پاکستان کے بسنے والے لوگ اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہیں۔بعض مسائل ایسے
ہوتے ہیں جن کے حل کیلئے لوگ عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں،یہ لوگ یا تو کسی پر
الزام عائد کرتے ہیںیا پھر اپنے اوپر عائد ہونے والے الزام کا جواب دینے
اور اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے عدالتوں میں حاضر ہوتے ہیں۔عدالتیں معاملے
کا جائزہ لیکر قصور وار کو سزا دیتی ہیں۔تاہم عدالتوں کا ایک حصہ ان مقدمات
کی سماعت پر مامور ہوتا ہے جن میں قصور تو بہر حال کسی اور کا ہوتا ہے لیکن
سزا ہمیشہ ان معصوم لوگوں کو ملتی ہے جن کا اس معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں
ہوتا۔جی ہاں میری مراد پاکستان کی عدالتوں کے اس حصہ سے ہے جن کو فیملی
کورٹس ،خانگی معاملات کی عدالتیں اور گارڈین کورٹس کہا جاتا ہے۔صرف لاہورہی
میں ہر روز بلا مبالغہ سینکڑوں مقدمات گارڈین جج کے رو برو پیش ہوتے
ہیں۔اگر ان عدالتوں کا ایک چکر لگایا جائے تو آنکھوں کو رلا دینے والے اور
دلوں کو دہلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔پھولوں جیسے بچوں کی بڑی
تعداداپنے بڑوں کے ساتھ لاڈ پیار کرتے ملیں گے کسی کواسکاداداپکڑے
بیٹھاہے،کسی کا چچااپنے بھتیجے کے ساتھ بیٹ بال کھیل رہا ہے۔پھپھیاں
اورخالائیں بچوں کو مختلف اشیاء کھلا رہی ہیں۔ان کے چہروں سے کرب آمیزخوشی
کا اندازہ بخوبی ہوجاتاہے کہ آنے والے آدھے پونے گھنٹے میں جب ملاقات کا
وقت ختم ہوجائے گاتب ان کو دوبارہ ان لمحات کاپھر سے انتظارکرناپڑے گا۔ان
سارے مسائل اورتکالیف کی جڑمیاں بیوی کے درمیان ہونے والے وہ جھگڑے ہوتے
ہیں جو دوخاندانوں کو ایسی جگہ لاکھڑاکرتے ہیں کہ اپنے ہی جگرکے ٹکڑوں سے
ملنے کیلئے عدالتوں کا سہارالیناپڑتاہے۔اگر ان جھگڑوں کو ٹھنڈے دماغ
اورعقلمندی سے حل کرلیاجائے توہزاروں بچوں کا مستقبل بربادہونے سے بچ جائے۔
ایک سوال میں اس طرح کے مسائل میں گھرے اان تمام لوگوں سے پوچھنا چاہوں گا
کہ ان بچوں کا قصور کیا ہے؟ ان کو کس جرم کی سزا میں اپنے والدین میں سے
ایک کے سائے سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔کیا والدین نہیں جانتے کہ ان کی
علیحدگی کی صورت میں بچوں پر کیا گزرے گی؟ایک رشتے سے محرومی ان کی شخصیت
پر کیا اثر مرتب کرے گی؟نفسیاتی طور پر ایسے بچے جن کے ماں باپ میں علیحدگی
ہو جاتی ہے ایسی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں کہ تمام زندگی انکے لئے ان
الجھنوں سے نکلناناممکن ہو کر رہ جاتا ہے۔اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو میاں
بیوی کی علیحدگی جن وجوہات کی بناء پر ہوتی ہے وہ ایسی نہیں ہوتیں کہ ان کا
مداوا نہ ہو سکے۔جہاں پر بھی چند لوگ اکٹھے رہتے ہیںیہ ناممکن ہے کہ ان میں
اختلاف رائے پیدا نہ ہو۔تاہم ذرہ سے غورو فکر،تدبر اور مخلص احباب کیساتھ
مشاروت سے یہ اختلاف ختم ہوسکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرہ فریق محض
اپنی انا پرستی کے تحت نہ سوچیں بلکہ اپنے اور اپنے خاندان اور بچوں کے
وسیع تر مفادمیں سوچیں اور اس معاملے میں اگر کسی موقع پر ایثار بھی کرنا
پڑے تو وہ اس سے دریغ نہ کریں۔
نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات کہناپڑتی ہے کے ہمارے ملک کے تمام موجودہ مسائل
پر آوازاٹھانے کیلئے تمام لوگ ہروقت تیاررہتاہے اوریہ مسائل جن کا تعلق
ہماری آنے والی آئندہ نسلوں کے مستقبل سے ہے،اس پر غورکرنے کا کسی کے پاس
بھی وقت نہیں،آج سائنسی دنیامیں ہرروز نئی سے نئی ایجادات ہورہی ہیں،نئے
علوم جنم لے رہے ہیں۔زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسودہ بنانے کیلئے نت نئی
اشیاء عقل کو دنگ کئے جارہی ہیں،مگران تمام چیزوں میں کوئی ایسی چیزآج تک
وجودمیں نہیں آئی،جو گھروں کو ٹوٹنے سے بچالے اورشائدایسی چیزکبھی وجودمیں
آئے گی بھی نہیں،ماسوائے اس نسخہ کے جو آج سے چودہ سوسال پہلے آپ ﷺنے تمام
انسانیت کوقرآن اور احادیث کی صورت میں پہنچادیااورساتھ ہی ساتھ یہ بات
واضح کردی کہ تمہارادین مکمل ہوا،تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے اگران چیزوں
کومضبوطی سے تھامے رکھوگے۔
آج ہم اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے انگریزی میڈیم سکولوں میں داخل کرواتے
ہیں،جہاں اساتذہ اچھے ہوں،ماحول اچھا ہو اوربچے کو بہترسے بہترتعلیم مہیا
ہو اوروہ دنیامیں کسی اچھے مقام پر پہنچ جائے ۔ مگرآج ایسے والدین کی
تعدادآٹے میں نمک کے برابرہوگی جو اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ
دینی تعلیم کے بارے میں بھی سوچتے ہوں گے کہ ہمارابچہ دنیامیں توکامیاب
ہوجائے گامگرآخرت میں کامیابی دنیاوی کامیابی سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔یہ
دنیاتوآخرکارختم ہوجانی ہے مگرقبرمیں جانے کے بعدکی لافانی زندگی کی تیاری
کا سوچنے والے لوگ کافی کم ہیں۔اگرہمارے بچوں کو یہ پتہ نہیں ہوگاکہ والدین
کے حقوق کیاہیں،انہیں بڑھاپے میں کس طرح سنبھالناہے،رشتہ ازدواج میں منسلک
ہونے کے بعدشوہرکے بیوی اوربیوی کے شوہرکیلئے کیاحقوق ہیں اوراگران حقوق کی
پاسداری نہ کی گئی توان کاانجام کیاہوگا۔اگریہ تمام باتیں بچوں کو نہیں
سکھائی جائیں گی تووہ کیسے ان تمام حقوق کی پاسداری کریں گے اورمصیبتوں کے
اس گرداب سے خود کو اور آئندہ نسل کو نکالیں گے۔
آج مسائل سے نکلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اوروہ ہے دین سے آگاہی۔میں ان
تمام والدین سے گذارش کروں گاکہ اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ
دین کی تعلیم کی طرف بھی راغب کریں تاکہ وہ دنیاوآخرت میں سر خروہوں۔اسکے
علاوہ میں حکومت،شعور بیداری کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اوران تمام
انصاف فراہم کرنے والی این جی اوزسے درخواست کروں گا کے ان مسائل کو چھوٹا
اور غیر اہم نہ جانا جائے اور انکے حل کیلئے دینی دروس اور اصلاحی کلاسز کا
اہتمام بڑی سطح پر کیا جائے۔ان مسائل سے آگاہی کے لئے لٹریچرچھاپ کر
گھرگھرپہنچایاجائے،کیونکہ ہمارے مسائل کی بنیادی وجہ خداکی ناراضگی اوردین
سے دوری ہے۔اگرہم خداکو راضی کرلیں گے توتمام مسائل خودبخودحل ہوجائیں گے۔ |