالت میں تھے۔جان توڑ کوشش کے بعد وہ خون حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوگیا لیکن ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے وہ بروقت اسپتال نہ پہنچ سکا اور ہمیشہ کے لئے باپ جیسی شفیق ہستی سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا۔

کراچی میں کئی انڈر پاسسز اور فلائی اوور بننے کے باوجود ٹریفک جام ایک معمول بن چکا ہے ،رمضان میں بھی یہ سلسلہ اس طرح جاری رہاکہ ہزاروں افراد نے روزانہ کی بنیاد پر افطار گاڑیوں میں یا سڑک کنارے بچھے دسترخوانوں پرکیا اور مغرب کی نماز سے بھی محروم ہوئے اور تراویح بھی ادا نہ کر سکے۔ چاند رات کو تو شام سے ہی کراچی کی سڑکوں پرایسا ٹریفک جام ہوا کہ ایک گھنٹے کا فاصلہ چارسے پانچ گھنٹوں میں طے ہوا۔یہی صورتحال عید کے تیسرے دن اور 14 اگست کی شام کو بھی درپیش تھی کہ لاکھوں افراد پانچ پانچ گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہے اور صبح اپنے گھروں کو پہنچے،ٹریفک اہلکارچونکہ رمضان کے آخری دنوں میں شہریوں سے اکھٹی کی گئی عیدی سے اس وقت بھی اپنی فیملیوںکے ساتھ عید منانے میں مصروف تھے لہذاٰ شاہراہیں اور سگنل ان کے دیدار سے محروم تھے،ان کو نہ آنا تھا وہ نہ آئے۔ ٹریفک جام میں پھنسے افراد شاید صبح بھی اپنے گھروں کو نہ پہنچتے اگر کچھ نوجوان تنگ آکر اپنی گاڑیوں سے اتر کر ٹریفک کنٹرول نہ کرتے، جبکہ سٹی وارڈنز تو پہلے ہی سڑکوں کے بجائے سٹی گورنمنٹ کے اسپتالوں میں عوامی ٹریفک کنٹرول کرنے میں مصروف ہیں۔

کراچی میں بد امنی کے بعد ٹریفک جام ایک اور ایسی عفریت بن گئی ہے جس سے چھٹکارہ ایک خواب بنتا جارہا ہے۔کسی نے سچ کہا کہ کسی قوم کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو اس کے ”روڈ سینس“دیکھ لیا جائے،خود ہی ترقی کا اندازہ ہوجائے گا۔ایک منٹ کی جلدی ہر روز ایک گھنٹے کی دیری میں بدل جاتی ہے لیکن مجال ہے کہ ہم بازآجائیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی سگنل توڑ کرہم سے پہلے نکل جائے اور ہم قانون پسند شہری بن کربتی سبز ہونے کا انتظار ہی کرتے رہیں۔یہ بھی ناممکن ہے کہ ایمبولینس کے لئے عارضی طور پر کھلنے والے سگنل سے فائدہ اٹھا کراس کے ساتھ ہی نہ نکل جائیں۔اور کچھ نہیں تو ٹائم پاس کرنے کے لئے بند سگنل کے باوجود ہارن ہی بجاتے رہنا بھی لہو گرم رکھنے کا ایک بہانا بن چکا ہے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ گاڑیوں کی میلوں لمبی قطار کے آگے کوئی تباہ شدہ ٹائی ٹینک راستہ بند کیے نہیں پڑاہوتاجسے دھکا لگانا یا کسی دیوہیکل کرین کے ذریعے ہٹانا ممکن نہ ہو ، کوئی ان سدھایاافریقی ہاتھی بھی موجود نہیں ہوتا جسے ہنکایا نہ جاسکے ،اور اچانک کوئی ایسی خلیج بھی سامنے نہیں آجاتی کہ جسے پاٹا نہ جاسکے ،ہاں بس کسی ایک ڈرائیور کی رائی جیسی غلطی ضرورہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے پہاڑ بن جاتی ہے۔لیکن رائی کا پہاڑ تو پھر رائی کا ہی ہوتا ہے،اس کوسر کرنے کے لئے فرہاد جیسے حوصلے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ،ضرورت ہوتی ہے تو بس تھوڑی سی ہمت کی،صرف پانچ دس ایسے نوجوانو ں کی جوٹریفک جام کی اذیت برداشت کرنے کے بجائے ،اپنی اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی تکالیف کااحساس کرتے ہوئے گاڑیوں سے نیچے اتریں اور رضاکارانہ طور پر ٹریفک کنٹرول کرنا شروع کردیں۔ ٹریفک جام کا سبب بننے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروںکومحبت اور نرمی سے گاڑیوںکو درست پوزیشن میںلانے کا کہیں ،ان سے الجھنے کے بجائے طریقے سے سمجھائیں کہ ان کی غلطی کس طرح دوسروں اورخودانکے اپنے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔گاڑیوں کی چھتوں پر بیٹھ کر حکومت اور ٹریفک پولیس کو برا بھلا کہنے کے بجائے اگر کچھ نوجوان میدانِ عمل میں نکلیں تو ان کا یہ عمل نجانے کتنے ہی لوگوں کو ان کا گرویدہ بنا دے گا۔قوم کے لاکھوں گھنٹے اور کروڑوں کا فیول ضائع ہونے سے بچالے گا،اور اس سے ان کا کچھ نقصان بھی نہیں ہوگا بلکہ وہ خود بھی نہ صرف ذہنی اذیت سے بچ جائیں گے بلکہ وقت پر اپنے گھروں کو بھی پہنچ سکیں گے۔ان کی تھوڑی سی تکلیف ان کے لئے ایک نیک کام کا سبب بن جائے گی اور جیسا کہ رحمت اللعالمین کا ارشاد ہے کہ” ہر نیک کام صدقہ ہے،اور صدقہ بلا کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو۔“ یہ خود کتنے اعزاز کی بات ہے کہ نوجوان ایسا کرتے ہوئے لوگوں کو تکلیف سے نجات دلا تے ہوئے اپنے پیارے نبی کی سنت کو بھی زندہ کر رہے ہوں۔

اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں ہمت بھی ہے اور رضاکارانہ کام کرنے کا جذبہ بھی،ضرورت ہے تو احساس اور تھوڑے سے وقت کی قربانی کی۔ہم میں سے کتنے ہی افراد ایسے ہونگے جن کے پاس فراغت کے لئے کوئی مصروفیت نہیں،جو فارغ وقت میں بور یت محسوس کرتے ہیں اور اپنے اس وقت کو پیسہ کمانے کے بجائے کسی اورمفید کام میں صرف کرنے کے خواہش مند ہیں،لیکن ان کے پاس ایسی کوئی ایکٹویٹی نہیں ،جو ان کے جذبات اور اس خواہش کی تسکین اور تکمیل کا سبب بن سکے،نتیجتاً ان کا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے اور وہ کسی مفید یا صحت مند سرگرمی سے محروم رہتے ہیں اور انہیں اپنا آپ،اپنی ذات بے مصرف وبیکار محسوس ہوتی ہے۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سرکاری اسپتالوں میں ایسے کتنے ہی مریض ہونگے جن کے پاس کوئی تیمار دار نہیں ہوگا،اور وہ باوجود پیسے ہونے کے کسی ایسے فرد کے منتظر ہونگے جو انہیں میڈیکل اسٹور سے دوائی لادے ۔۔ انہیں ان کے گھر تک پہنچادے یا ان کے گھر والوں کو مطلع ہی کردے۔ نفسیاتی اسپتالوں میں ایسے کتنے ہی افراد ہونگے جنھیں کسی کی تھوڑی سی ہمدردانہ گفتگو کسی صدمے اور مایوسی سے نجات دلاسکتی ہے۔یتیم خانوں اور اولڈ ہومز میں ایسے کتنے ہی ہونگے جو اپنائیت اور توجہ کے منتظر ہونگے۔یہ تمام ایسے کام ہیں جو ہمارے لئے تو بہت معمولی اور غیر متاثر کن ہیں لیکن اس کی قدر ان کو ہی معلوم ہے جو کسی انجان دوست اور محسن کے منتظر ہیں۔کیا ہم آج یہ ارادہ نہیں کرسکتے کہ اگر کسی کی مالی امداد نہیں کرسکتے تو اپنے فارغ وقت کو ضائع کرنے کے بجائے ،کچھ منٹ ،کوئی ایک گھنٹہ کسی ایسے مقصد کے لئے وقف کردیں جس سے ہمیں انسان ہونے پر فخر محسوس ہو،جس سے ہم حقیقی خوشی سے ہمکنار ہوسکیں۔۔تو آئیں ہمت کریں اورقدم بڑھائیں۔۔
tahir yousuf
About the Author: tahir yousuf Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.