پتھر ہی تو انصاف کرتے ہیں

امریتا پریتم نے کہا ہے:
‘‘ترازو کے ایک پلڑے میں ہمیشہ پتھر ہوتا ہے۔ شاید اسی کا نام سچائی یا انصاف ہے پتھر ہی تو انصاف کرتے ہیں‘‘۔

ٹھیک کہا اس لیے کہ جہاں پتھر نہیں ہوتے وہاں جذبات ہوتے ہیں اور جہاں جذبات ہوتے ہیں وہاں ہمدردیاں ہوتی ہیں، دوستیاں ہوتی ہیں۔ رشتے ہوتے ہیں،۔ رشتہ داریاں ہوتی ہیں۔ تعصب ہوتے ہیں، تنگ نظری ہوتی ہے۔ بغض و عناد ہوتا ہے اور جہاں یہ سب ہوتا ہے وہاں انصاف نہیں ہوتا۔ انصاف کے نام پر دکھاوا ہوتا ہے۔ ذاتی نمود ہوتی ہے۔ اپنی تشہیر ہوتی ہے۔ انصاف کا قتل ہوتا ہے اور اس طرح ہوتا ہے کہ واہ واہ کے شور میں سسکیوں کی آوازیں دب جاتی ہیں یا دبا دی جاتی ہیں۔ شاید اسی لیے صحیح اور حقیقی انصاف کے لیے پتھر کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دل پتھر، آنکھ پتھر، جذبات پتھر ، احساس پتھر کیونکہ انصاف صرف پتھر ہی دے سکتا ہے۔

انصاف صرف عدالتوں کا ہی محتاج نہیں۔ یہ تو انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ انسان کا انسان سے انصاف، انسانیت سے انصاف، اپنے عزیزوں ، دوستوں، رشتہ داروں، ہمسایوں اور بیوی بچوں سے انصاف اور سب سے بڑھ کر اپنی ذات سے انصاف ۔ ہاں البتہ جو صاحب انصاف ہیں جن کے ذمہ معاشرے کو انصاف فراہم کرنا ہے اُن کے لیے انصاف ایک امانت ہے۔ ایک اخلاقی بوجھ ہے، ایک عظیم ذمہ داری ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
’’انسان کو صاحب علم ہی نہیں بنایا گیا بلکہ قلم کا استعمال سکھا کر اُس کی علمی قابلیت کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے‘‘۔

عدالتوں کی بات چلی تو انصاف کے بارے میں انسان کیا کہے ۔ صاحبان انصاف کو انصاف اُنہی حقائق کی روشنی میں کرنا ہوتا ہے جو ہمارے ادارے عدالت تک لے کر آتے ہیں،۔ اوربہت سے معاملات میں جھوٹ اور فریب ہمارے اداروں کا پوری طرح نصب العین ہوتا ہے۔ جو شخص قابو آجائے اُسے ہر حال میں مجرم ثابت کرنا اور مجرم بنا دینا ان اداروں کا کمال ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ جھوٹ کی بات ہوتی تو لوگ گوئبلز کو دنیا کا عظیم ترین جھوٹا قرار دیتے تھے۔ مگر ہمارے بہت سے تفتیشی افسران گوئبلز کو مات کیے بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں حشر کے میدان میں جس شخص نے زندگی میں جتنے جھوٹ بولے اُسے میدان حشر کے اُتنے ہی چکر لگانے کی سزا دی جا رہی تھی۔ گوئبلز کی باری آئی تو وہ غائب تھا۔ ڈھونڈھا تو ایک پیٹرول پمپ پر موٹر سائیکل میں پیٹرول بھروا رہا تھا۔ پوچھا۔ بھاگے کیوں۔ بولا دو چار چکروں کی بات ہوتی تو بھاگ کر پورے کر لیتا یہاں تو ہزاروں چکروں کی بات تھی سوچا جلدی سے موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈلوا لوں۔ آسانی رہے گی۔ ہمارے تفتیشی افسران کو چونکہ حکومت کی طرف سے برق رفتار گاڑیاں مہیا کی جا چکی ہیں اس لیے وہ ڈٹ کر جھوٹ بولنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

میرا چھوٹا بھائی بصورتِ مجرم عدالت میں پیش تھا۔ وکیل صفائی نے کہا کہ 38دن ہو گئے کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئی۔ محترم چیف جسٹس صاحب کا حکم ہے کہ ریمانڈ دیتے وقت معقول وجوہات کا ہونا لازمی ہے۔ جواب ملا ۔ نو عدد نئے گواہ مل گئے ہیں۔ اُن کا بیان لینا ہے۔۔۔ مگر 38دن تک کیوں نہیں لیا ۔۔۔۔لینا چاہتے تھے مگر مجرم نے گواہوں کو دھمکیاں دی ہیں وہ ڈر گئے تھے۔ ۔۔۔ مجرم ہنسا کہ جج صاحب۔ ابھی بات ہو رہی تھی کہ پچھلے 38دن میں ان لوگوں نے آکسیجن کو بھی میرے کمرے کی طرف جانے نہیں دیا۔ گھپ اندھیرا کمرہ، کوئی کھڑکی نہ روشندان۔ کمرے کے باہر ویسی ہی ایک ڈیوڑھی۔ آپ کے حکم پر انہوں نے مجھے کمرے سے نکال کر دو دفعہ ڈیوڑھی کی سیر کرائی ہے کہ صبح ڈیوڑھی کا دروازہ کھولا تھا۔ تھوڑی سی آکسیجن اندر گھس آئی تھی۔ عیاشی کرلو۔ 38دنوں میں بہت کوشش کے بعد میرا وکیل فقط دو دفعہ مجھے مل سکا ہے۔ عید کے دن میرے خاندان کے چھ افراد کو چھ پولیس والوں کی موجودگی میں بمشکل ایک گھنٹہ ملنے کی اجازت دی گئی۔ کوئی اخبار یا کسی قسم کا کوئی رابطہ مجھے میسر نہیں۔ میری دھمکی پتہ نہیں کس کونے کھدرے سے باہر نکل گئی کہ مجھے بھی پتہ نہیں چلا۔ تفتیشی افسر کو غلطی کا احساس ہو گیا۔ فوراً پلٹا کہ جناب اس کا بھائی باہر صحافیوں میں بیٹھ کر اُنہیں ہمارے خلاف بھڑکاتا اور غلط باتیں بتاتا ہے۔ میں چونکہ موجود تھا فوراً کہا کہ جناب میں بھائی کے علاوہ صحافی بھی ہوں اور اپنے ساتھیوں سے ملنا کوئی جرم تو نہیں لیکن بہرحال
رقیبوں نے یہ خبر لکھوائی ہے جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

یہ ایک فطری بات ہے کہ جب ہوا ئیں چلتی ہیں تور سرخ گرد اٹھتی ہے تو انسان کے مرتبے ، عزت ،۔ شہرت میں اضافہ کرتی ہیں۔ ان ہواؤں سے کسی شخص کو جو فائدہ ہوتا ہے جو کامرانیاں ملتی ہیں اُس کے عزیزوں اور رشتہ داروں میں اگر ہمت ہو اور اُنہیں فن آتا ہو تو وہ بھی شاید کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہوں گے۔ مگر جب سیاہ کالی گرد اٹھتی ہے تو انسان کے حصے میں ذلت ، رسوائی اور بدنامی آتی ہے۔ یہ ہوائیں اتنی شدید ہوتی ہیں کہ کوئی عزیز رشتہ دار بھی اس کی گرد سے محفوظ نہیں رہتا۔ یہ ہر عزیز کے سرپر خاک کی طرح گرتی ہے کوئی بدن چرا کر نکلنا بھی چاہے تو ممکن نہیں ہوتا۔ یہی ہوائیں ہیں جنہوں نے ایک جنگ مجھ پر اور میرے خاندان پر مسلط کر دی ہے۔ اس یادِ سموم سے مجھے خود کو اپنے خاندان کو اور یقینا اپنے بھائی کو بھی بچانا ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں وہ یقینا گنہگار نظر نہیں آتا۔ گنہگار کا ساتھ دینا انصاف نہیں ۔ سچ پر قائم رہنا اور سچ کہنا انصاف ہے۔ میں اسی انصاف کے حصول کا طلب گار ہوں اور اسی کی جہد مسلسل میں ہوں۔ یہی میرا انصاف ہے اپنے ساتھ، اپنے خاندان کے ساتھ اور خصوصاً اپنے بھائی کے ساتھ۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کاش سپریم کورٹ مجھے بلا ئے اور میں وہاں جا کر بتاؤں کہ کیا ہو رہا ہے۔ ریمانڈ کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ فرضی داستانیں ، فرضی اعداد وشمار اور فقط یہ کہ ریمانڈ پورا دیں سپریم کورٹ میں رپورٹ دینی ہے۔ کاش جج صاحب ریمانڈ دیتے وقت لکھ دیں کہ 14دن کا ریمانڈ اس لیے بھی دیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ میں رپورٹ دینی ہے۔۔۔ عدالتوں کو سپریم کورٹ کا بتا کر اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ، کیا یہ جائز ہے۔۔۔ کاش چیف جسٹس مجھے بلا لیں تو میں ان اداروں کی ساری کارکردگی کا پول کھول دوں۔ ساری فرضی داستانیں ، سارے فرضی اعدادو شمار جو یقینا بعد مین سب کے لیے شرمندگی کا باعث اور اداروں کی ساکھ تباہ کرنے کا سبب ہوں گے۔ بہرحال کچھ بھی ہو رب العزت کی ذات سب دیکھتی اور سب جانتی ہے اور آخری عدالت بھی اُسی کی ہے ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
’’اﷲ کی عدالت میں فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ انسان اعمال کی جو پونجی لایا ہے وہ وزنی ہے یا بے وزن ‘‘
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 451363 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More