گذشتہ دنوں عیدالفظرپر ریلیز
ہونے پانچ پشتوفلموں کی نمائش پر خیبر پختونخوا حکومت نے پابندی عائد کردی
۔ وجہ یہ تھی کہ انھوں نے فلم سنسر بورڈ سے اجازت نامہ حاصل نہیں کیا تھا ۔پابندی
عائد ہونے کے باوجود پشاور میں پشتو فلموں کی نمائش جاری ہونے پر جب
پروڈیوسر مظفر خان سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ پانچوں فلموں کے
نمائش کے اجازت نامے کراچی سے حاصل کئے گئے ہیں ، اسلام آباد اجازت نامے
جاری نہیں کر رہا(غیر فعال ہے) اور خیبر پختونخوا میں سنسر بورڈ ہی نہیں ہے۔
جیو نیوز کو دئیے جانے والے اس انٹرویو نے سندھ سنسر بورڈ کے اس جھوٹ کا
پول کھول دیا کہ کراچی سرکٹ کے علاوہ کسی دوسرے صوبے کیلئے نمائش کی اجازت
نامے نہیں دئیے جاتے ۔تا دم تحریر فلموں کی نمائش جاری ہے ، جیو نیوز میں
کراچی سے سندھ سنسر بورڈ کی جانب سے جاری کردہ اجازت نامے بھی دیکھائے گئے
اور فلم پروڈیوسر مظفر خان نے دعوی کیا کہ ان( فحش) فلموں کو فیملی بھی
دیکھ سکتی ہیں ۔مرکزی سنسر فلم بورڈ (CBFC) موشن پکچرز 1979ریگولیٹری ایکٹ
کے تحت قائم کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد فلموں کی سنسر شپ ہے۔موشن پکچرز
آرڈینس 1979کے تحت چیرمین کی سربراہی اسلام آباد میں ہیڈ آفس کیساتھ لاہور
اور کراچی میں دو شاخیں ہیں جو سی بی ایف سی وفاقی حکومت کی طرف سے فراہم
سنسر شپ کے کوڈ کی روشنی میں معائنہ کرنے کے بعد نمائش کی اجازت دینے کی
ذمے دار ہیں۔فلم سنسر سینٹرل بورڈ کا بنیادی کام عوامی نمائش یا دوسری صورت
کیلئے فلموں کی مناسب جانچ پڑتال کرنے کیلئے اپنی ذمے داری ایمانداری سے
ادا کرنا ہے۔ مقامی طور پر تیار ہونے والی فلموں کے پروڈیوسر درآمد کی جانے
فلموں کی نمائش کی اجازت کیلئے اسلام آباد میں بورڈ سے جانچ پڑتال کے بعد
اجازت نامے جاری کرتے ہیں جبکہ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں بورڈ کے
کسی بھی دفتر سے کسی بھی فلموں کی سنسر شپ کرنے کیلئے درخواست بھی دے سکتے
ہیں۔موشن تصاویر آرڈینس 1979اور وسیع پالیسی فریم ورک اور عوامی نمائش
کیلئے فلموں انتظامی طریقہ کار کے تحت قوانین اپنے تصدیقی عمل میں مرتب
قوانین میں فلمسنسرشپ کوڈ معاشرے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور فلم
پاکستان میں بنانے کیلئے رہنما اصول بھی رائج کرتی ہے۔فلم انڈسٹری سنسر شپ
کے لئے کوڈ پر عمل کرنے کیلئے سخت پالیسی اقدامات ، تصدیق فلموں جبکہ ہر
ممکن کوشش قبول اخلاقی معیار آمیز ہے جس کے ذریعے کوئی منظر ، رقص یا بات
چیت کے حوالے سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ وہ معاشرے کے عین مطابق
ہے یا نہیں۔فلموں کی تحقیقات کرتے ہوئے سییفیسی کسی بھی فلم کے حصے یا فلم
کے قابل اعتراض ہونے پر عوامی نمائش کو ختم کرنے کے احکامات دے سکتی ہے۔فلم
میں اخلاقی معیار ، جرم کی جانب راغب رجحان یا کسی بھی طبقے کے جذبات زخمی
و متاثر ، قومی جذبات کو ٹھیس پہنچے اور ظاہر فحش لباس یا مناسب ، ڈائیلاگ
، گانے ، نغمے ، رقص ، مذاق یا ایسے اخلاق باختہ اشاروں، یا کسی بھی مذہبی
فرقے ، ذات اور مذہب پر حملے پر بھی فلم کو نمائش کے اختیار حاصل
نہیں۔پاکستان کے فلم سنسر کے ارکان سینٹرل بورڈ (ترمیم) پاکستان
Videنوٹیفیکشن جاری کردہ وفاقی حکومت کے آرڈر نمبر F.76(2)/2012-SOتاریخ
12اکتوبر2012 ء کو یہ واضح احکامات دئیے گئے۔24مئی 2013ء کو سندھ کیلئے نیا
فلم سنسر بورد تشکیل دیا گیا سولہ ممبران پر مشتمل سندھ سنسر بورڈ میں بارہ
اعزازی اور چار سرکاری ممبران شامل ہیں۔سندھ سنسر بورڈ کے چیئرمین ذوالفقار
رمزی اور ڈپٹی چیئرمین سنسر بورڈ کے سیکرٹری امجد شاہ معصومی مقرر کئے گئے
، اعزازی ممبران میں اداکار ندیم ، زیبا بختیار ، عدنان خان ، منظور قریشی
، ثانیہ سعید ، سعید رضوی ، رمیش نانا ، محمد علی مانجی ، سعید شیراز ، عمر
خطاب ، ذوالفقار رمزی قابل ذکر ہیں ، نئے سنسر بورڈ کی تشکیل کے بعد بورڈ
نے فلموں کو سنسر کرنے کاکام شروع کردیا ، سنسر بورڈ سندھ کے سیکرٹری امجد
شاہ معصومی نے بتایا کہ فلم پروڈیوسر اور تقسیم کاروں کا پر زور مطالبہ تھا
کہ کراچی میں فلموں کو سنسر کیا جائے ، کیونکہ اسلام آباد جاکر فلم سنسر
کرانے کے اخراجات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں ، اس سنسر بورڈ کا نوٹیفیکشن نگران
حکومت نے جاری کیا اور اسے مکمل اختیارات کے ساتھ فعال کردیا۔سینٹرل بورڈ
آف سنسر عید الفطر کی تعطیلات کے سلسلے میں آٹھ اگست سے دس اگست تک بند رہا
۔ تمام مقامی فلمساز اور فارن فلمزکو تاکید کی گئی تھی کہ چھ اگست کے بعد
کسی بھی فلم کو نمائش کے اجازت نامے نہیں دئیے جائیں گے ، لیکن اس کے
باوجود کراچی میں عید سے ایک دن پہلے فحش پشتو فلموں کو اجازت نامے فراہم
کئے ، بلکہ مورخہ انیس اگست ۲۱۰۳ ء کو ایک اورپشتو فلم" شرط "کو نمائش
کیلئے اجازت نامہ جاری کیا گیا جو عید کے دن سے پشاور سرکٹ میں چل رہی ہے
جیسے نمائش کیلئے اجازت نامہ جاری نہیں کیا تھا۔پنجاب میں اندسٹری کی بحالی
کیلئے وزیر اعلی پنجاب نے ہنگامی بنیادوں پر کمیٹی قائم کی ، سنئیر اداکار
ندیم سے جب اس حوالے سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ فلم اندسٹری ختم نہیں
ہوئی بلکہ ابھی بھی سانسیں لے رہی ہے اسے توانا اور عروج پر لے جانے کیلئے
سب کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہوگا۔ حکومت کی طرف سے ہمیں انڈسٹری کی
بحالی کیلئے کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے ہمیں مثبت سوچ رکھتے ہوئے
اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے ، انڈسٹری کی بحالی کیلئے حکومتی سرپرستی ناگزیر
ہے لیکن ہمیں بھی تو اس کے کچھ کرنا چاہیے۔"مرکزی سنسر بورڈ کی تمام تر
توجہ غیر ملکی فلموں کی جانب مبذول ہے اور پاکستانی فلموں کیلئے اس کا
کردار غیر فعال ہے۔جس کا ثبوت اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سنسر بورڈ نے
پہلے"ڈرٹی گرل"کو پاس کیا ، لیکن ریلیز کے بعد پھر پابندی لگادی ، عدالت کے
روبرو ڈی سی لاہور کے نمائندے نے بتایا کہ پنجاب میں سنسر بورڈ نہیں ہے اس
لئے پروڈیوسر وفاقی سنسر بورڈ اور سندھ سنسر بورڈسے این او سی لیکر فلم کی
نمائش کرواتا ہے ، لیکن ڈرٹی گرل کی نمائش کیلئے سندھ سنسر بورڈ سے اجازت
لی گئی تھی۔یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر ناصر سعید شیخ کی عدالت میں
چل رہا ہے جنھوں نے عید الفطر پر ریلیز ہونے والی فلم ڈرٹی گرل کی نمائش
روکنے کے خلاف وفاقی سنسر بورڈ اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے
تحریری جواب مزید سماعت23اگست تک ملتوی کرتے ہوئے طلب کرلیا ہے۔قابل ذکر
بات یہ ہے کہ پنجاب میں ابھی تک فلم سنسر بورڈ ہی تشکیل نہیں دیا جاسکا ،
پنجاب میں فلم سازوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب میں جلد ازجلد
سنسر بورڈ قائم کیا جائے۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر وہ تخلیق اور تحریر
سنسر ہوسکتی ہے جو مخرب اخلاق ہو یا اس سے کسی کے مذہبی اور قومی تشخص کو
ٹھیس پہنچے، 1965کی جنگ کے بعد بھارتی فلموں کی نمائش روک دی گئی تھی لیکن
سنسر بورڈ اب بھارتی فلموں کو بے ڈھرک نمائش کی اجازت اسی طرح دے رہا ہے
جیسے فحش پشتو فلموں کو اجازت دی جا رہی ہے ۔ سنسر بورڈ کے اراکین اس کا
ملبہ اسلام آباد پر ڈالتے ہیں تو اُن سے رابطے کے بعد علم ہوتا ہے کہ کراچی
مقامی اور مرکزی سنسر بورڈ غیر ملکی فلموں کے اجازت نامے جاری کرتا ہے ،
مقامی فلموں کیلئے مرکزی بورڈ غیر فعال کردار ادا کر رہا ہے۔سندھ سنسر بورڈ
کی جانب سے بھی پشتو کی ایسی فلموں کو نمائش کی اجازت نامے دے دئیے جاتے
ہیں کہ جو پختون ثقافت کے برخلاف اور عریاں رقصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ گذشتہ
دنوں سندھ سنسر بورڈ کے ایک اعزازی رکن عمر خطاب سے بات چیت ہوئی تو انھیں
اس بات پر اصرار تھا کہ ان کی جانب سے ایسی کسی فلم کو اجازت نامے نہیں
دئیے جاتے ، جو کراچی سے باہر نمائش پزیر ہوں ، ان کی اس بات کو غلط ثابت
کرنے کیلئے لاہور ہائی کورٹ میں چلنے والے مقدمے ڈرٹی گرل اور جیو نیوز کی
رپورٹ کا حوالہ دینا ضروری ہوگیا ، جیسے لاہور؍پشاور سرکٹ میں نمائش کیلئے
کراچی سے اجازت نامہ فراہم کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پشاور میں چلنے والی
بغیر سنسر شدہ فلم " شرط" کو بھی مورخہ20 اگست کو جاری کئے ، حالاں کہ فلم
پشاور میں چل رہی ہے ، یہی عمل عید سے ایک دن قبل پشتو فحش فلموں کو اجازت
دیکر دوہرایا گیا ، ایک پشتو فلم میں اس قدر عریاں اور فحش مناظر تھے کہ
عوام کے شدید اعتراض پر سنسر بورڈ نے چھاپہ مار کر ایسے ضبط کرلیا ، لیکن
یہ عمل پہلے بھی جاری تھا اور اب بھی جاری ہے کہ پشتو فلموں پر سنسر کے کسی
قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اور چند مفادات کے خاطر پشتو ثقافت کے خلاف بننے
والی فلموں کو لسانی تعصب کی بنا ء نمائش کی اجازت فراہم کرکے اپنی جیبیں
گرم کر لی جاتی ہیں۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ سنسر بورڈ کی جانب سے بھارتی
فلموں میں عریانیت کی وجہ سے نمائش پر پابندی لگا دی جاتی ہے جیسے شوٹ آؤٹ
اوڈلہ ،لارا دتہ کی فلم ڈیوڈ،ایک تھا ٹائیگر،بھارتی فلم رانجھنا ،ونود
ایجنٹ جیسی کئی فلمیں شامل ہیں ، لیکن پشتو فلموں میں پختون ثقافت کے خلاف
بننے والی فلموں کو اجازت اور عریانیت کی فروغ کے لئے سنسر بورڈکا کردار
قطعی جانبدارانہ ہے۔مرکزی سنسر فلم بورڈ کی شاخ کراچی میں باقاعدہ کام کر
رہی ہے لیکن انکی جانب سے فحش و پختون ثقافت کے خلاف بننے والی فلموں کو
اجازت نامے دینا انتہائی شرم اور ان کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔فلم سنسر
بورڈ غیر ملکی فلموں میں پاکستانی ثقافت کے خلاف جب ایکشن لے سکتا ہے تو
پھر پاکستانی فحش پشتو فلموں سے روگردانی کیوں؟ سنسر بورڈ کو اپنی مجرمانہ
روش کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔کیونکہ یہ پختون ثقافت کے خلاف سازش ہے۔سنسر بورڈ
اپنی روش کو تبدیل کرے کیونکہ یہی بہتر ہے |